• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انسانوں کی تجارت: نتیجہ اکثر جنسی غلامی، متاثرین میں خواتین زیادہ

انسانوں کی تجارت: نتیجہ اکثر جنسی غلامی، متاثرین میں خواتین زیادہ

قوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں انسانوں کی تجارت کے مجرمانہ واقعات میں سے قریب ساٹھ فیصد کا نتیجہ متاثرہ انسانوں کے جنسی استحصال کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسے افراد میں اکثریت مجبور خواتین کی ہوتی ہے۔

عالمی ادارے کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں جرائم پیشہ افراد اور گروہ ہر سال جتنے بھی انسانوں کی تجارت یا اسمگلنگ کرتے ہیں، ان میں سے ہر دس میں سے چھ واقعات کا انجام متاثرہ افراد کا جنسی استحصال یا ان سے جبراﹰ کرائی جانے والی جنسی غلامی ہوتی ہے۔

Opfer von Menschenhandel - Rohingya in Bangladesch انسانوں کی تجارت کا شکار ہونے والی، بنگلہ دیش میں ایک روہنگیا مسلم بچی

اس سے بھی زیادہ باعث افسوس اور قابل مذمت بات یہ ہے کہ جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے ان انسانوں میں اگرچہ بالغ اور نابالغ مرد بھی ہوتے ہیں تاہم ان کی بہت بڑی اکثریت بچیوں اور خواتین پر مشتمل ہوتی ہے۔

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں قائم اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر UNODC کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں قریب 25 ہزار افراد انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہوں کے ہتھے چڑھے اور یہ تعداد اس سے ایک سال قبل (2015ء) کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔

یو این او ڈی سی کے مطابق ان واقعات کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب دنیا کے کئی خطوں میں ماضی کے مقابلے میں ایسے جرائم کا پتہ چلانے اور ان کی روک تھام کے انتظامات قدرے بہتر بنائے جا چکے ہیں۔

München Bettlerin Symbolbild Zwangs-Bettler انسانوں کی تجارت کا ایک نتیجہ جبراﹰ بھکاری بنا دیا جانا بھی ہے

پھر بھی بہت تشویش کی بات یہ ہے کہ دنیا کے وہ 45 ممالک، جو اپنے ہاں انسانوں کی تجارت سے متعلق باقاعدہ اعداد و شمار ہر سال جاری کرتے ہیں، ان کے ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء تک ایسے جرائم کی شرح میں 2011ء کے مقابلے میں 39 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔

انسانوں کی تجارت ہے کیا؟

اقوام متحدہ کے انسانوں کی تجارت کے خلاف پروٹوکول کے مطابق کوئی بھی فرد یا گروہ انسانوں کی تجارت کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب وہ ’’ایسے انسانوں تک رسائی حاصل کر کے انہیں اپنے پاس رکھے، انہیں چھپائے رکھے یا ان سے اپنے مفادات وابستہ کرے، جن کا بعد ازاں استحصال کیا جاتا ہے۔‘‘

عالمی ادارے کے مطابق انسانوں کی یہ تجارت اکثر ’قتل کی دھمکیوں، ایذا رسانی اور طاقت کے مجرمانہ استعمال کی مدد سے اغوا، یرغمال بنائے رکھنے، دھوکا دہی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ایسے طریقوں سے کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں متاثرین کے مجبور اور لاچار ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا جسمانی اور جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔‘‘

Italien Menschenhandel Zwangsprostitution اٹلی اسمگل کیے جانے کے بعد جسم فروشی پر مجبور کر دی گئی ایک افریقی خاتون

ساٹھ فیصد متاثرین خواتین

عالمی سطح پر انسانوں کی تجارت سے متاثرہ افراد میں سے 60 فیصد کے قریب خواتین یا بچیاں ہوتی ہیں، جن کا یو این او ڈی سی کے مطابق جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے، جیسے ان کے ساتھ کی جانے والی جنسی زیادتیاں یا پھر ان سے جبری طور پر غلاموں کی سی حالت میں کرائی جانے والی جسم فروشی۔

بین الاقوامی سطح پر خواتین کا اس طرح کا جنسی استحصال زیادہ تر امریکا، یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا میں کیا جاتا ہے۔ ان ہزارہا متاثرین میں سے قریب ایک تہائی کو جبری مشقت پر بھی مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا استحصال زیادہ تر افریقہ کے وسیع تر خطوں اور مشرق وسطیٰ میں کیا جاتا ہے۔

Libyen | Proteste gegen Menschenhandel انسانوں کی تجارت کے خلاف لیبیا میں ایک احتجاجی مظاہرہ

اقوام متحدہ کے مطابق انسانوں کی تجارت کا ایک اور درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے انسانوں سے اکثر جبراﹰ بھیک بھی منگوائی جاتی ہے اور پھر ان کی مرضی کے خلاف ان کے جسموں سے مختلف اعضاء بھی غیر قانونی طور پر نکال کر بیچ دیے جاتے ہیں۔

نابالغ بچیوں کی تعداد قریب ایک چوتھائی

عالمی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی سطح پر ہر سال جتنے بھی انسانوں کی تجارت کی جاتی ہے، ان میں سے قریب 23 فیصد نابالغ بچیاں ہوتی ہیں، جن کو زیادہ تر جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جن مردوں کی تجارت یا اسمگلنگ کی جاتی ہے، ان میں سے بھی کچھ کا تو جنسی استحصال کیا جاتا ہے، لیکن ان کی بہت بڑی اکثریت کو بعد ازاں جبری مشقت پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق دنیا میں ہر سال انسانوں کی تجارت کا نشانہ بننے والے افراد میں نابالغ بچیوں کی تعداد تقریباﹰ 28 فیصدبنتی ہے۔ اس کے علاوہ جن افراد کو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے ہاتھ لگ جانے کا سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے، ان میں سے غربت کے شکار افراد کے علاوہ مہاجرین اور تارکین وطن سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنے والے سماجی گروپ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جرمنی میں صورت حال

جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے بی کے اے کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں جن جرائم کا پتہ چلایا گیا یا جن کی تفتیش مکمل کی گئی، وہ ظاہر کرتے ہیں کہ سال 2017 میں انسانوں کی تجارت کا شکار بننے والے افراد کی تعداد 671 تھی۔

ان افراد کا جنسی استحصال بھی کیا گیا، ان سے بھیک بھی منگوائی جاتی تھی اور ان میں سے سینکڑوں سے جبری مشقت بھی کرائی جاتی تھی۔ جرمنی میں ایسے متاثرین کی 2017ء میں یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ تھی۔

م م / ع ح / ڈی پی اے، کے این اے

بشکریہ ڈی ڈبلیو

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply