• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امیر جماعت اسلامی موقع کی تلاش میں ؟ ۔۔۔۔ اختلاف کی ایک ادنی جسارت

امیر جماعت اسلامی موقع کی تلاش میں ؟ ۔۔۔۔ اختلاف کی ایک ادنی جسارت

ایک نو آموز قلم کار کے طور پر میں بخوبی آگاہ ہوں کہ ایک لکھاری کے لئے موضوع کا انتخاب کتنا مشکل ہوتا ہے ، اسی کیفیت سے دوچار ہمارے کہنہ مشق صحافی جناب طاہر یاسین طاہر کو ٹی وی سکرین پر امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے ورکرز کنونشن سے خطاب کی خبر مل گئی اور انہوں نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو تختہ مشق بنانے کا فیصلہ کر لیا کہ پانی ہمیشہ ڈھلوان ہی کی جانب بہتا ہے اور نجی جہاد سمیت بے شمار بے بنیاد الزامات ہمیشہ سے عالی دماغ صحافیوں کے لئے پکی پکائی کھیر ثابت ہوتے ہیں۔ طاہر یاسین صاحب مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے سراج الحق کا شکریہ ادا کیا کہ نہیں تاہم میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ ٹھیک دس دنوں سے میں بھی آپ ہی کی طرح “موقع کی تلاش” میں تھا ۔ تو جناب اگر جان کی امان پاوں تو نکتہ بہ نکتہ آپ کی نگارشات پر کچھ کہنے کی جسارت کروں۔
آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ پاکستان کیا دنیا بھر میں ہر سیاسی جماعت ووٹرزکو راغب کرنے کے لئے دلفریب نعروں اور پرکشش منشور کا سہارا لیتی ہے اور یہ تاثر دیتی ہے کہ اقتدار میں آ کر ووٹرز کی محرومیوں کا ازالہ کرے گی اور ہر سو خوشخالی اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو گا۔ایسی ہی ایک معصومانہ خواہش کا اظہار امیر جماعت اسلامی نے بھی کیا کہ اگرانہیں موقع ملا تو وہ ملک میں اسلامی شریعت نافذ کر دیں گے ، ایک ایسا نظام اور معاشرہ قائم کریں گے جہاں حکمرانی صرف عوام کی ہو گی ، غربت اور جہالت نہ ہو گی وغیرہ وغیرہ۔اسی گفتگو میں لفظ موقع ملا کو بنیاد بنا کر آپ نے کمال کی طرح لگائی کہ جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لئے موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ اور خوب پھبتی کسی کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا مستقبل اس کے سوا کیا ہے کہ انہیں چند سیٹوں کے عوض ایک دو وزارتیں “عطیہ”کر دی جائیں ۔ پھر آپ نے خود ہی موقع کی تلاش کی دو تشریحات بھی پیش کر دیں۔ میں آپ کی پہلی تعریف سے بالکل “سہمت” ہوں کہ ووٹرز کی طرف سے ووٹ دے کر مذہبی جماعتوں کو اقتدار کی دیوی کے کلی وصال تک لانا ۔ دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ماضی و حال سے قطعہ نظر جماعت اسلامی روز اول ہی سے اسی موقع کی تلاش میں ہے ۔جو آئین پاکستان اور جمہوری عمل کے بالکل خلاف نہیں ہے۔ اور انفرادی و اجتماعی دائروں میں ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال کی ببانگ دہل مذمت کرتی ہے ۔ اپنی ان تمام تر توانائیوں کے ساتھ کہ جن کے آپ بھی معترف ہیں جماعت اسلامی پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اعلائے کلمۃ اللہ، اقامت دین اور آسان بھاشا میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے کوشاں ہے ۔ اگر ملک کا سواد اعظم اسی ووٹ کے ذریعے سراج الحق کو یہ موقع دے دے تو آپ سمیت کسی جمہوریت پسند کو بھلا اس سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے ۔ جماعت اسلامی دنیا جہان میں پھیلی ایسی ہی ان گنت اسلامی تحریکوں کی فکری راہنما ہونے کے باوجود اس داغ پر نادم نہیں کہ آج تک پاکستان کی عوام نے اسے چند سیٹوں سے ذیادہ کچھ نہیں دیا۔ اور شاید یہ پاکستان کی واحد جماعت ہو گی جو ہر الیکشن سے قبل مسند اقتدار کے خواب آنکھوں میں سجاتی ہے لیکن ہر دفعہ ہارنے کے بعد مایوسی یا جھنجلاہٹ کی بجائے نئے عزم و حوصلے سے میدان عمل میں اتر جاتی ہے۔
جماعت اسلامی یقیناً خامیوں سے مبرا نہیں ، لیکن اس کی خوبیاں اس کی خامیوں پر حاوی ہیں اور اس کے سخت ترین ناقد بھی اس کی پالیسیوں پر معترض ہونے کے باوجود اس کے افراد کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکے۔ جماعت اسلامی کے درجنوں افراد مختلف ادوار میں ارکان اسمبلی رہے اور وزیر و مشیر بھی رہے لیکن کسی ایک پر بھی کرپشن کا الزام نہیں، کیا یہ کمال نہیں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے مشہور زمانہ این آر او جس سے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس سمیت آٹھ ہزار سے زائد افراد مستفید ہوئے اس فہرست میں اس جماعت کا ایک فرد بھی شامل نہیں تھا۔
بازار سیاست میں ہر جماعت اپنی اپنی دکان سجا کر بیٹھی ہے۔ کسی کے پاس تبدیلی کے نمک پارے اور نئے پاکستان کا حلوہ ہے تو کوئی سندھ کے پتے بیچ رہا ہے ، کوئی ملکی ترقی اور سڑکوں کے جال بچھا کر معصوم پرندوں کا شکار کر رہا ہے تو کوئی اپنی قوم کے حقوق کا نیوئن سائن لگا کر بکنے کے انتظار میں ہے ۔ آپ جیسے تجربہ کار اور زیرک گاہکوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ نے خریداری نہیں کرنی تو نہ کریں لیکن کسی کونے کھدرے میں دیوار سے لگے اسلامی انقلاب کے اس ٹھیلے کو بھی لگا رہنے دیں ۔ اگر کسی ویگن والے نے اپنی حسرت کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے ویگن کے پیچھے یہ لکھوا ہی لیا ہے کہ “میں بڑی ہو کر بس بنوں گی” تو لکھا رہنے دیں آپ ناراض اسٹوڈنٹ کی طرح پتھر کیوں مارتے ہیں ۔ ممکن ہے اس پر بھی اس پرانے ٹرک کی طرح وہ وقت آ ہی جائے جب یہ اوورہالنگ اور ڈینٹنگ پینٹنگ کے بعد اپنے پیچھے لکھوانے کے قابل ہو جائے کہ “وقت نے ایک دفعہ پھر دلہن بنا دیا”۔ جہاں تک بات ہے نجی جہاد اور آمریتوں کے پروردہ چورن کی تو یہ ایسا شاندار مال ہے جو بازار ذرد صحافت میں سالوں سے بکتا آیا ہے اور جب تک مانگ باقی ہے بکتا ہی رہے گا۔ صرف یہ اختیاط ملحوظ خاطر رکھیں کہ پاکستان کی سالمیت کی خاطر آج تک وہاں دور تختہ دار پر جھولنے والوں اور “ادھر تم ، ادھر ہم” کا نعرہ لگانے والوں کا تذکرہ کہیں درمیان میں نہ آ جائے۔
آپ کا تجزیہ درست بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان ، ایشیاء اور مشرق وسطی میں مذہبی جماعتوں کاآئندہ کئی عشروں تک کوئی مستقبل نہیں ہے ، لیکن اسلامی تحریک کے ہر قائد سے لے کر کارکن تک “لگے رہو منا بھائی” کے مصداق پر عزم ہے کہ منزل چاہے کتنی دور ہو اور کامیابی کے امکانات چاہے کتنے ہی معدوم ہوں ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اگر ستر سالوں میں آپ کے خدشے پر عمل نہیں ہوا تو اطمینان رکھئیے آئندہ بھی ووٹ کے ذریعے کامیابی نہ ملنے پر کلاشنکوف اور فتوے کے ذریعے دباو ڈال کر اپنا حصہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ اگر قوت کے استعمال سمیت انتہاء پسندی کے کسی بھی ٹول کو استعمال کر کے فقط اقتدار کی غلام گردشوں تک پہنچنا ہی جماعت اسلامی کا مطمعہ نظر ہوتا تو اس سے کہیں آسان تھا کہ کسی سونامی کی طرح یہ جماعت بھی ہر کرپٹ اور لٹیرے مگر “الیکٹ ایبل” کے لئے اپنا دروازہ کھول دیتی اور ایک ہی جست میں چار سیٹوں سے دوسری بڑی پارلیمانی قوت بن جاتی یا مرکزی حکومت ہی بنا لیتی۔
مزید یہ کہ جماعت اسلامی کسی فرقے یا مسلک کی نمائندہ جماعت نہیں ہے یہ لیبل سنبھال کر رکھیں ، کئی اور نام آپ کو مل جائیں گے اور آخری گزارش یہ ہے کہ آئندہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے لئے ایک ہی حرف غلط استعمال نہ کریں اگر آپ کی لغت میں دو ہم معنی غلط الفاظ موجود ہوں تو ہماری سہولت کے لئے الگ الگ استعمال فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔

Facebook Comments

توصیف احمد
گزشتہ آٹھ سال سے مختلف تعلیمی اور رفاہی اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ آج کل پاکستان کی ملک گیر این جی او الخدمت فائونڈیشن کے سینئیر پروگرام مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ بچوں اور یوتھ کی کردار سازی کے لئے ٹرینر کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔لکھنے سے زیادہ پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں اور سیر و سیاحت اور دوستیاں بنانے کے فن کے ماہر ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply