ایک ڈائری میں گم سارے گھر کا سامان۔۔۔۔روبینہ فیصل

کہاں سے شروع کروں ؟ ہر طرف سامان کے بکھرے ڈھیر دیکھ کر شمسہ نے سوچا ۔ کیوں نا لڑکیوں کے کمرے سے آغاز کر لوں ؟ یہ سوچ کر وہ ان کے کمرے میں گئی تو پنک کلر کے نئے اور پرانے کھلونوں ،کتابوں اور کپڑوں کے لامتناہی ڈھیر سے ملاقات ہو ئی۔ ۔اس کمرے کی مکین لڑکیوں کی عمریں بالترتیب ۱۰ اور ۹ سال تھیں، مگر کمرے میں ہر قسم کے میک اپ اور فیشن کی بھی چیزیں موجود تھیں۔وہ گھبرا کر وہاں سے باہر نکل آئی ۔پھر اسے خیال آیاکہ ہوسکتا ہے کہ مرنے والی کے اکلوتے چار سال کے لڑکے کے کمرے میں شائد سامان کم ہو تو وہ پیکنگ کا کام وہاں سے شروع کر سکتی ہے اور جب اور لوگ مدد کے لئے آجائیں گے تو دوسرے کمروں کا رخ کرے گی۔ کمرے کا دروازہ کھولا تو اس کی امیدوں کے برعکس وہاں بھی ،کتابیں ،کھلونے ،مختلف قسم کے کمبل بے حساب نظر آئے یعنی فرش سامان سے اور دیواریں مشہور کارٹون فگرز کے پوسٹرز سے اٹی پڑی تھیں ۔

جوان سالہ ماریہ کی موت کوئی اچانک نازل نہیں ہو ئی تھی وہ تو اس عالیشان گھر میں کئی سالوں سے تیرتی پھرتی تھی بلکہ اس گھر کے آسمان پر جو بادل ٹھہرتے تھے ، ان سے بھی موت کی سیاہی ٹپکتی تھی ۔ کینسر کا مرض ایسا ہی خرگوش صفت ہوتا ہے جس گھر میں پلتا ہے وہاں کی دیواروں کو ، رشتوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیتا ہے ۔اندر ہی اندر کتنی ایسی سرنگیں نکال لیتا ہے ، جو باہر سے دیکھنے والوں کو نظر نہیں آتیں مگر زیرِ زمین، مکینوں کی زندگیوں کو دھیرے دھیرے کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں ۔
شمسہ ، موت کی خبر سے پہلے بھی اس گھر میں بہت دفعہ آچکی تھی یہ ا سکی بچپن کی سہیلی کا گھر تھا ۔ وہ سہیلی جو بہت سالوں بعد اسے مسسزساگا کی ایک برفیلی شام کو سکوئر ون مال میں مل گئی تھی۔ تین سال پہلے ملنے والی ماریہ کو اس نے پہلی نظر میں نہیں پہچانا تھا کیونکہ اس کا حلیہ بہت بدل چکا تھا ۔ اس نے بال سنہری رنگ میں رنگے ہو ئے تھے اور جو پہلے سے زیادہ لمبے تھے ، حالانکہ اس کے بال ہمیشہ کانوں تک ہوتے تھے ،پلکیں بھی ضرورت سے زیادہ لمبی تھیں ۔ میک اپ کی بے تحاشا تہیں بھی چہرے کی تھکاوٹ اور بیزاری کو چھپانے میں ناکام تھیں ۔اس نے ہاتھوں کے ناخنوں کو سرخ رنگ سے رنگا ہوا تھا ۔ماریہ دراز قد تھی اور پہلے کبھی اونچی ایڑی والی جوتی نہ پہنتی تھی مگر اس وقت اُس نے کافی لمبی پنسل ہیل پہن رکھی تھی ۔مغربی فیشن کی چھوٹی سی شرٹ جس کا گریبان اس کے سانولے سینے کو چھپانے سے قاصر تھا ،اور جینز اتنی ٹائیٹ تھی کہ شائد اسے ٹائٹس ہی کہتے ہیں ،زیب تن کئے، ڈھیروں شاپنگ بیگ اٹھائے جب وہ مشکل سے قدم اٹھا رہی تھی تو شمسہ نے قدرے حیرانی سے اس مجموعہ تضاد کو دیکھا تھا ۔ اس عورت پر غور کر تے ہی اسے محسوس ہوا کہ اس سب سجاوٹ بناوٹ کے پیچھے تو کوئی جانا پہچانا چہرہ ہے ۔ اور جب وہ اتفاق سے کیش کاونٹر کے سامنے ماریہ کے عین پیچھے کھڑی اپنی باری کی منتظر تھی تو جیسے ہی سیلز گرل سے بات کے دوران ماریہ کی نرم آواز شمسہ کے کانوں میں پڑی ، اس کے ذہن پر چھائی دھند ایکدم سے ہٹ گئی اور وہ اپنی کلاس فیلو ماریہ کو پہچان گئیاور پہچانتے ہی ایسی آپے سے باہر ہو ئی کہ فٹ سے اسے پاس سے جا کر پکارا : ماریہ ؟
ماریہ چونک کے مڑی : کک کک کون ۔۔الفاظ یوں جیسے بغیر ارادے کے بس زبان سے لڑھک گئے ہوں ۔۔۔
پاس ہو نے کی وجہ سے شمسہ کو نظر آیا کہ میک اپ کی تہوں میں چھپی پیلاہٹ اس کا وہم نہ تھی ۔ وہ کسی ایسے بے جان مجسمے کی طرح لگ رہی تھی جس پر بہت  زیادہ رنگ و روغن ہو چکا ہو ۔۔ اس وقت وہ اکیلی تھی ۔ یا ہمشہ اکیلی ہی تھی ۔۔۔
“میں ہوں ، شمسہ ، تمھاری پرانی کلاس فیلو ۔ سلمی اور زارا کے گروپ میں ہوا کر تی تھی میں ۔۔ وہ جو ۔۔۔ ابھی وہ اور  نشانیاں بتانے لگی تھی کہ اس نے الفاظ درمیان سے ہی اچک لئے اور پہچان کی اس مسحور کن خوشی کو لہجے میں بھرتے ہو ئے بولی ؛
“پہچان لیا ۔۔ پہچان لیا ۔۔۔۔ تم وہ ہو نا جس کی توجہ نہ ملنے پر کالج کے ایک لڑکے نے نہر میں چھلانگ لگاکر مرنے کی کوشش کی تھی ، اور اتنی سنجیدہ بات لافنگ سٹاک بن گئی تھی جب نہر میں پانی ہی اتنا تھوڑا نکلا کہ وہاں جا کر وہ آرام سے کھڑا ہو کر سب سے باتیں کرتا رہا تھا ۔۔ ہا ہا ۔۔” یہ کہتے ہوئے ماریہ کے چہرے سے کالج کے دنوں کی اور کالج کی سوندھی مٹی کی خوشبو پورے مال میں پھیل گئی ۔ جہاں آس پاس گزرتے دنیا بھر سے آئے مہاجروں نے اس خوشبو کو اپنے اپنے طریقے سے اپنے نتھنوں میں جذب کیا ، اور ایک دوسرے سے لپٹی ان دو عورتوں کو جو ایک دوسرے کے گالوں کو شدتِ جذبات سے چوم رہی تھیں حیرت اور ہلکے سے شک سے دیکھا ۔یہی وہ دو عورتوں کی بجائے مرد اور عورت ہوتے تو کسی نے ان کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا تھا ۔
“تم ذرا نہیں بدلی ۔۔۔ “شمسہ یہ کہتے ہی خود ہی ٹھٹک کر رک گئی ۔۔”نہیں تم بہت بدل گئی ہو ۔۔ میرا مطلب باتیں ویسے ہی کرتی ہو جو منہ میں آیا کہہ دیا مگر ظاہری حلیہ بہت بدل لیا ہے تم نے ۔۔ کسی گوری کا اثر ؟ ”
ماریہ نے اپنا المشہور قہقہ لگانے کی ناکام کوشش کی : “گوری کا نہیں بیماری کا اثر کہو ۔۔۔۔۔ ”
“بیماری کا ؟ ۔۔۔ماریہ نے جواب دینے کی بجائے شمسہ کو اس کی حیرت سمیت تھاما اور اپنے گھر لے آئی اور یہ جان کر شمسہ کو خوشی ہوئی کہ ان دونوں کے گھر بھی کچھ زیادہ دور نہیں تھے ۔۔ بمشکل دس منٹ کی ڈرائیو پر ۔۔اُس سے زیادہ ماریہ اتفاق پر خوش نظر آرہی تھی :
“لو دیکھو خدا کے بھی اپنے ہی انتظامات ہو تے ہیں ۔۔ تمھاری مخلص طبعیت کا تو کالج میں دشمنوں کو بھی اعتراف تھا ، اور ایسے موقعے پر تم مجھے مل گئی اور اس طرح ملی کہ بس چند قدموں کی دوری پر ۔۔۔ ”
“ایسے موقعے پر ؟ “شمسہ نے دہرایا
“ہاں نا ۔۔ بیماری میں انسان کو ایک ہمدرد انسان سے زیادہ اور کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے ۔”
“کیا مطلب ماریہ ، تم مجھے ڈرا رہی ہو ۔۔۔۔ ”
“کیسا ڈر یار ۔۔ ڈر مجھ سے رہی ہو یا میری بیماری سے یا مجھے وقت دینے سے ؟ ”
“ہر بات سے ۔۔میرے وقت کی بات نہیں اسطرح دینے والے وقت کی بات ہے ۔۔ جو مجھے بھی مار دے گا ۔۔ ایسے کیوں ڈرا رہی ہو ۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors

ماریہ نے اسی عام سے اندازمیں کہا جس انداز سے اب سے تھوڑی دیر پہلے وہ اردگرد کھڑے لوگوں کی پروا کئے بغیر اسے سٹور کے کیش کاونٹر سے باہر دھکیل لائی تھی اور پھروہاں سے اپنے گھر تک بھی لے آئی تھی ،محل نما گھر کے آگے گاڑی کھڑی کر رہی تھی ، قیمتی ترین صوفوں میں دھنس کرا پنی بے تحاشا کی گئی شاپنگ دکھا رہی تھی ، بالکل اسی بے پرواہی سے بولی :
“مجھے کینسر تھا ۔۔بریسٹ کا ۔۔ علاج ہوا تھا ۔۔ اور میں ٹھیک بھی ہو گئی تھی ۔ لگتا تھا موذی دفا ہو گیا ہے ۔۔ مگر وہ تو تمھارے اس کالج والے عاشق سے بھی زیادہ ضدی نکلا , دھکے دے کے نکالا مگر پھر آگیا اور اب کے اس کم بخت نے چھاتیوں کونہیں بلکہ جگر کو اپنا گھر بنا یا۔بڑا عاشق مزاج جرثومہ تھا ، چن چن کے رومانوی آشیانے ڈھونڈے اس نے ،خیربریسٹ کینسر کے علاج کے بعد ڈاکٹر نے کہا بھی تھا کہ فالو اپ کرواتے رہنا مگر پتہ نہیں کیسے بھول گئی ۔۔ “شمسہ نے اسے بیماری میں مزاح کے رنگ ڈالتے دیکھ کے سوچا ، شائد بہادر ہے بہت یا یہ بھی ماسک ہو ، میک اپ کا ۔۔۔ کیا پتہ چلتا ہے کہ حقیقتا انسان کے اندر کیا چل رہا ہے۔اور یکا یک بیٹھے بٹھائے شمسہ کو یوں لگا جیسے درد سے اس کا سینہ پھٹ ہی جائے گا ۔ سامنے ٹنگی اس کی فیملی پکچر جس میں ماریہ کسی سایہ دار درخت کی طرح تینوں بچوں کو ساتھ لگائے کھڑی ہے ۔ اس کا شوہر اپنی گھنی مونچھوں اور ماتھے پر گرے ہو ئے سلکی بالوں کوہاتھ سے پیچھے کرتے ، ان سب سے الگ کھڑا محسوس ہوا ، حالا نکہ اس کا ہاتھ ایک بچے کے کندھے پر تھا ۔شمسہ نے اس کے شوہر کے جانے پہچانے چہرے کو نام دیتے ہوئے پوچھا یہ تو وہی سرفراز ہی ہے نا ، جو کہا کرتا تھا کہ میری سرفرازی اسی میں ہے کہ ماریہ کے چہرے پر مسکان سجائے رکھوں ۔۔
“ہا ہا ۔۔ ہاں ۔۔ ماریہ نے قہقہے لگانے کی ناکام کوششوں کو جاری رکھتے ہو ئے کہا : جانتی ہو نا ؟ یاد ہے نا ؟ میرا کزن تھا ،ہمارا کلاس فیلو نہیں تھا ، مگر کالج میں اتنا آیا کرتا تھا کہ سب اس کو ہمارے کالج کا ہی سمجھتے تھے ۔ سب لڑکوں سے دوستی گانٹھ رکھی تھی اس نے تاکہ میری خیر خبر رکھ سکے ۔۔ اور یاد ہے نا ابھی ہماری منگنی بھی نہیں ہوئی تھی کہ سب کلاس فیلو کو ایک دن لا کر مٹھائی کھلا دی اور کہا میرا نیا تعارف ہے ماریہ کا منگتیر اور ماریہ کا تعارف ہے سرفراز کی منگتیر ۔۔۔۔۔”
ماریہ کی آنکھوں کے بھیگے کناروں کو نظر انداز کرتے ہو ئے شمسہ بولی :
“ہاں منگنی بھی تو کروا ہی لی تھی ۔۔ وہ سرفراز ہو ہی گیا تھا ۔۔۔ نجانے شادی کب کی تم نے ؟ کیونکہ میں تو سب کچھ ویسے ہی پیچھے چھوڑ آئی تھی ، آخری پیپر کے بعد جب میری جھٹ پٹ شادی ہو گئی اور میں یہاں کینڈا آگئی تو میں تو بس سب پیچھے چھوڑ آئی تھی ۔۔۔۔۔”
“سرفرازی کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے شمسہ ؟ ماریہ نے گہری آواز میں کہا اور پھر ایکدم اسی مسخرہ انداز میں بولی جو کالج میں اس کی پہچان ہواکرتا تھا :
“اس سے پہلے تم چاء پئیو ۔۔۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کیسے تمھاری دوستیں شور مچایا کرتی تھیں کہ شمسہ چاء کو چائے نہیں کہنے دیتی ، کہتی ہے چاء کی چاہت کم کم سی ہوجاتی ہے۔۔ ہا ہا ۔۔ ابھی بھی ایسا ہی ہے کیا ؟”
“ہہم ۔۔۔ اب تو چائے ہی کہتی ہوں ۔۔” یہ کہتے ہوئے شمسہ کی آنکھوں میں زردی اتر گئی جسے اس نے کسی مسکراہٹ میں چھپانے کی کوشش نہ کی ۔۔۔اب اس کینسر کی مریض سے کیا چھپاؤں ؟ میرے سارے زخم ، سارے دکھ سب تنہائیاں اس کی بیماری کے آگے ہیچ ہیں ۔
ہاں ،تم نے محسوس کر ہی لیا ہو گا ، مجھ کوڑھ دماغ کو پتہ چل گیا توتم تو آخر کار سب سے ذہین طالبہ تھی ، تمھیں بھی پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ چاء نہیں “صرف چائے ہی درست اور عملی لفظ ہے ۔۔۔۔”ماریہ نے چائے کا چھوٹا سا گھونٹ بھرا۔
“تم نے فالو اپ کیوں نہیں کیا ؟ تم تو اتنی لاپرواہ نہیں لگتی تھی ، بہت نازک مزاج اور اپنے آپ کو توجہ دینے والی لڑکی تھی ، اتنی بڑی حماقت کیسے کر دی تم نے ۔۔۔ .”شمسہ ابھی تک ماریہ جگر کے کینسر کو ہضم نہیں کر سکی تھی ۔۔ تین چھوٹے چھوٹے بچے جو فیملی پورٹریٹ میں ماریہ کے ساتھ جڑے کھڑے تھے ، ان کو نظر بھر کر دیکھنے کی ہمت وہ کھو بیٹھی تھی اور نجانے کیوں سرفراز کی مونچھیں اپنی نوکوں سمیت اس کی آنکھوں میں چبھنے لگی تھیں۔
“چھوڑو ۔۔۔ ہو جا تا ہے ۔۔ بیٹھے بٹھائے کیسا کیسا نقصان ہو جاتا ہے ۔۔ یہ بھی ہو گیا ۔۔ مجھ سے بہت بڑا نقصان ہو گیا ۔۔ میں ان بچوں کی ماں کی حفاظت نہ کر سکی ۔۔ ایک عورت جو بکھری تو بس ماں بھی نہ بچا پائی) دل میں کہے گئے یہ الفاظ شمسہ تک نہ پہنچ پائے)۔۔۔ میرے بچے مجھے معاف کر دیں گے ۔۔”
ماریہ نے سختی سے ہو نٹ بھینچ لئے تھے ، آنسو روکنے کا یہی طریقہ اسے سمجھ میں آیا تھا ۔۔۔۔۔
“اس میں تمھارا کیا قصور ماریہ ۔۔ تمھارے شوہر کو دھیان رکھنا چاہیئے تھا ۔۔۔۔”
“رکھتا ہے ۔۔ رکھتا تھا ۔۔ رکھے گا ۔۔ سب کرتا ہے ۔۔ بیمار عورت کے ساتھ گزارا کرنا ۔۔ یہی بہت ہوتا شمسہ ۔۔۔ چاء کتنی اچھی ہے نا ؟”
شمسہ ،جو ابھی تک چائے کے کپ کو ہونٹوں تک بھی نہیں لے جا سکی تھی ایکدم سے بولی: ۔۔۔تم بیمار کیوں ہو گئی ۔۔۔۔وہ روہانسی ہو گئی تھی۔
“لوجی !! یاد ہے نا ہماری کلاس کا ہاتھ دیکھنے والا لڑکا ۔۔ کیا نام تھا اس کا ؟ آفتاب ۔ہاں یہی نام تھا ۔۔کنفرم۔ یہی تھا نا ؟”
پھر متذبذب ہو گئی ۔۔ یا قمر کچھ ایسا ہی آسمانی مخلوق والا نام تھا ۔۔” ماریہ کی حس مزاح کا ایک زمانہ پرستار ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔
“آفتاب ۔۔ شائد ۔۔ شمسہ نہ چاہتے ہوئے بھی سسکی ۔۔
“یاد ہے نا وہ کیا کہا کرتا تھا ، موت کی لکیر، محبت کی لکیر ،بیماری کی لکیر ، شادی کی لکیر ،بچوں کی لکیر ۔سفر کی لکیر۔تو پیاری جب سب لکیریں ، ہاتھوں میں کھود دی گئی ہیں تو میں اور تم کیا کر سکتے ہیں ؟یہ تو ہونا ہی تھا ۔۔ ماریہ نے سر آگے پیچھے جھٹکا ۔۔۔ یہ تو ہونا ہی تھا ۔۔ میرے ساتھ تو یہ ہونا ہی تھا ۔۔۔.”
شمسہ ، جو چند گھنٹے پہلے مال میں ملنے والی اس پرانی کلاس فیلو کو پا کر اپنی تنہائی کا مداوا سمجھ رہی تھی کہ قدرت کو اس کے اکیلے پن پر رحم آگیا ہے ، اب یک دم سے بجھ سی گئی تھی ۔
“قدرت نے دیکھو کیسے وقت تمھیں مجھ سے ملوا دیا ۔۔۔۔ ماریہ اسی وقت سرگوشی میں بولی ۔۔ جب کہ مجھے کسی ہمدرد دل رکھنے والے انسان ہی کی ضرورت ۔۔۔
شمسہ تقدیر کی اس بے رحمی پر احتجاج بھی نہ کر سکی اور بس سر کو ہلکی سی جنبش دے کے رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔
شمسہ کے دیکھتے ہی دیکھتے ، دنوں میں ماریہ کا مرض ایکدم پورے جسم میں پھیلنا شروع ہو گیا تھا جس سے ماریہ بوکھلااٹھی تھی، بچوں کو اپنے ماں باپ کے پاس ، واپس پاکستان لے جانا چاہتی تھی۔اپنے ماں باپ کو بے تحاشا یاد کرنے لگ گئی تھی ، مگر جانے کی پلاننگ کرتے کرتے ،دیکھتے ہی دیکھتے ہی وہ اتنی لاغر ہو گئی کہ اس سے چلناپھرنا دشوار ہو گیا تھا ۔
ماریہ کے بیٹے کے کمرے میں چاروں طرف بکھرے سامان کے درمیان ، شمسہ زندہ ہونے کے باوجود کسی گم شدہ روح کی طرح بھٹک رہی تھی ۔
ماریہ کے مرنے کے بعد،نہ چاہتے ہو ئے بھی ، وہ ، روز اس گھر میں آتی تھی ۔ وہ کیسے اس خاموش التجا کو بھول جاتی ، جو اس نے ماریہ کی آخری سانسوں کے جاتے ہو ئے ، اُس کی سٹیل بے جان آنکھوں میں دیکھی تھی ،یہ اس کے آخری خاموش الفاظ تھے;
“جتنا بھی ہو سکا میرے بچوں کو دیکھ لینا ۔۔ان کو سنبھال لینا ۔”
شمسہ نے بچوں کے کمروں سے نکل کرکچن کا رخ کیا کہ شائد کام کا آغاز وہاں سے کرنا کم مشکل اور کم اذیت ناک ہو ۔
جب ماریہ کے شوہرنے اسے بتایا تھا کہ اس نے یہ گھر بیچ دیا ہے کیونکہ وہ ماریہ کی یادوں کے ساتھ اس گھر میں جی نہیں سکے گا ، تو شمسہ نے دھواں دھار رونا شروع کر دیا تھا ۔ اسے سرفراز کی تنہائی اپنے جیسی لگی حالا نکہ اس کا شوہر زندہ تھا ، دو بڑے بیٹے تھے ، ایک تو یونیورسٹی چلا گیا ہوا تھا ، دوسرا ہائی سکول میں اپنی زندگی میں مگن تھا ۔ اور شوہر ۔۔۔ وہ تو نجانے کب سے اس کے لئے اجنبی ہو چکا تھا ۔ شمسہ اور اس کا شوہر ایک عجیب سے رشتے میں بندھے ہو ئے تھے جس میں رہ کر انہوں نے نہ ایک دوسرے کو چھوڑا تھا اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ تھے ۔ بس ندی کے دو کناروں کی طرح ساتھ ساتھ سینہ چوڑے کئے اپنی اپنی انا کی آگ دہکائے کھڑے تھے ۔ درمیان سے وقت کا پانی گذرتا ج
ا رہا تھا اور وہ بس خاموش،دم سادھے اسے گزرتے دیکھا کرتے تھے ۔۔
ماریہ کے جانے کے بعد سرفراز کی تنہائی نے اس کے اپنے سینے میں دبی سالوں کی تنہائی کو آنسو بنا کر اس کی آنکھوں میں بھر دیا ۔
سچ کہتے ہیں” کوئی کسی کے دکھ پر نہیں روتا ، ہر کوئی اپنے دکھ پر ہی رویا کرتا ہے۔ ”
سرفراز نے اسے یوں بے تحاشا روتے دیکھ کر سوچا ، میری مرحومہ بیوی اس عورت کے بارے ٹھیک ہی کہا کرتی تھی “کہ بڑی ہمدرد مزاج کی عورت ہے ۔ ورنہ کون کسی کے لئے یوں روتا ہے ۔۔رونے کو تو اور بھی بہت سے لوگ آتے تھے ، وہ ایک امیر کبیر بندہ تھا ، راہ چلتے بھی اس کی بیوی کی موت کا سن کر اس کے سینے سے لگ کر یوں روتے تھے جیسے ان کی کوئی اپنی سگی ماں بہن مر گئی ہو ۔اور ان میں سے اکثر وہ لوگ ہوتے جو اپنے غریب سگے رشتوں داروں کی موت پر ایکدن بھی اپنی روٹین خراب نہیں کرتے یہ کہہ کر کہ زندگی کا نظام تو چلتا ہی رہتا ہیب ، مرنے والوں کے ساتھ مرا تھوڑی جا سکتا ہے ،سرفراز کو یہ باتیں سوچ کر ان سب جھوٹے آنسوؤں سے گھن آتی تھی مگر منہ رکھے کو وہ سب کی ہمدردیاں سر جھکائے سمیٹتا رہتا تھا مگر اس عورت کے آنسو سچے تھے کیونکہ وہ رونے کے ساتھ ساتھ اس کے بچوں کی دیکھ بھال بھی کر رہی تھی اور اب سرفراز کو امید تھی کہ اسی سچے جذبے کے ساتھ گھر کے سامان کو ٹھکانے لگانے اور پیک کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہو گی ۔۔ وہ ایسے ہی ایک کامیاب بزنس مین نہیں تھا ، اسے انسان کی اصلی قیمت کا اندازہ پل بھر میں ہو جا تا تھا ۔کس کو کہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے ،اس کا وہ ماہر تھا ۔اسی لئے تو ماریہ سے شادی اس کی کامیاب زندگی کا پہلا قدم تھی ۔ جانتا تھا کہ اکلوتی لڑکی کو امیر کبیر ماں باپ جہیز کے نام پر سب کچھ دے دیں گے ۔۔ اس کی کامیابی کی کوئی حد نہیں تھی ۔ وہ کہیں رکنا نہیں چاہتا تھا ۔۔ ماریہ نے اسے بچوں کی دولت سے بھی نوازا ، اور کینڈا ، اس کے ساتھ موو کر کے اپنے بوڑھے ماں باپ کو بھی تنہا کر دیا تھا ۔۔ وہ سرفراز کی محبت میں سب کچھ کرنے کو تیار رہتی تھی ۔۔۔۔۔۔اور اس بات کو سرفراز بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا اوربروقت استعمال کرتا تھا ۔
شمسہ کو اس کی ماریہ سے محبت میں ایک ذرہ برابر بھی شک نہیں تھا ۔ اسی لئے وہ اس مخلص اور بیوی سے وفادار شخص کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور اس کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کیا کرتی تھی اورسرفراز کے لئے اس ٹھنڈے لوگوں کے ملک میں ، شمسہ ، امید کی واحدکرن لگتی تھی جوشادی شدہ اور بال بچوں والی ہو نے کے باوجود ، اپنی مرحومہ دوست کے بچوں کے پیچھے جان ہلکان کئے ہو ئے تھی ۔
ماریہ کی زندگی میں بھی وہ بہت دفعہ اس کچن میں آچکی تھی مگر تب برتن الماریوں کے اندر بند ہو تے تھے اور کٹلری درازوں میں چھپی ہو تی تھی ۔ شائد کسی اور گھر میں درازوں اور الماریوں کا اتنا اچھا استعمال نہ ہو تا ہو جتنا اس گھر میں تھا ۔کیونکہ اس نے جو دراز کھولی اسمیں استعمال اور غیر استعمال شدہ چمچوں ، کانٹوں اور چھریوں کے انبار نظر آئے ، الماریوں میں ڈھیروں ڈھیر پلیٹیں ، گلاس ،پیالے اور ڈونگے ۔۔۔
“اف اللہ اتنا کچھ اکھٹا کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔جب کہ وہ جانتی تھی کہ اسے موذی مرض ہے ۔۔۔پھر اتنا سامان اکھٹا کرنا ؟ “یہ سب شمسہ کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔وہ گھبرائی کھڑی تھی کہ اسی وقت سرفراز نے گھر کے دروازے سے اندر داخل ہو تے ہی آواز لگائی ۔۔ :
“شمسہ بہن آپ فکر نہ کریں کل ایک دو لڑکے آجائیں گے اور پھر وہ آپ کی مدد کر دیں گے ۔۔۔۔ ”
“سرفراز بھائی !! وہ سب تو ٹھیک مگر اتنا سامان ۔۔؟”
“آپ شائد جانتی نہیں کہ وہ شاپنگ کی پاگل پن کی حد تک شوقین تھی ، شروع میں مجھے اندازہ نہیں ہوا ,یا شروع میں شائد وہ اتنی شوقین نہ ہو ۔۔ مگر گذشتہ تین چار سال سے تو جیسے ایک جنونی کی طرح وہ سیلوں پر جا جا کر چیزیں اکھٹی کیا کرتی تھی ۔۔۔۔ یہ دیکھیں ۔۔”
سرفراز نے نئی پیکنگ میں بند ان کھلے ڈبوں کی طرف دیکھتے ہو ئے شکائتی انداز میں کہا ۔۔۔ مجھے اس سے بہت محبت تھی اس لئے میں نے کبھی روکا نہیں ۔۔ مگر دیکھیں نہ کتنا نقصان ہے ،۔۔وہ استعمال بھی نہ کر سکی اور خود چلی گئی مگر آپ کے اور میرے لئے اب ان چیزوں کو سنبھالنا ایک عذاب سے کم نہیں ۔۔ میں تو اب زندگی کو بہت سادہ بنا لوں گا ۔۔ کم سامان اور کم جھنجھٹ ، کم از کم پیچھے رہ جانے والوں کو تو انسان مصیبت میں نہ ڈالے ۔۔۔۔ ”
شمسہ نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔ وہ فوراً  بولا : “وہ تو میری ملکہ عالیہ تھی ، جو چاہے کرتی ۔۔۔۔ ”
شمسہ نے ٹھنڈی سانس باہر کو چھوڑتے ہو ئے کہا : میں پہلے ماریہ کے کمرے سے پیکنگ شروع کر لوں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو ۔۔۔۔؟
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا ۔: جی ۔۔۔ ایسا ہی کر لیں ۔۔۔ میں ذرا بچوں کو باہر گھما لاؤں ؟
شمسہ اس کے چہرے پر چھائی مسکینی سے متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکی اس سے پہلے کہ اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسو آجاتے ، وہ ماریہ کے بیڈ روم کی طرف چل پڑی ۔۔ اس گھر کے کونے کونے سے وہ ماریہ کی زندگی میں ہی آگاہ ہو گئی تھی ۔ کیونکہ جب بھی وہ کیمو تھراپی کروا کے آتی تھی تو شمسہ اس کے ساتھ بھی جاتی تھی اور پھر بعد میں گھر میں آکر بھی اس کی کافی مدد کیا کرتی تھی ،بچوں کو سنبھالنے اور گھر کے باقی کاموں میں ۔۔اسے یہ اپنی تنہائی کا علاج لگنے لگ گیا تھا ۔ شاید کینڈا جیسے سرد ملک میں آنے کا اس کا یہی مقصد ہو ۔۔ اس کے اندر شکر گزاری کی کیفیت پیدا ہو نے لگ گئی تھی ۔
ایک دن کی بات ہے کہ کیمو تھراپی کے بعد گھر آ کر ماریہ کی حالت بہت خراب ہو گئی ، الٹیاں تھیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں ۔اور وہ باتھ روم کے فرش پر ہی نقاہت سے گر گئی تھی۔اس دن شمسہ نے اسے جس طرح سنبھالا وہی جانتی تھی، الٹیاں تک صاف کر نی پڑی تھیں۔ اور اب شمسہ کو ماریہ کے سنہری لمبے بالوں اور لمبی پلکوں کا راز بھی پتہ چل چکا تھا۔ تمام بال جھڑنے کے بعد ، آرٹیفیشل سہاروں کے ساتھ وہ پرانی ماریہ کو زندہ رکھنے کی کوشش میں رہتی تھی ، اس نے ایک دن شمسہ کو بتایا کہ یہ بھی وہ سرفراز کی محبت کی وجہ سے کرتی ہے ، کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ سرفراز نے جس ماریہ سے محبت کی تھی وہ کہیں گُم ہو جائے ۔ تو اس نے اس بات کے جواب میں نجانے ماریہ سے یہ کیوں پو چھا تھا کہ :
“اب تو میں ہوں ، مجھ سے پہلے کون تمھارے ساتھ جاتا تھا کیمو تھراپی کروانے اور بعد میں کون سنبھالتا تھا ۔۔اب دیکھو اتنی الٹیاں آتیں ۔۔ کبھی کبھی تو تم ٹھیک سے کھڑی بھی نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔ ”
تو اس نے نقاہت آمیز ہنسی سے کہا تھا “لو ظاہر ہے سرفراز ۔۔ وہ تو اب تم ہو تو ذرا لاپرواہ ہو گیا ہے ۔۔ ورنہ تو ہر دم میرے ساتھ سائے کی طرح چپکا ہو تا تھا ۔”
شمسہ نے کہا “ہاں ۔۔ اور اچھا ہے میں ہوں اب ، اس طرح وہ اب اپنے بزنس کو زیادہ وقت دے سکتے ہیں ۔۔ تم بہت خوش قسمت ہو ماریہ ۔۔ “اور شمسہ کو لگا جیسے اس بات نے ماریہ کو انتہائی پرسکون کر دیا ہے ۔ وہ آنکھیں موند کر سر تکیے پر پھینک کر بے سدھ سی بہت دیر یو نہی لیٹی رہی تھی ۔
اب شمسہ اسی تکئیے پر ہاتھ رکھے کھڑی،کمرے میں ماریہ اور سرفراز کی محبت کے کئی ثبوت دیکھ رہی تھی ۔جس میں سب سے جاندار وہ جہازی سائز بیڈ کے پیچھے دیوار پرٹنگا ان کا شادی کا بڑا سا پورٹریٹ تھاجس میں سرفراز کے گھنے بال ، گھنی مونچھیں اور نشیلی آنکھیں ، ماریہ کے سرخ جوڑے میں اور آگ لگاتی محسوس ہو رہی تھیں اور اس کی تپش سے ماریہ کے گال تصویر میں تمتا رہے تھے
ماریہ نے اسے بتایا تھا کہ اسے سرفراز کے سلکی بال بہت خوبصورت لگتے ہیں اور اسے چھوٹی آنکھوں موٹی توند اور گنجے سر والے مرد بہت برے لگتے ہیں ۔۔ شکر ہے سرفراز اپنا بہت خیال رکھتا ہے اور اب تک اس کی گنج نمودار نہیں ہوئی ، اور توند نکلنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ورنہ جانتی ہو میں تو اسے چھوڑ ہی دیتی ۔۔۔۔۔
شمسہ اس بات پر خوب ہنسی تھی ، اتنا کہ اس کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا اور اس پانی میں اس کے اپنے شوہر کی بڑی توند اور گنجا سر صاف نظر آرہا تھا ۔۔ ماریہ یوں نہ کہو دیکھو ایسا ہو تا تو میں بھی ناصر کو کب کا چھوڑ چکی ہو تی وہ تو مجھے ملے ہی ہلکی سی گنج کے ساتھ تھے اور اب تو پیٹ ایساہے کہ فٹ بال رکھ دو یا ان کا پیٹ ایک برابر ۔۔ مگر ایسی باتوں سے کون چھوڑتا ہے ۔۔
ماریہ نے کہا تھاکوئی نہ چھوڑتا ہو ۔۔ مگر میں تو چھوڑ دوں ۔۔ لگا لو شرط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمسہ نے شرط لگائی بھی نہیں تھی مگر پھر بھی ماریہ جیت گئی تھی ، جب وہ مری تو اس کے شوہر کے بال ویسے ہی گھنے اور پیٹ ساتھ لگا ہو ا تھا ۔۔ اس نے خوبصورت حالت میں اسے چھوڑا تھا ، جب کہ خود اس کے سر کے بال جھڑ چکے تھے ، آنکھیں پلکوں سے ننگی ہو چکی تھیں اور جسم لاغر تھا مگر پھر بھی لیٹے لیٹے بس کھاتے رہنے سے اس کا پیٹ باہر کو نکل آیا تھا ۔
شمسہ نے ماریہ کے آخری دنوں کی ڈھانچہ نما شکل کو یاد کرتے ہو ئے اس بیڈ روم میں ٹنگی شادی کی تصویر کو بھیگی آنکھوں سے دیکھا جس میں وہ حسن کا مکمل نمونہ تھی ۔۔ شمسہ نے بمشکل وہاں سے نظریں ہٹاتے ہوئے کپڑوں کی لماری کے پٹ کھول دئیے تو نئے پرانے کپڑوں کے ڈھیرنے اس کا استقبال کیا ۔ شاندار قسم کی ایسی گرم جیکٹیں ، مفلر ، کوٹ ، شرٹس جو شائدماریہ کو کبھی ایک بار بھی پہننے کا موقع  نہیں ملا تھا ،۔
شمسہ نے رک کر ایک لمحے کو سوچا کہ کیا وہ ان مہنگے برینڈڈ کپڑوں کو خود رکھ لے ؟ مگر دوسرے ہی لمحے اسے نجانے کیا ہوا کہ اس نے الماری کو خوفزدہ ہو کر بند کر دیا ۔ڈریسنگ ٹیبل کے درازوں میں لپ اسٹکس ، پر فیومز، نیل پا لشز ، فیس پاوڈر ، آئی شیڈوز ،کئی رنگوں کی وگیں ، مصنوعی پلکیں ، مصنوعی ناخن اور نہ جانے کیا کیا الم غلم ، جو شائد ماریہ خود بھی استعمال نہ کرتی تھی،بھرا ہوا تھا ۔
جس بات نے ہر کمرے کی طرح ،یہاں بھی شمسہ کو بوکھلا دیا وہ سامان کی مقدار اور تعداد تھی جو اتنی زیادہ تھی کہ اسے سنبھلنا یا سمیٹنا کسی ایک انسان بلکہ شائد یہ کہنا  زیادہ مناسب ہو کہ انسانی کام لگ ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔
نئے ڈنر سیٹوں کے ڈھیر یہاں بھی پڑے ہوئے نظر آئے ۔ بیڈ شیٹس ، تولیئے ، باتھ روم کا سامان ، ٹوتھ پیسٹ سے صابن، شیمپو تک ہر چیز وافر مقدار میں ۔ سرفراز ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا ، شاپنگ کا جنون ہو گا ماریہ کو جبھی تو یہ حال ہے کہ کمروں میں انسانوں کے کھڑے ہو نے کی جگہ نہیں ۔۔ سامان اتنا کہ کسی کو بھی صاف کرنے یا کھولنے یا دیکھنے تک ہی کی فرصت نہ ملی ہو ۔سرفراز اس کو شاپنگ کرنے سے روکتا ہی نہیں تھا کتنا پیار کرتا تھا اسے اپنا شوہر یاد آیا جو گروسری کتنے ڈالرز کی کرنی ہے یہ تک بتا کر بھیجتا ہے۔اب اسے لگا شائد ٹھیک ہی کرتا ہے ۔ ورنہ سامان بھرنے کی کوئی حد نہیں ہو تی ۔۔ یہ سب سوچ کر اور گرد آلود پیکنگ میں بند سامان کے ڈھیر سے شمسہ کو یکا یک متلی محسوس ہونے لگی ۔۔ وہ بھاگ کر باتھ روم میں گئی اور وہیں کموڈ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر قے  کر نے لگی ۔۔۔۔
اور پھر یوں ہوا کہ قہ کرتے کرتے اس کا ہاتھ سنک کے نیچے جڑے دراز سے ٹکرایا ، ہینڈل اس کی گرفت میں آیا تو دراز کا منہ کھل گیا ،وہ ہانپ رہی تھی ایکدم اسے وہاں ایک سرخ رنگ کی ڈائری نظر آئی ۔۔۔۔۔ اس نے فرش سے اٹھتے اٹھتے ڈائری کو بھی ساتھ ہی اٹھا لیا ۔
قہ کی وجہ سے چھائی نقاہت کو دور کرنے کے لئے وہ ڈائری کو ہاتھ میں پکڑے وہیں پڑے ایک سٹول پر بیٹھ گئی ۔۔۔ ڈائری کا ہاتھ میں آنا اور اسے پڑھے بغیر چھوڑ دینا ، یہ انسانی فطرت کے خلاف بات ہے ۔ اور اس سے بھی خلاف بات یہ کہ ایسی اچانک مل جانے والی کسی کی بھی ڈائری انسان بغیر کسی خوف کے پو رے اعتماد سے پڑھ سکے ۔۔ حالانکہ شمسہ جانتی تھی کہ اس وقت گھر میں اُس کے علاوہ اورکوئی بھی نہیں ہے بلکہ گلے تین چار گھنٹے تک کسی کے آنے کا امکان نہیں ہے مگر پھر بھی ڈائری کھولتے ہو ئے اس کے ماتھے پر گھبراہٹ کے پسینے چھوٹ گئے اور اس نے چور نظروں سے ادھر اُدھردیکھتے ہو ئے، کانپتے ہاتھوں سے ڈائری کو کھولا ۔۔۔۔
پہلے صفحے پر ہی ماریہ سرفراز لال مارکر سے لکھا نظر آیااور اس کے ساتھ ہی کوئی چار سال پہلے کی تاریخ درج تھی ۔۔
“سرفراز نے یہ ڈائری مجھے بڑی محبت سے دی ہے ۔۔۔ سرفراز کی محبت کے دو چار جملے جو شمسہ کی آنکھوں میں دھندلانے لگے ۔۔ کیوں کہ یہ احساس کہ ایک مری ہو ئی عورت جو کہ اس کی کلاس فیلو بھی تھی اور جو اپنی زندگی کے آخری کچھ مہینوں میں اس کے بہت قریب ہو گئی تھی اتنی کہ اپنی سگی بہن کا گمان ہو نے لگا تھا ۔ اس کی ڈائری ۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت کے وہ جملے پڑھے بغیر اس نے کتنے ہی صفحے پلٹ ڈالے ۔۔۔
“میں مرنا چاہتی ہوں ، کاش مجھے موت آجائے۔۔۔”اس لائن سے پہلے جو تاریخ درج تھی تب تو شائد وہ بیمار بھی نہیں تھی ۔۔ اور اس کی چھوٹی بیٹی پیدا ہونے والی تھی ۔۔ شائد حمل کا ڈپریشن ؟ وہاں کئی واقعات درج تھے مگر ان کا اس پہلے جملے “میں مرنا چاہتی ہوں ۔۔۔”سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا ، وہ بات بغیر وضاحت کے اسی صفحے پر یونہی پڑی رہ گئی تھی ، جیسے وہ سامان خرید کر اسے کھولنا یا استعمال کرنابھول جاتی تھی ہو سکتا ہے اسی طرح جملے لکھ کر بھی بھول جا تی ہو ۔۔تو کیا بے مقصد سامان کی خریداری کی طرح وہ بے مقصد جملے لکھنے کی بھی عادی ہو گئی تھی ۔۔ پچھلے چار سال سے ( جیسا کہ سرفراز نے اسے ماریہ کی شاپنگ کے بارے بتایا تھا )۔
یہ سوچ کر شمسہ نے کچھ صفحے اکھٹے پلٹ دیئے ،مگرپھر ویسا ہی جملہ”میں اب جینا نہیں چاہتی ، موت نے تیاری تو کر لی ہے ، دعا میری قبول ہو تی نظر آرہی ہے مگر وہ آ کیوں نہیں رہی ۔۔ کیا موت کے بعد بھی زندگی ایسی ہی بے رنگ ہو گی ؟ ”
ان لائنوں سے پہلے جو تاریخ درج تھی وہ پہلی لائینوں کے دو سال بعد کی تھی ۔۔ یعنی پچھلے چند صفحوں میں ماریہ ڈائری کے دو سال گذار چکی تھی ۔ دو سال تک وہ کچھ نہیں بولی ،، شمسہ کو لگا وہ دو سال شائد شاپنگ میں مصروف رہی ۔ دو سال شاپنگ کر تے کرتے جب اکتا گئی تو پھر سے ڈائری کو اٹھایا اور پھر سے موت کو پکارا ۔۔۔ مگر کیوں ؟ دولت ، محبت، اولاد کیا نہیں تھا اس کے پاس ؟”
شمسہ کے ہاتھوں میں ڈائری لرزنے لگی ۔۔ بیڈ روم میں پڑا سامان نکل نکل کر اس کے پاس باتھ روم میں پہنچنے لگا ، اورایک بالکل نئے پرفیوم کی لمبی زبان اس کے سامنے کھڑی خون برسانے لگی ۔۔۔ اسے پھر سے متلی محسوس ہونے لگی ۔ اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دبایا ۔۔ اور زور سے چیخی : کیوں ؟ ماریہ بولو کیوں مرنا چاہتی تھی ؟ڈائری کے سارے صفحے سفید پڑے تھے ۔۔ بہت صفحے پلٹے کوئی جواب نہیں تھا ۔ خالی ننگے صفحے ۔۔ جو کسی بااعتماد راز دان کی طرح ماریہ کی ذہنی کیفیت کو اور اصلی وجہ کو چھپائے بیٹھے تھے ۔۔۔
آخر کاربہت سے خالی صفحوں کے بعد ایک صفحہ پو را سیاہ ہوا مل گیا ۔۔لکھنے کی تاریخ ان دو سالوں کے بعد کے پو رے ایک سال کی تھی ۔۔۔ اس عورت نے ایک ڈائری میں ، چند جملوں میں کتنے سال چھپا رکھے تھے اس کا اندازہ شمسہ کو تب تک نہیں ہوا جب تک ڈائری کے آخری صفحے پر ایک گلاب کا سیاہ پھول چپکا نہ دیکھ لیا ۔۔ جیسے وہ ڈائری کا یا اس کی زندگی کا فل سٹاپ ہو ۔۔ جیسے وہ سیاہی جو کبھی گلابی تھی اس کی مکمل کہانی ہو۔۔ مگر اصل کہانی ہے کیا تھی ؟
وہ تو اپنے شوہر کی ملکہ تھی جس کے ہاتھ میں سارے خزانے کی کنجیاں تھیں جب جہاں چاہتی خرچ کر تی ۔، نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک ۔۔۔۔
تم بیمار کیوں ہو ئی تھیں ؟ شمسہ کا وہ سوال جو اس نے ماریہ سے پہلی ملاقات میں کیا تھا ڈائری کے اس صفحے پر پڑا اس کا منہ چڑھا رہا تھا ۔ تب ماریہ نے جواب دینے کی بجائے اسے ہاتھوں کی لکیروں میں الجھا دیا تھا ، مگر یہاں وہ بول رہی تھی :
“کینسر کی تشخیص نہ بھی ہو تی تو کیا فرق پڑنا تھا ۔ موت تو بہرحال اسی کرب کی وجہ سے ہونی تھی جو میری رگوں میں پھیل رہا ہے ۔ کم اہمیتی یا کونے میں دھرے جانے کا دکھ معمولی بات نہیں ۔۔ ڈراموں اور فلموں میں بدلتے چہرے اور بے وفا محبوب دیکھ کر سوچا کرتی تھی کہ اگر محبوب بے وفا نکل آئے تو اس میں جان سے گذر جانے والی کیا بات ہوتی ہے بس خود بھی اسے بھول جاو ۔۔ ہائے !! میں فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر جب یہ باتیں سوچا کرتی تھی تو کتنی نادان تھیں ۔۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اعتماد کا خون اور وفا کا قتل ہوجائے تو انسان جو اس کا شکار ہو تا ہے ، وہ تو بچ ہی نہیں سکتا ۔۔ لگتا ہے میرے وہی بڑے بول سامنے آگئے ہیں قدرت نے مجھے ایک ایسے انسان سے جوڑ دیا جسے میں اپنی محبت سمجھتی رہی ۔۔۔کیا اسے مجھ سے محبت تھی ؟ آج یہ سوال میرے سامنے جب آکر کھڑا ہو تا ہے تو میں مرنا چاہتی ہوں ۔۔ ایسی موت جو پیچھے ایک داستان چھوڑ جائے کسی” محبت” کی نہیں بلکہ” ایک نفرت” کی ۔۔۔۔ میری موت، محبت کی مستقل موت بن جائے اور بس نفرت اور دھوکہ اس دنیا میں رواج پا جائے تاکہ محبت کے نام پر کوئی کسی کی زندگی سے نہ کھیل سکے ۔ میں مرنا چاہتی ہوں ۔۔ زندگی کتنی بے معنی ہے ۔
شمسہ سفید صفحے پلٹتی گئی ۔۔ سیاہ صفحوں کی سیاہی ماریہ کی تقدیر سے نکل کر اس کی آنکھوں میں اندھیرا بھرنے لگی ، ماریہ اس اندھیرے میں کہہ رہی تھی :
“میں نے سوچا تھا میں اس شخص کے لئے آنسو نہیں بہاؤں گی ۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“پیار کے نام پر دھوکہ اس کی سزا موت ہو نی چاہیئے دینے والے کی نہیں لینے والی کی موت ۔۔ میں ویسی ہی موت چاہتی ہوں اور اس کے لئے اتنی لمبی عمر اتنی لمبی عمر کہ اس کے سب شکار مر جائیں اور وہ اکیلا زندہ رہ جائے اس طرح کہ موت کی دعا بھی مانگے تو اسے نہ ملے ۔۔۔۔کیا میں چاہتی ہوں کہ جس شخص سے میں اتنی محبت کی وہ سڑکوں پر کسی کیڑے کی طرح رینگتا ہوئے مرے ؟
ہاں ۔۔۔۔ میں یہی چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ مگر پہلے میں خود مرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ کیمو تھراپی جب اکیلے کروانے جاتی ہوں تو راستے میں ہی مر جانا چاہتی ہوں ۔۔۔ لیکن دو دن بعد کھڑے ہو کر خوب سامان خریدتی ہوں ۔۔۔یہ سامان سے بھرا گھر ، میری خالی روح کو کبھی تو بھرے گا ۔۔۔۔یا نہیں ؟
اس کے بعد صفحے خاموش اور نیلی سیاہی پھیلی ہو ئی دیکھ کر شمسہ نے ماریہ کے سارے آنسو بھانپ لئے ۔۔۔ اس نے ان آنسوؤں سے تر صفحوں کو جو اب سوکھ چکے تھے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اتنا روئی کہ ماریہ کے سوکھے آنسو پھر سے گیلے ہو اٹھے ۔۔۔۔۔
ہائے اللہ! تو کیا سرفراز ایک دھوکہ تھا ؟
سرفراز ایک دھوکہ ہے ؟
اس کا تفصیلی جواب بہت سے صفحے پلٹنے پر بھی نہیں ملا ۔۔پھر سے خالی صفحے کہیں کہیں شاپنگ کی تفصیل ۔۔ خرچ ہو نے والے پیسوں کا حساب کتاب ۔۔۔۔
اور پھر ایک اور سیاہ صفحہ”اس کی توجہ کے لئے کیا کروں کہ وہ پھر سے مجھے اسی طرح پیار کرنے لگے ۔کیا کروں کہ وہ اس مکار عورت کے جال سے نکل آئے ۔ کیا کروں میں ۔۔ میں اتنی بے بس کیوں ہوں ۔۔۔ میں اس کی توجہ مانگتی ہوں اور وہ مجھے کبھی نئی گاڑی اور کبھی کریڈٹ کارڈ کی رحمتیں گنوانے لگ جا تا ہے ۔۔۔ میں سوچتی ہوں کیا میری موت اسے میری کمی کا احساس د لائے گی یا وہ بھی ایسے ہی میری زندگی کی طرح بے وقعت رہ جائے گی ۔۔۔ کاش میں اس عورت کو قتل کر سکتی ۔۔ نہیں میں اسے کیا قتل کر وں گی ۔ قتل تو میرا ہو گیا ہے ۔ کوئی ان دونوں کو بتائے گا کہ۔۔۔ دونوں کو؟نہیں دو تو نہیں ۔۔ وہ تو کتنی عورتوں کو یہ جھانسا دے چکا ہے ۔۔ میرے مرنے کے انتظار میں شہر کی کتنی رعورتیں بیٹھی ہیں ۔۔ کس کس کو قتل کروں ۔۔ یا للہ مجھے ہی موت دے دے ۔تنہا جب کیمو تھراپی کروا کے آتی ہوں اور باتھ روم میں بیٹھ کر اکیلی الٹیاں کر تی ہوں تو وہ ایک آیا کا انتظام کرنے کی بات کرتا ہے ۔ سارے شہر میں اس کی رحم دلی اور مجھ سے محبت کے چر چے ہیں ۔۔ میں اس کے چہرے پر پڑا ماسک ہٹا نا چاہتی ہوں ۔۔ لیکن کیا جاتے جاتے اپنے بچوں کے باپ کو ایک گھٹیا اور دو رخا ثابت کر جاؤں؟ نہیں مجھے برداشت ہی کرنا چاہیئے کچھ دن کی تو بات ہے ۔۔میں ان بچوں کو لے کر اپنے امی ابو کے پاس چلی جاؤں گی ۔۔ ان کو اکیلا چھوڑ کے اس نا پائیدار شخص کے ساتھ کینڈا آنا میری بہت بڑی غلطی تھی ، اس کے ساتھ شادی سے بھی بڑی ، اس پر اعتماد کرنے سے بھی زیادہ بڑی ۔۔ اب مجھے لوٹ کر اپنی مٹی اور اپنے گھر ہی چلے جانا چاہیئے ۔۔۔۔۔ اپنے ماں باپ کے پاس ۔۔۔
شمسہ صفحے پلٹتی گئی ۔۔ہر صفحے پر ماریہ کی سسکیاں گونج رہی تھیں ۔۔پھر یہ جملے ،کسی معنی کے بغیر بس آڑھی ترچھی لکیریں سی نظر آنے لگے۔۔۔۔
سامان سے بھرا گھر ۔۔ اس کی حقیقت شمسہ کو سمجھ آ گئی، تو ماریہ نے اندر کی گھٹن کو کم کرنے کے لئے یہ سامان اکھٹا کیا تھا ، سرفراز نے شائد اپنے گلٹ کو کم کرنے کے لئے اسے لا محدود شاپنگ کی اجازت دے رکھی تھی ؟ تو کیا یہ تھی اس سامان سے بھرے گھر کی کہانی جس میں ایک عورت کی موت ہو چکی ہے اور جس کے تین بچے اپنے اپنے کمروں میں اس بے تحاشا سامان کے ساتھ زندگیاں گزار رہے ہیں ،جس سامان کے” ہو نے” کی اصل وجہ تو انہیں پتہ ہی نہیں ہے ۔۔۔
تین چار گھنٹے اسی ڈائری کے ساتھ کیسے گزرے اسے پتہ ہی نہیں چلا ۔۔ جو بہرحال ان تین چار سالوں کی طوالت اور اذیت سے کم تھے جو ماریہ نے اس ڈائری کے ساتھ تن تنہا گزارے تھے۔
اسی وقت بیرونی درواز ہ کھلا اور بچوں کی آوازیں شمسہ کی سماعت سے ٹکرائیں اور وہ ابھی ہمت کو مجتمع کر کے کھڑی ہونے ہی والی تھی کہ سرفراز تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا اس کے سر پر آ پہنچا اورا س کے ہاتھ میں پکڑی ڈائری کو دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ اندر سے سہم سی گئی مگر وہ بے پرواہی سے بولا : “تو پیکنگ کل ہی کرنے کا اراداہ ہے ۔۔ “؟
شمسہ کو لگا اس نے ڈائری کو دیکھا ہی نہیں ۔۔ پھر بھی گبھراہٹ میں اس کے منہ سے نکلا :
” یہ ڈائری ۔۔۔ ماریہ کی شائد ۔۔ اس امید کے ساتھ شمسہ بولی کہ شائد ماریہ کا وجود جتنا بھی غیر اہم ہو گیا ہو مرنے کے بعد اس کے ہاتھ کی لکھی ڈائری اس کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی مگر شمسہ کی تمام خوش گمانی ہوا ہو گئی جب سرفراز نے ڈائری کودیکھے بغیر کہا :
“او ہ اچھا اسے باتھ روم کے سامان میں رکھ دیں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“یا “کے بعد وہ کیا کہتا وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اُس شخص کے گھر سے اُس کے بچوں کو دیکھے بغیر نکل گئی جس گھر کو اس نے مڑ کر نہ دیکھنے کا فیصلہ ایک منٹ کے سویں حصے میں کر لیا تھا ۔۔۔۔۔
نکلتے وقت بس وہ ایک ڈائری اس کے ہاتھ میں تھی اور اسے لگا کہ وہ ماریہ کے وہ تمام سال اٹھائے لئے جا رہی جو اس نے اس عالیشان ، سامان سے بھرے قید خانے میں جنگ میں جیتی “ملکہ” کی طرح گزارے تھے ۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ایک ڈائری میں گم سارے گھر کا سامان۔۔۔۔روبینہ فیصل

  1. “ ایک ڈائری میں گُم سارے گھر کا سامان “

    روبینہ فیصل کا یہ افسانہ میں نے طویل افسانہ ہونے کے باوجود بہت دلچسپی سے پڑھا ہے، اور دلچسپی اس لئے کہ اس افسانے کی طوالت نے میری دلچسپی کی راہ میں کہیں بھی روڑے نہیں اٹکائے۔
    کسی افسانے کی طوالت اگر قاری کی دلچسپی پر اثر انداز ہو تو تب وہ طوالت تحریر کا عیب کہلاتی ہے ورنہ وہی طوالت افسانہ نگار کا ہُنر بن جاتی ہے۔
    “ایک ڈائری میں گُم سارے گھر کا سامان” افسانے کا عنوان ماریہ کی زندگی کی ایک ایسی علامت ہے جسے روبینہ نے بہت خوبصورتی سے اپنے اس افسانے میں نبھایا ہے۔
    ماریہ کینسر جیسے مرض کا شکار ہے، اس کا خاوند دوسری عورتوں میں دلچسپی لے رہا ہے۔۔۔ پھر بھی کینسر سے مرتی ہوئی ماریہ ہار ماننے کو تیار نہیں اور وہ اپنے آپ کو بنانے سنوارنے کے لئے مسلسل شاپنگ کرتی پھر رہی ہے۔
    اپنے خاوند سے محبت کرنے والی عورت کے اس کردار کو روبینہ فیصل نے جس خوبصورتی اور مہارت سے اردو ادب کے کینوس پر پینٹ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
    ماریہ نے اپنی زندگی اور محبت کی تمام محرومیوں کو ایک ڈائری میں بیان کر کے رکھ دیا ہے، وہ ڈائری جس کے اکثر صفحات خالی تھے۔
    بس کہِیں کہِیں اٗس نے جینے کی اُمنگ کو مرتے ہوئے دِکھایا تھا ۔
    یہ تحریر روبینہ فیصل کی ایک افسانہ نگار ہونے کے ناطے تحریر کی خوبصورتی اور ہُنر ہے کہ اُس نے ماریہ کی زندگی کو تفصیل سے کھولے بغیر بھی ایک علامت کے رنگ میں کھول کر رکھ دیا ہے۔
    مَیں ذاتی طور پر اِس کامیاب افسانے پر روبینہ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
    بہت معذرت کے ساتھ اِس افسانے سے ہٹ کر اِس افسانے سے ہٹ کر ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا جو کہ ایک عرصے سے میرے ذہن میں تھی، سوچا کہ آج وہ بات بھی ہوجائے۔
    بات اُردو ادب کی ہو ۔۔۔۔ اور کسی اُردو افسانے پر بات یا تبصرہ کرنے کی ہو تو اُس بات یا تبصرے کو “اُردو زبان “ میں ہونا چاہئے۔
    اگر اردو افسانے پر تبصرہ انگریزی زبان میں کِیا جائے تو یہ تبصرہ کیا انگریزی زبان کے قاری کے لئے لکھا جا رہا ہے ؟ یاد رہے کہ تبصرہ صرف افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ اردو زبان کے تمام قارئین کے لئے بھی ہوتا ہے۔
    کسی اردو افسانے پر انگریزی تبصرہ کرنے کی مجبوری مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کیونکہ جو بندہ اردو افسانہ پڑھ سکتا ہے وہ اردو بھی لکھ سکتا ہے۔
    آجکل ایسا کونسا فون یا کمپیوٹر ہے جس میں لکھنے کے لئے اردو فونٹ موجود نہیں ہے۔
    خدانخواستہ ! اگر فون میں یا کمپیوٹر میں اردو فونٹ موجود نہیں ہے تب بھی بندہ اردو افسانے پر رومن اردو میں تبصرہ ٹائپ کر سکتا ہے۔
    انگریزی زبان میں تبصرہ کرکے کیا یہ لوگ اردو کے قاری کو اپنی نام نہاد دانشوری سے متاثر اور مرعوب کرنا چاہتے ہیں ؟

  2. کیا اچھا افسانہ ہے ۔ واہ۔ جیتے جاگتے کردار اور ان کے رستے زخم اور آہوں کی آوازیں ۔ افسانہ شروع سے آخر تک قاری کو ساتھ کر چلتا ہے، کہیں چھو ٹ جانے کا احساس نہیں ہوا بلکہ ماریہ کے اور خود شمسہ کے جملے “کچھ اور بھی ہے” کا کھٹکا لگائے رہے اور یہی اس افسانے کی کامیابی ہے۔ کئی کرداروں کے عقدے حل نہیں ہوئے اور اس کی ضرورت بھی نہیں تھی مگر شمسہ کی نفسیاتی الجھنوں کو بہت چابک دستی سے دکھا دیا ۔ اس کا خلا جسے مادی چیزوں سے بھرنے کی خواہش جو محض خود سے فرار تھا اور موت کی خواہش، معاشرے میں بچوں کے لیے عزت بنائے رکھنے اور انتقام پر پردہ ڈالنے کی کوشش تھی۔ سب سے خوش کن بات یہ کہ افسانہ کسی بیان یا خلاصے پہ ختم نہیں ہوا جو افسانے کا مزہ خراب کردیا کرتا ہے۔ مبارکباد

Leave a Reply