سود و زیاں۔۔۔سلمان اسلم

حسب معمول آج میں ڈیوٹی ختم کرکے گاڑی میں بیٹھ گیا تو مرا دوسرا ساتھی اور کمپنی میٹ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا مری طرف متوجہ ہوکر اپنا ہاتھ دکھا نےلگا اور کہا کہ یار مرے ہاتھ کو ذرا غور سے دیکھوہاتھ کے اک حصے پہ گوشت ارتعاشی حالت میں ہے ایسے جیسے کہ موبائل وائبریشن پہ لگا ہو۔ اسکے ساتھ باتوں باتوں میں یہ بات کھل گئی کہ اسکو ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہے۔ میں نے اس کو مشورہ دیا کہ بھئی عرب ممالک کی آب وہوا صحتمند نہیں بلکہ یہ انتہائی لاغر و مہلک ہے ہوسکے تو یہاں سے واپس اپنے وطن چلے جاو ۔یہ  بات مزید  آگے بڑھی تو مجھے   حیرانی ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ میرا وہ کمپنی میٹ چھ سال برطانیہ میں سٹڈی ویزے کے  ضمن میں اک لیگل ریزیڈنٹ پرمٹ پہ رہ چکا ہے اور اس دورانیہ میں اس نے تقریباًًً  کروڑ روپے کمائے تھے اور اسکے علاوہ کرڑوں کی جائیداد کی وراثت میں حصہ بھی گاوں میں موجود ہے ۔ میں نے اک اور سوال داغا کہ یار پھر ادھر اور کیا کر رہے ہو؟۔ اس مکالمے کے آخر پہ میرے دوست نے مجھے نصیحتًا اک بات کی چونکہ وہ عمر میں مجھ سے بڑا تھا ، بولنے لگا اپنی  آنے والی نسلوں کے لیے اتنا کچھ کر جاو کہ کل کو وہ ہماری طرح ذلیل و خوار نہ ہو ں۔ ہم لوگ اسلام و تبلیغ کے چکر میں معاش کو ترک کردیتے ہیں جسکا نتیجہ میرے اور تیرے جیسے بچے در در پہ ہجرت کی شبراتیں کاٹ کر بھگتتے  ہیں۔ اس س کے بعد وہ اپنے روم میں  چلا گیا اور میں اپنے روم میں  آگیا۔۔۔

امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے فخر محسوس کرتے ہوئے کہاتھا ” وی آر دی بل نیشن ” ۔ جی ہاں آئی ٹی کی دنیا کا بڑا نام بل گیٹس جو اپنے وقت میں سکول سے نکالا گیا تھا جسکی نالائقی پہ ٹیچر نے اسکو اک بار کہا تھا “بل تمہیں اک ڈرائیور ہونا چاہئیے۔” مگر پھر وقت نے پلٹی کھائی اور مادی دنیا کے فلک پہ بل گیٹس اک درخشندہ کوکب کی مانند نمودار ہوا۔ دنیا کے اگر کامیاب ترین لوگوں کی فہرست بنائی جائے توبل گیٹس کا نام صف اول میں آئے گا ۔ بل گیٹس نے کہا تھا کہ “آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو اسمیں آپ کا قصور نہیں لیکن اگر آپ غریب مر گئے تو  آپ اس میں مکمل قصوروار ہیں ۔”
اسی ملفوظ کو عالم اسلام کے ہر دوسرے فرد نے دل سے لگا رکھا ہے اور اندھا دھند دوڑتے جا رہے ہیں اور اسی فکر میں مستغرق ہیں کہ کہیں غریب ہی نہ مرجاوں ۔ بلاشبہ ہم انتہائی پڑھے لکھے ہیں مگر جہالت آج بھی ہماری  رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے ۔ہم مادی دولت کے بل بوتے پہ مادی ترقی و کامیابی کے حصول کے سحر میں اسطرح مقید ہو چکے ہیں کہ اسلام کو صرف زبانی کلامی ایقان تک رکھا ہوا ہے ۔
بظاہر دیکھا جائے تو اس دوست کی بات (جو شروع میں بیان کی جا چکی ہے) عقل معاش کے تناظر میں صد فی صد درست تھی مگر عقل معاش  کے پہلو سے جہالت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ کیونکہ ہم دنیا  کمانے کے چکر میں ، آنے والے نسلوں کو سہل پرور زندگی  دلانے کے چکر میں عقل معاش کی پرستش شروع کرنے لگتے ہیں اور عقل معاد (آخرت) کو اک طاق میں رسومات کی حد تک مقفل کر دیتے ہیں ۔ اسی کو علامہ صاحب نے فرمایا تھا۔۔

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

اور ہمارے ہاں المیہ بھی یہی ہے کہ ہم کامیاب ہی اسی کو کہتے اور مانتے ہیں جو عقل معاش کے بل بوتے پہ دولت و جائیداد کی ریل پیل لگا دے۔ جسے  چلنے کے لیے عالیشان گاڑی ، پہننے کے لیے قیمتی لباس ، کھانے کے لیے لذیز ڈھیر سارے کھانے میسر ہو۔ مگر ہم بھول چکے ہیں کہ ان سب نے پیچھے رہ جانا ہے اور ہم نے چلے جانا ہے ۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ یہ محض اک دھوکہ ہے فریب ہے ۔ اور اللہ نے اسکو قرآن میں نہایت واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے

ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۱۸۵﴾
اوردنیاکی زندگی توصرف دھوکےکی جنس ہے۔( سورہ آل عمران 185)

مگر پھر بھی اک غیر مسلم مادہ پرست انسان کے ملفوظ کو خاطر میں لاکر اس پہ عمل کو ہم نے ناگزیز بنادیا ہے۔ غریب مرنے کو تو جیسے ہم گناہ سمجھتے ہیں۔ بسا اوقات غربت ہی انسان کیلئے بہتر ہوتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

{وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ}
اگر اللہ تعالی اپنے بندوں کیلئے رزق کی فرا وانی کر دیتا تو سب زمین پر فساد بپا کر دیتے[الشورى : 27] (خطبہ خادمین شریفین 9 مارچ 2011)

یعنی لوگ اللہ کی اطاعت کیلئے وقت نہ نکالتے، جسکی وجہ سے لوگ بغاوت، سرکشی، اور مخلوق پر جبر کرنے لگتے۔ اک لمحے کے لیے توقف کرکے سوچیں تو سہی کیا آج ہم اسی دور سے نہیں گزر رہے ؟ دولت کی خاطر والدین کو چھوڑ چکے ، اہل و عیال سے قطع رحمی کر چکے ہیں کیا یہ جبر نہیں؟ اولاد کے تربیت اور اخلاق کا علم نہیں بس کمانے میں  لگے ہیں اس لیے کہ وہ زندگی میں ہماری طرح خوار نہ ہو ں اور یہ فکر سرے سے ہے ہی نہیں کہ بچہ نماز نہیں پڑھتا، اپنے اور اسکی آخرت کی فکر ہی نہیں ۔ کیا یہ جبر نہیں ؟ دینی امور میں تو اب یہاں تک نوبت آئی ہے کہ وہ اپنی  قبر میں جائے گا اور میں اپنی  قبر میں، اور یہ دلیل بھی اغیار سے سیکھ لی  ہے جو دین اسلام پہ عقلی قضیے سے وار کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں کہ دین میں زبردستی توہے ہی نہیں۔ کیا یہ جبر نہیں ؟

یہ درست ہے کہ غربت کو احادیث میں کچھ اس طرح کے الفاظ میں خطاب کیا ہے ۔ سرورِ دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

کَادَ الْفَقْرُ انْ يَکُوْنَ کُفْرًا.
غربت و افلاس اِنسان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں۔۔۔

(بيهقی، شعب الايمان، 5: 267، رقم: 6612)

مگر خدارا اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دنیاداری میں جت جاو ۔ بلکہ اسمیں حلال طریقے سے کسب کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔ گھر میں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر  بیٹھنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ بلکہ محنت مزدوری سے اپنے ہاتھ سے حلال رزق کمانے کو معتبر جانا گیا ہے جیسے اک اور جگہ رسول خداحضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

”الکاسب حبیب الله “محنت کار الله کا دوست ہوتا ہے ۔“

یاد رکھیں الله رب العزت نے حصول رزق کی جبلی خصوصیات تمام جان داروں میں ودیعت کی ہیں، کھانا، پینا، فطری امور میں خالق فطرت نے انسان کو آزاد نہیں چھوڑا ہے ۔ فرمایا

﴿ فطرة الله التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق الله﴾․

زندگی کو آسان بنانے کے لیے جن امور پر زندگی موقوف ہے ان کی ہدایت اور راہ نمائی بذریعہ آسمانی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ انسانی حیات کی تعمیر وترقی کے لیے اسلام نے حدود وقیود، کمیت وکیفیت اور حلال وحرام کی تمیز بتائی ہے اور قرآن وسنت کی تعلیمات نے حصول رزق کے جائز طریقوں سے منع نہیں فرمایا ۔
( ڈاکٹر محمد اشرف کھوکھر جامعہ فاروقیہ کراچی )
مگر فقط دنیا کے   ہو کر رہ جانا، امیر سے امیر تر ہونے کی تگ ودو کرنا اک مسلمان مرد مومن کا شیوہ نہیں۔ اسی کو علامہ صاحب نے اک شعر میں یوں فرمایا ۔۔
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

یہ دنیاوی مال و دولت یہ رشتے ناطے سب انسانی وہم و گمان کے کنگلے بت ہیں اس سے زیادہ انکی کوئی وقعت نہیں اور نہ ہی یہ کامیابی کا کوئی معیار ہے ۔ معیار تو کامیابی کا بس اک ہی ہے اور وہ ہے لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ ۔ اصل اور بڑی حقیقی کامیابی کو تو قرآن میں اللہ نے واضح کردیا ہے ۔
ارشاد ربانی ہے ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، یہی لوگ اصحاب جنت ہیں اور اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔”
اک اور جگہ قرآن میں ارشاد ربانی ہے ”

” فَمَنْ زُحْزِحَ عَنٍ النَّارْ ، وَاُدْخِلَ الْجَنَّتہَ فَقَدْ فَازْ۔”
( پس جو دوزح کی آگ سے محفوظ رہا اور جنت میں داخل ہوگیا ، وہ کامیاب ہوگیا۔) مفہوم ۔
اور اللہ جل شانہ اسی کامیابی کے بارے میں قرآن میں فرماتا ہے ۔ ” جنہوں نے نیک اعمال کیے ، ان کے لیے جنت میں باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے
(ذَالِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْر ۔ 85:11).

خرد معاش فقط زمان ومکان کی مادیت پرستی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ نہ اس زمانے نے رہنا ہے اور نہ مکان نے۔ ان سب نے فنا ہو کر جانا ہے اور ایسی کامیابی آخر کس کام کی جو انسان کے خرد معاد کو جگا نہ سکے بلکہ ایسی کامیابی اور خرد انسان کی ہلاکت ہے ۔ مادی دنیا کی امارات جو ہمیں بظاہر فائدے و کامیابی کا سودا نظر آتاہے وہ دراصل نقصان  کا سودا ہے ۔
یاد رکھیں ہم اگر غریب پیدا ہوئے تو اسمیں ہمارا کوئی قصور نہیں لیکن اگر ہم غریب مرگئے تو اسمیں بھی کوئی برائی نہیں ، فکر اس بات کی کرنی چاہیے گر ہم بے ایمان مرگئے تو ہماری  ہلاکت   یقینی ہے ۔

علامہ صاحب نے اسی لیے فرمایا تھا ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

کِیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سُود و زیاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply