باہمت وڑانگہ کا بہادر بھائی ارمان

ہم لوگ ڈاٹ کام!

پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم اور کور کمیٹی کے ممبر پروفیسر ارمان لونی کل لورالائی میں شہید کر دیے گئے۔ وہ لورالائی میں ایک پرامن دھرنا جاری رکھے ہوئے تھے جو لورالائی میں پے در پے ہونے والے دھماکوں اور کنٹونمنٹ ایریا سے زبردستی عوام کو بے دخل کرنے کے خلاف تھا۔

دھیان رہے حال ہی میں لورالائی میں پے درپے دھماکے ہوئے جس میں کئی لوگ شہید اور کئی زخمی ہوئے۔

ارمان لونی ایک پروفیسر اور سوشل ایکٹیوسٹ تھے اور ترقی پسند سوچ کے حامل تھے۔ اس کا اندازہ اس عمل سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں جہاں ریاست کا جبر ہوا، وہاں نہ صرف خود پہنچتے تھے بلکہ اپنی بہن وڑانگہ لونی کو بھی اتنا بااعتماد اور بہادر بنا دیا تھا کہ وہ بھی ان کا ساتھ دینے اور انسانیت اور امن کی جدوجہد کے لیے پیش پیش رہتی تھی۔ پشتون معاشرے میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں کہ عورتیں حتیٰ کہ باہر پھرتی ہوں مگر اس بہادر بھائی نے اپنی بہن کو بھی اتنا ہی بہادر بنا دیا جو ہر جلسے میں نہ صرف شامل ہوتی ہیں بلکہ ان کو سننے کےلیے لوگ بے تاب ہوتے ہیں۔

بنیادی طور پر ارمان لونی پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی سے وابسطہ تھے مگر جب سے پی ٹی ایم وجود میں آئی تو ارمان لونی نے اس میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور ہر جگہ اور ہر جلسے کو منعقد کروانے میں ان کی حیثیت بنیادی تھی۔

کراچی کے پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے کے دوران رینجر والوں نےگرفتار بھی کیا تھا اور موبائل بھی چھین کر لے گئے تھے جو بعد میں پریشر کے بعد واپس کر دیا اور پشتون تحفظ موومنٹ کے باقی ساتھیوں کو بھی رہا کر دیا گیا تھا۔

پشتون تحفظ مومنٹ نے جب تنظیم سازی کرنا شروع کی اور کمیٹیاں بنانا شروع کی تو ارمان لونی کو کورکمیٹی کا رکن بنایا۔ کوئی جلسہ ایسا نہ تھا جس میں انہوں نے شرکت نہ کی ہو اور اس کے انتظامات میں اپنا کردا نہ ادا کیا ہو۔

ان کی بہادری اور ترقی پسند سوچ کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ جہاں جہاں گئے اپنی بہن وڑانگہ لونی ان کے ساتھ ساتھ تھی۔ بہن بھائی کی اتنی محبت اور ایک دوسرے کےلیے سپورٹ قابل دید اور قابلِ رشک تھی۔ لوگ مثالیں دیتے تھے کہ ارمان نے تبدیلی کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ جب تک لوگ اپنی خواتین کو اعتماد اور ہر عمل میں شریک نہ کریں گے تو پھر وہ قومیں ترقی کی سوچ ہی چھوڑ دیں کیونکہ نسلیں خواتین سے ہی تیار ہوتی ہیں۔ یہ بات ارمان لونی ایک پروفیسر اور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے بخوبی جانتے تھے، تب ہی اپنے گھر سے اس کا آغاز کیا۔

عید سے کچھ دن قبل جب اسلام آباد میں گرفتار پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف دھرنا دیا تب بھی یہ بہن بھائی وہاں پیش پیش رہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کا جہاں بھی جلسہ ہوتا تھا اس کی مہم کے لیے وہ کئی دن قبل نہ صرف خود جاتے تھے بلکہ وڑانگہ لونی کو بھی ساتھ لے کر جاتے تھے اور گھر گھر جا کر کیمپین کرتے تھے۔ وڑانگہ اور ثنا اعجاز خواتین تک اپنا پیغام پہنچاتی تھیں۔ یہ بہن بھائی پی ٹی ایم کا پیغام ہر گھر سے ہر فرد تک پہنچاتے تھے۔

ابھی جب عالم زیب محسود کی گرفتاری کے خلاف کراچی میں دھرنا جاری تھا تو ارمان لونی وہاں بھی سب سے آگے تھے۔ اس کے بعد جب لورالائی میں دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور دھماکوں کے خلاف جب پشتون تحفظ موومنٹ نے دھرنے کا اعلان کیا اور دھرنے کے لیے بیٹھ گئے تو ارمان لونی نے ان کا ساتھ دینے اور حوصلہ بڑھانے کےلیے لورالائی کا رخ کیا۔ ان کا پُرامن دھرنا جاری تھا کہ پولیس اور خفیہ اداروں نے تشدد شروع کر دیا جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ارمان لونی جام شہادت نوش کر گئے۔

ان کی شہادت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہو گا۔ ارمان لونی کا گناہ یہ تھا کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے امن مانگتا تھا۔ ان کو بھی انسان سمجھنے کی درخواست کرتا تھا۔ ریاست پاکستان کے آئین کے حوالے دے کر اپنے لوگوں کے لیے انصاف کی درخواست کرتا رہا۔ مگر ریاست کو شاید انصاف اور امن کی پُرامن آواز سے بھی نفرت ہے، جس کا عملی نمونہ ارمان لونی کی شہادت میں ہمیں دیکھنے کو ملا۔

ایسے ہتھکنڈے ریاست کو کمزور کر رہے ہیں۔ ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں، ریاست کا جبر ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور طاقتور لوگ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ہر طرح کی طاقت استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ ہم نے بنگلہ دیش کی صورت میں بھی دیکھا ہے۔
اگر ریاست کے نمائندے سمجھتے ہیں کہ یہ ملک شاد اور آباد رہے تو لوگوں کو امن دیں اور ساتھ ساتھ جو بھی ملوث ہوں ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے، ارمان لونی کی شہادت کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔

دوسری طرف پی ٹی ایم قیادت بھی پرامن رہنے کا درس رہی ہے جو ایک اچھا پیغام ہے۔ پرامن احتجاج، سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ یوں جاری رہا تو بہت جلد ریاست گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بے شک ہر ماں، ہر بہن اور ہر قوم چاہے گی کہ ہمارا ہر فرد ارمان جیسا ہو۔
بے شک آپ کی خدمات سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔ ہر پشتون، وڑانگہ کا بھائی ہے۔ آپ کا خاندان ہر پشتون اور مظلوم کا خاندان ہے۔ ہر ماں کی خواہش ہوگی میرا بیٹا ارمان جیسی زندگی گزارے ، ظالم کو ظالم کہے، جابر کو جابر کہے، پرامن جدوجہد کا داعی ہو۔
آپ جیسا رہنما ہر پارٹی کی خواہش ہو گی، آپ جیسا بھائی نصیب والوں کو ہی ملتا ہے۔
اللہ آپ کے درجات بلند کرے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آپ کی جدوجہد کا مقصد بے شک ہر مظلوم کو انصاف دلانا تھا۔

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے


بشکریہ، http://humlog.com.pk

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply