• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آر سی ڈی روڈ پر انسانی المیہ اور وفاق کی غفلت۔۔۔۔شہزاد سلطان بلوچ

آر سی ڈی روڈ پر انسانی المیہ اور وفاق کی غفلت۔۔۔۔شہزاد سلطان بلوچ

غالباً ہم چوتھی میں تھے جب ایک کتاب میں سر نے ہمیں پاکستان کی  دو مشہور سڑکوں کے بارے میں بتایا۔ کہ پاکستان کی دو مشہور سڑکیں کون سی ہیں؟
ہم سب منہ اٹھائے ماسٹر صاحب کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تو انہوں نے کتاب اٹھائی اور ہمیں پڑھایا۔ ایک شاہرائے قراقرم جو پاکستان کو چین سے   ملاتی ہے۔ دوسری آر سی ڈی روڈ جو کراچی کو کوئٹہ سے ملاتی ہے۔ اُس وقت یہ پاکستان کی طویل اور مشہور سڑکوں میں شمار ہوتے تھے۔ مجھے شاہراء قراقرم دیکھنے کا ابھی اتفاق نہیں ہوا کہ کیسا ہے مگر آر سی ڈی روڈ ایک خوفناک اور انسانوں کو کاٹتی جلاتی ہوئی سڑک ثابت ہوئی ہے۔
پچھلے ایک دو سال میں اس سڑک کو دو رویہ کرنے کے مطالبات شروع ہوئے ہیں لیکن اب تک ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔ پچھلے دنوں اس کے متعلق ایک بیان پڑھا کہ آرسی ڈی کو دو رویہ بنانے کی منظوری دی گئی ہے مگر کیا اس کا کام بھی جلدی شروع ہوگا؟
میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا۔ ابھی تو ایک ایک حادثے میں 20 سے بائیس لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں۔ جب یومیہ اوسط قدرے زیادہ ہوگی پھر اس پر پراسس ہونا شروع ہوگا۔
انجینئرنگ, فنڈز کی منظوری, ٹینڈر, ٹھیکہ کی تحویل, فنڈز کا اجراء اور اس کے بعد لوگوں کو عذاب دیتے ہوئے ایک ایک پل توڑ کر 6 یا 7 مہینے میں اسے تعمیر کریں گے۔ جب سارے پل تیار ہوں گے پھر بمشکل سڑک کو کشادہ کرنے کا کام شروع ہوگا۔بہت سارے لوگ زمین دینے میں رکاوٹ بن کے پیسے بٹورنے کی کوششوں میں لگیں گے اور یوں کام میں مزید رکاوٹ آتا رہے گا۔
اس سارے دورانیہ میں اس مصروف ترین اور اہم ترین روٹ پر نجانے اور کتنے لوگ لقمہ اجل بنیں گے۔ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کوئٹہ یا کراچی سے نکلنے کے بعد اس سڑک پر اتنے زیادہ حادثات ہونے کے باوجود بیچ میں موجود علاقوں میں, جیسے قلات, سوراب, خضدار, وڈھ, بیلہ کے مختلف مقامات, وندر اوتھل کہیں بھی کوئی ایسا اسپتال بھی نہیں جہاں ایمرجنسی میں کسی مریض کو ریفر کیا جاسکے۔
یا کم از کم ایمبولینس ہو۔ وڈھ میں غالباً السیف سروس کے ایک بس کے سواریوں کو حادثے کے بعد زخمی اور شہید حالت میں ایک ٹرک کے پیچھے لٹاکر خضدار تک لایا گیا تھا۔
اور فائر بریگیڈ بھی نہیں جس کی وجہ سے بیلہ میں تاریخ کا المناک سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ حتی کہ حب چوکی میں بھی معیاری سہولیات نہیں جب تک کہ مرشد اسپتال میں نہ پہنچا جائے۔
جام صاحب کی حکومت اور وفاق سے مطالبہ ہے کہ پہلے پہل مندرجہ بالا علاقوں میں علاج معالجے کی سہولیات مہیا کئے جائیں۔ ڈاکٹرز کی پوسٹنگ کی جائے۔ ادویات کا کوٹہ مکمل کی جائے۔ پھر سڑک کی چوڑائی کا کام جلد از شروع ہو تاکہ مزید جانوں کی حفاظت کا از بس بندوبست ہوسکے۔
اور ٹرانسپورٹ والوں سے دست بستہ اپیل ہے کہ گاڑیوں میں انسانوں کو سامان کی طرح ٹھونسنے کے بجائے احترام اور اندازے سے بٹھائیں اور سفر کے قابل گاڑیاں لائیں۔ ماہر ڈرائیورز کا اہتمام کریں۔ مسافروں کی سفری ضروریات کا لحاظ رکھیں۔ اور جلدی پہنچنے کی چکر میں جانوں کا اور اپنے مال کا نقصان کرنے کے بجائے ڈرائیورز کو ایک مناسب رفتار میں گاڑیوں کو چلانے کی ہدایت کردیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply