گھٹیا افسانہ نمبر 18۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

میں نے فیس بک پر آج ایک نئی نظم پوسٹ کی ہے۔ اس پہ میرے ایک دوست نے کمنٹ کیا ہے کہ تم فیض احمد فیض کی طرح کی نظمیں لکھ رہے ہو۔ ساتھ اس نے دل بنا کر بھی بھیجا۔ مجھے علم ہے میری یہ نظم انتہائی بےوقوفانہ جاہلانہ اور بچگانہ تھی ۔ نہ میری  نظم  میں ردھم تھا نہ ترنم تھا نہ کوئی اس کے اندر طریقہ تھا نہ کوئی  ترتیب تھی۔ بس مختلف نثروں ناولوں اور گیتوں میں سے چرائے ہوئے الفاظ تھے۔ اس پر ایک ایسے بندے کا کمنٹ جس کو فوری طور پر مجھے خوش کرنا ہے کیوں کہ میں نے اس کا ایک کام کرنا ہے۔ اچھا یہ تو ہو گئی ایک خوشامد۔ ایک ضرورت مند نے اپنی ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا کمنٹ کیا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں ایک شاعری کی سوجھ بوجھ رکھنے والے اچھے بھلے شاعر نے کمنٹ کیا ہے۔ میری تعریف کی ہے اور ایک دل بنا کر بھیجا ہے۔

اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے کہ میں ان کی شاعری کی ہمیشہ بہت زیادہ تعریف کرتا ہوں۔ اب انہوں نے بدلہ چکانے کے لئے میری فضول سے نظم کی تعریف کردی صرف اس لئے کہ میں ان کی شادی کی تعریف کرتا رہوں تعریف جاری رکھوں۔ نیچے میرے ایک کزن نے کمنٹ کیا ہے کہ شاعری کے علاوہ بھی زندگی کے اندر بہت سی چیزیں ہیں ان کے اوپر توجہ دو۔ میرے کزن نے پوسٹ پر بالکل درست کمنٹ کیا ہے۔ میں نے اس کے پچھلے تین مہینے سے 27000 روپے روکے ہوئے ہیں۔ واہ واہ، بھائی کیا بات ہے، آپ تو بہت اچھے شاعر ہیں جیسے فضول کمنٹوں کے علاوہ ایک کمنٹ ایسا ہے جس کے اندر لکھا ہوا ہے ارے وہاں اتنی پیاری شاعری کس کے لیے لکھی ہے؟ یہ میری ایک انتہائی نجی، مخفی اور سیکریٹ محبوبہ کا کمن5 ہے۔ نیچے ایک مولوی نما شاعر کا کمنٹ آیا ہوا ہے وہ خود کو بہت بڑا شاعر سمجھتا ہے اور مجھ سے کچھ جیلس بھی ہے۔

اس نے لکھا ہے کہ آپ کی نظم کا مرکزی خیال تو اچھا ہے لیکن ترنم کی شدید کمی ہے۔ حالانکہ اس کی اپنی نظمیں انتہائی بے ہودہ اور گندی ہوتی ہیں۔ اس کی نظموں میں میری نظموں سے بھی گندا وزن اور گندا ترنم ہوتا ہے۔ لیکن بس وہ مجھ سے جیلئس ہے۔ میرے لیے بہت زیادہ گندا دل رکھتا ہے۔ اس لئے وہ میرے اوپر اس طرح کے کمنٹ کرتا رہتا ہے۔ ابھی میں اس ساری صورتحال کا اندازہ کر رہا ہوں۔ اس کو ساری صورتحال کو دیکھ رہا ہوں۔ سارے کمنٹ دیکھ رہا ہوں تجزیہ کر رہا ہوں کہ میری ایک دور کی خوبصورت رشتے دار نے اس نظم کے اوپر دل والا کمنٹ کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک سال پہلے اس سے رشتہ دار خاتون کو اپروچ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس نے نخروں کا اظہار کیا۔ مجھے محسوس ہوا وہ خاتون پیسے کھانے کے چکروں میں ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے جن خواتین کو امیر سمجھ کر ان سے رابطے کرتا رہا تھا، آخر میں ہمیشہ انہوں نے ہی مجھ سے پیسے مانگ لیے۔

ہمارے شہر کا ہی ایک بہت امیر خاندان ہے ان کی اپنی ملیں ہیں۔ ان کے اپنے بڑے بڑے کاروبار ہیں۔ شوروم ہیں۔زمین ہے اور بھی بڑے بڑے کاروبار ہیں۔ وہ کنسٹرکشن کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ وہ کسی یونیورسٹی کا کیمپس بھی یہاں اس شہر میں بنا رہے ہیں۔ او یار وہ لوگ بہت امیر ہیں۔ چائنہ سے اور انڈیا سے کاسمیٹکس بھی امپورٹ کرتے ہیں۔ چاول کی امپورٹ ایکسپورٹ اور کنوں کی ایکسپورٹ امپورٹ میں بھی ہاتھ ہے۔ ان کی ایک لڑکی جو یونیورسٹی میں پڑھا کرتی تھی سے مجھے یاد ہے میرا ٹانکہ کا فٹ ہو گیا۔ ایک مرتبہ اس نے مجھ سے 7000روپے ادارے مانگے۔ میں حیران پریشان بھائی اتنے امیر لوگوں ہو کر پھر بھی پیسے مانگ رہی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے گھر والے ان کو پیسے بہت کم دیتے ہیں۔ وہ بہت کنجوس ہیں۔ ہر کمرے میں اے سی لگا ہو گا لیکن سارے کے سارے ہال کمرے میں سوتے ہیں۔ حتی کہ جو نئے جوڑے ہیں وہ بھی اسی ہال کمرے میں سوتے ہیں۔ جب دل کرے گھر والوں کو یہ بتانے کا کہ ہم جوڑا ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں وہ اٹھ کے اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں، پندرہ بیس منٹ کے بعد وہاں واپس آ جاتے ہیں پھر اسی اے سی ہال میں سو جاتے ہیں۔ اس امیر لڑکی کا موبائل فون خراب ہوا ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کو کہا ہے۔ بھائیوں نے کہا ہے کہ ہم دو مہینے سے پہلے آپ کو موبائل فون لے کر نہیں دے سکتے۔ اس نے تو موبائل فون لینا ہے۔ اس لئے وہ مجھ سے پیسے مانگ رہی ہے۔ میں نے رب نواز اور امیر نواز سے بات کی وہ دونوں کزن راضی ہو گئے۔ ہم تینوں نے پانچ پانچ ہزار ملا کے اس کو 15 ہزار روپے دئیے کہ کوئی اچھا والا موبائل فون لے لو۔ وہ تو بہت خوش ہو گئی اس نے فورا مجھ سے 15000 روپے لیے۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد میں جب وہ واپس یونیورسٹی گیا۔ امیت لڑکی کے پاس گیا۔ وہاں بیٹھا رہا ہوں اس کے پاس۔ جب اس کے پاس بیٹھے بیٹھے میں نے اسکا موبائل فون دیکھا تو اس میں ربنواز امیر نواز اور اس امیر لڑکی کی ننگی تصویریں تھیں۔

دلاور آج چوتھی مرتبہ ایک ہی بات کا ذکر کر رہا ہے۔ میرا دل دھڑک رہا ہے۔ مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے۔ جام پور کے اندر عشق کی ایک نئی خونریز واردات ہونے والی ہے۔ دلاور نے دو ٹوک کہا ہے کہ وہ ہر حال میں اس لڑکی کو حاصل کرنا چاہتا ہے چاہے کوئی بھی قیمت اداکرنی پڑے۔ چاہے اسے جام پور کا جام پور قتل کرنا پڑے جائے۔ اسے پورا خاندان قتل کرنا پڑے جائے۔ اسے پورا پاکستان کا قتل کرنا پڑے۔ وہ اس لڑکی کو ہر حال میں اپنی بیوی بنانا چاہتا ہے۔ نکاح کرنا چاہتا ہے۔ لیکن دلاور کی پہلی بیوی بالکل اس بات پر راضی نہیں ہے۔ بلکہ جو 75 ایکڑ دلاور کاشت کر رہا ہے اور خان بنا پھر رہا ہے وہ اس کی بیوی کے نام پہ ہیں۔ دلاور ہر قیمت ادا کر سکتا ہے لیکن یہ 75 ایکڑ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا۔ میں نے پھر سے اس کو بتایا کہ جو طریقہ تمہیں بتایا ہے اس پر عمل کرو اس کے علاوہ تمہارے پاس کوئی دیگر طریقہ نہیں ہے۔ خیر دلاور نے اپنی محبوبہ لڑکی کے بھائی کے ساتھ دوستی بنانے کی ٹھان لی ہے۔ کبھی کہیں بیٹھے چائے پی رہے ہیں کبھی کہیں بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں کبھی کار پر کہیں جا رہے ہیں کبھی کار پر دوسری جگہ جا رہے ہیں کبھی کار پر بیٹھے ہوئے کہیں دعوت پر جا رہے ہیں۔ دلاور نے اپنے دوست یعنی اپنی محبوبہ لڑکی کے بھائی کو اپنے گھر دعوت پر بلایا ہے۔ جو نہیں کھانا شروع ہوا دلاور موبائل فون پہ کال سننے کے بہانے بار اٹھ کر آ گیا ہے۔ جب فون پر کال سن کر اندر داخل ہوا تو دیکھتا ہے اس محبوب لڑکی کا بھائی بے ہوش پڑا ہے۔ دلاور بےہوش لڑکے کو اٹھا کر اپنے گھر کے اندر کمرے میں لے آیا ہے۔ بستر پر لٹا دیا ہے جہاں اس کی بیوی پہلے ہی ننگی بیہوش پڑی ہے۔ دلاور نے فورا بے ہوش لڑکے کے کپڑے اتار کر اس کو ننگا کرنے کے بعد الماری میں سے کلاشنکوف اٹھا لی ہے۔ دونوں کو چار چار گولیاں مار دی ہیں۔ میں اور باقی علاقے والے گلی میں جمع ہو چکے ہیں اور بھاگتے ہوئے دلاور کی گھر کی طرف پہنچ چکے ہیں۔ دلاور نے باہر آکر بتایا ہے کہ وہ جب گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ یہ لڑکا اور میری بیوی ہمبستری کر رہے تھے۔ میری اپنی غیرت نے گوارا نہ کیا میں نے ان دونوں کو گولیاں مار دی ہیں۔ میں بلوچ غیرت مند ہوں۔ اندر جاکر دیکھ لو۔ ہم سب اندر آ گئے ہیں۔ ہفتے بعد پنچایت بیٹھ چکی ہے۔ سب نے دلاور کی تعریف کی ہے۔ دلاور کو سچا غیرت مند مرد مانا ہے۔ میں نے اپنی بجا رائے فورا پنچائت کے سامنے رکھ دی ہے کہ مقتول لڑکے نے اس کی بیوی کو ورغلایا ہوگا اب اس کی بیوی بھی قتل ہو چکی ہے دلاور اداس ہے پریشان ہے دکھی ہے۔ دلاور کو دوسرا رشتہ بھی دینا اسی مقتول خاندان پر فرض ہے کیونکہ اس کی بیوی اسی خاندان کے لڑکے کی وجہ سے قتل ہوئی ہے۔ پھر اب ہم نو ماہ بعد دلاور کا محبوبہ لڑکی سے نکاح کروانے ان کے گھر آئے بیٹھے ہیں۔ دلاور بہت خوش ہے اور ہم بھی خوش ہیں کہ ہماری سنگت خوش ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: تمام کردار اور واقعات افسانوی ہیں، جزوی یا کلی مماثلت حادثاتی ہو گی۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply