بقا بس فنا کو ہے۔۔۔۔۔ احمد نصیر

کہا جاتا ہے کہ آپ ایک ہی دریا کو دو بار عبور نہیں کر سکتے۔ یعنی ہم جس پانی کو ایک بار عبور کر چکے وہ دوسری بار نہیں ملے گا۔ اگلے لمحے اس میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہم ایک ہی انسان کو بھی دوسری بار نہیں ملتے۔۔۔۔۔ اگر ہم اس چیز کو پوری طرح سمجھ لیں تو زندگی کے تقریباً تمام جھگڑے  ختم ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ہماری کھوپڑی چوبیس گھنٹے میدانِ جنگ بنی رہتی ہے۔ لوگوں کے غلط رویے، زیادتیاں، غلط نظریات اور طور طریقے ہمارے ذہن کا تقریباََ سارا وقت ہتھیا لیتے ہیں۔ اور ہمارے ذہن کا تخلیقی ڈیپارٹمنٹ ان الجھے بخیوں کو سلجھانے میں ہی اپنی توانائیوں کا بیشتر حصہ خرچ کرتا رہتا ہے۔ چلیں یہاں انسان کو دو حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ذرا  رُکیے  پلیز۔۔۔ میں خدانخواستہ کسی کو  کاٹنے نہیں جا رہا بلکہ میری مراد ہے ایک حصہ انسان کا جسم، دوسرا رویہ۔

سائنس کہتی ہے کہ انسانی جسم کے تمام خلیات ہر لمحہ تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں۔ کچھ چند منٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ چند گھنٹوں، کچھ دنوں، ہفتوں اور مہینوں یا   برسوں  میں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کا جو جسم کچھ عرصہ پہلے تھا وہ اب نہیں رہا آپ کا گوشت، ہڈیاں، عضلات، ریشے، بال، ناخن سب تبدیل ہو چکے ہیں۔

دوسری چیز ہے انسان کا رویہ۔ یہ بھی  لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے۔ ہر لمحے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ممکن ہے جس ترجیح کی وجہ سے کوئی انسان کسی لمحے رُوکھا رہا ہو وہ اگلے لمحے بدل چکی ہو۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اب اپنے رویے کا احساس کر کے نادم ہو اور ہم اس گزشتہ کی جھونک میں ری ایکٹ کر رہے ہوں۔

یہاں ایک لمحے کو رک جائیں اور سوچیں کہ آپ نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے؟ برا کیا ہے؟؟ نقصان کیا ہے؟؟؟ گُڈ۔۔۔۔ آپ کا جواب بالکل درست ہے۔ آپ نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا۔ آپ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ ہاں کبھی غلطی سے نہ چاہتے ہوئے کسی کے ساتھ کچھ غلط ہو گیا تو آپ کو اس کا احساس ہے، افسوس ہے۔ اب کیا ہو سکتا ہے وہ وقت تو گزر چکا۔ آپ کے کسی رویے کی وجہ سے اگر کوئی برا محسوس کر رہا ہے تو وہ اس کی اپنی سوچ ہے۔۔۔۔ بالکل ایسے ہی آپ کے ساتھ کسی نے زیادتی کی، برا کیا یا نقصان کیا تو یہ آپکی سوچ ہے۔ بات جو ختم ہو چکی آپ اسے کیوں اٹھائے پھر رہے ہیں؟ اگر آپ نے کسی کے ساتھ آج تک برا نہیں کیا تو کسی نے بھی آج تک آپ کے ساتھ برا نہیں کیا۔ سب آپ کا وہم اور سوچ کا غلط انداز ہے۔ آپ کوئی ڈائریکٹ آسمان سے اتری چیز نہیں ہیں کہ آپ کا نقصان، نقصان اور آپ جو کرتے آئے وہ۔۔۔۔۔ اگر آپ سے غلطیاں ہوتی رہی اور آپکی خواہش یہ رہی کہ اگلا جانے دے، بھول جائے، معاف کر دے، کیا ہوتا ہے۔۔۔۔ تو اگلے کا عمل بھی وہی غلطی سمجھیں اور جانے دیں ناں۔

کسی سیانے نے کہا ہے کہ اگر آپ کو کسی کی بات بری لگی۔ اور آپ ہر وقت اسی سوچ میں ہیں کہ کب موقع ملے اور میں اس کو تگڑا کرارا جواب دوں۔ تو اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ جلتا ہوا کوئلہ ہاتھ میں لئے ہوئے ہو۔ اور جب تک اس پر پھینک نہیں دیتے آپ کا ہاتھ مسلسل جل رہا ہے۔ جب تک آپ جواب نہیں دے دیتے تکلیف میں رہتے ہیں، خون جلاتے رہتے ہیں اپنا۔ اس سے آسان نہیں تھا کہ معاف کر دیتے اور اپنا قیمتی وقت بھی اس ٹینشن کے حوالے کئے رکھنے سے بچ جاتے۔

ہماری زندگی کا ہر لمحہ سپیشل ہے۔ لیکن ہم اکثر اپنے موجودہ لمحے کو ماضی کے کسی وقت پر قربان کرتے پائے گئے ہیں یا پھر مستقبل پر۔ جس طرح ہم دریا کے ایک پانی کو دو بارہ عبور نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح زندگی کا کوئی بھی لمحہ دوبارہ نہیں جی سکتے۔ ہر پل نئی زندگی، نئی دنیا، نیا سب کچھ۔ اگر ہم ایک لمحے کی اہمیت کو سمجھ کر موجودہ لمحے میں جینا شروع کر دیں تو زندگی کے حقیقی رَس کو پا سکتے ہیں۔ لیکن ہم اکثر کسی گزرے وقت کے ساتھ لٹکے سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ یا کسی آنے والے لمحے کو پکڑنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایک چیز اگر موجود ہی نہ ہو پھر بھی ہم اس کے لئے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوں تو کتنی خجالت ہوتی ہے۔ یہی خجالت وہ بری فیلنگ ہے جو  ماضی یا مستقبل میں ٹائم ٹریوَل کی کوشش کرتے ہمیں نصیب ہوتی ہے۔ ہم عادتاً بچپن سے ایسا کرتے آئے ہیں اور ہمارے ارد گرد کے لوگ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں اس لئے اس کو فطری سا جان کر وجہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔

موجودہ لمحے پر سوار ہو کر سفر کرنے کا لطف لینے کا وقت ہی نہیں ملتا ہمیں۔ حال میں جینے کی ہمیں عادت ہی نہیں یا تو ماضی میں پھنسے رہتے ہیں یا مستقبل میں۔ اصل میں ہم اپنی زندگی خود جیتے ہی نہیں۔ لوگوں کے رویے ہمارا رخ جس طرف موڑ دیں ہم ادھر کو ہو لیتے ہیں۔ ہماری زندگی میں سکون نہیں ہے۔ کیونکہ ہم اِدھر اُدھر بکھرے پڑے ہیں۔ کسی وقت مشرق کو نکل گئے تھے تو وہ حصہ اُدھر پڑا ہے کیونکہ ہمیں اسی وقت کسی نے مغرب میں کھینچ لیا تھا۔

اپنی زندگی کے مالک خود بنیں۔ ماضی کے غم، دکھ، زیادتیاں، جھگڑے، رولے حقیقت میں اب کہیں بھی وجود نہیں رکھتے۔ سب فنا ہو چکا ہے۔ سب تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے لئے قدرت نے معافی کا نظام  بنایا ہوا ہے۔ آپ چاہیں تو ابھی ایک بار میں پورے ماضی کو معاف کر کے سب صفایا کر سکتے ہیں۔ اور ابھی سے اپنی زندگی خود جینے کا آغاز کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی مکمل طور پر موجودہ لمحے میں ہے۔ موجودہ لمحے میں جئیں۔ اس طرح آپ اللہ کے دوستوں میں شامل ہو جائیں گے۔ جنہیں نہ مستقبل کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی ماضی کا غم۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بقا بس فنا کو ہے۔۔۔۔۔ احمد نصیر

  1. درجہ بالا تحریر انتہائی معیاری اور کار آمد ہے
    زندگی کے منفی پہلوؤں کا رخ بدلنےکے لئے مناسب محرک ثابت ہو سکتی ہے

Leave a Reply