حیات کے بھائی عرفان کا انٹرویو ۔۔۔۔۔ہارون وزیر/حصہ اول

شمالی وزیرستان کے گاؤں خیسور کا واقعہ گزشتہ تین چار دنوں سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پرو اسٹیبلشمنٹ قوتوں کے درمیان کھینچا تانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوتیں پورا زور اس بات پر لگا رہی ہیں کہ یہ واقعہ ہو بہو بالکل ایسے ہی ہوا ہے جیسا تاثر لوگوں نے لیا ہے۔ یعنی چارپائی اور تکئے کے پیچھے حوالدار دریا خان کا مقصد کچھ اور تھا۔ جبکہ پرو اسٹیبلشمنٹ قوتوں نے اس واقعے کو کاؤنٹر کرنے کیلئے خود حیات کے ماموں ماتوڑکئی اور کچھ دیگر مشیران کی ویڈیوز شئیر کروادیں جو کھلم کھلا اس منفی تاثر کو رد کر رہے ہیں۔ عوام اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ وہ ان دونوں مواقف کے بیچ میں معلق ہیں۔
میرے قارئین جانتے ہیں کہ اس واقعے کے متعلق میرا پہلا ردعمل کیا تھا. یقیناً اس ویڈیو سے مجھے دھچکا پہنچا تھا۔ میرا غصہ کسی بھی عام پشتون کی طرح بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ حقیقت تک پہنچنے کے لئے میں نے اپنے  ذرائع سے تحقیقات کروائیں۔اس پر ایک کالم بھی لکھا جو اسی مکالمہ کے ویب سائٹ پر ایک دن پہلے شائع ہو چکا ہے۔ میرے لئے مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں تھی کہ پورا معاملہ میرے سامنے کھل چکا تھا۔

خیسور واقعے کے پس پردہ حقائق۔۔۔۔ ہارون وزیر
لیکن ہوا یوں کہ کل میں نے پارلیمنٹ میں علی وزیر اور مفتی عبدالشکور کی تقاریر سنیں جس میں ایک منہ سے آگ برسا رہا تھا اور دوسرا آنکھوں سے پانی. علی وزیر اپنی تقریر میں کہہ رہا تھا  کہ وہ میجر دریا خان حیات خان کے گھر جاتا ہے۔ گھر کی خواتین سے کہتا ہے کہ میرے لئے چارپائی لاؤ۔ رضائی لاؤ اور اس کے بعد کہتا ہے کہ تکئے بھی لاؤ۔ وہ اس گھر میں بیٹھ جاتا ہے اور گھر کی خواتین کو بلا لیتا ہےا ور کہتا ہے کہ آپ کے گھر کے مردوں کو ہم نے گرفتار کیا ہوا ہے. اور کہتا ہے۔۔۔۔ اتنا کہہ کر علی وزیر کہتا ہے کہ میڈم سپیکر، میں وہ باتیں نہیں بتا سکتا جو اس گھر میں رونما ہوتی ہیں ( یعنی کہ آگے آپ خود سمجھدار ہیں) علی وزیر کے  بالکل یہی الفاظ تھے۔
اسی سے ملتی جلتی بات مفتی عبدالشکور نے بھی کی اور کرکے رویا کہ ہماری خواتین کی عزتوں پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے۔
یہ تقریریں سننے کے بعد میں بڑا حیران ہوا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے  کیونکہ میری معلومات بالکل اس کے برعکس تھیں  یہاں تو آن دا فلور آف دا ہاؤس یہ کہا جا رہا تھا کہ خدانخواستہ حیات کے گھر کی خواتین کی عزتوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ میں نے فوراً اپنے دوست اسد داوڑ کو فون ملایا  کہ حیات کے بھائی عرفان سے میری ملاقات کا انتظام کرواؤ اسد داوڑ نے کہا کہ ہارون بھائی مجھے تھوڑا وقت دیں. شام کو اسد کا فون آیا اور کہا کہ آجاؤ۔ میں فوراً ہی نکل پڑا. راستے میں اسد کو  ساتھ لیا  ۔ عرفان کے روم جانے سے پہلے ہم نے پشتون روایات کے مطابق کچھ فروٹ خریدے کہ کسی کے ہاں خالی ہاتھ جانا ہمارے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہم اس کے کمرے میں پہنچے. کمرے میں اس کے ساتھ اس کے ماموں کا ایک بیٹا تھا. عرفان اور اس کا ماموں زاد دونوں دبلے پتلے تھے  جبکہ میں اور اسد دونوں خوب صحت مند. ہم ان کے پاس لگ بھگ چار گھنٹے بیٹھے رہے۔اس دوران آف دی ریکارڈ ہر قسم کی آزادانہ گفتگو ہوئی یعنی چار گھنٹوں کی اس نشست میں ہم بہت کچھ جان چکے تھے۔
گرما گرم مرغ پلاؤ کھانے کے بعد میں، اسد داوڑ اور حیات کا بھائی عرفان ایک ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے۔عرفان کے ماموں زاد نے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کردی۔ انٹرویو کی حامی اس نے اس شرط پر بھری کہ پہلے وہ اپنے ایک قریبی عزیز سے مشورہ کرے گا اگر اس نے اجازت دی تو آپ یہ ویڈیو شئیر کردینا ورنہ یہی انٹرویو تحریری شکل میں مکالمہ پہ پوسٹ کر دینا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے. پھر آج صبح صبح اسد داوڑ نے فون کیا کہ کچھ خاندانی مجبوریوں کے باعث عرفان کے اس عزیز نے ویڈیو پوسٹ کرنے سے منع کر دیا ہے. میں نے کہا ٹھیک ہوگیا۔
لیجیے ناظرین، حیات کے بھائی عرفان کا انٹرویو آپ کی نذر ہے۔

س: آپ کا نام کیا ہے؟
ج: عرفان اللہ
س: آپ کے والد کا نام؟
ج: جلات خان
س:آپ کتنے بھائی ہیں اور ان کے نام کیا ہیں؟
ج: ہم پانچ بھائی ہیں. حیات، راویات، شریات، عادل عرف اخود اور میں عرفان اللہ
س: آپ یو اے ای میں کب سے ہیں؟
ج: میں 2009 کے ساتویں مہینے کی سترہ تاریخ سے یو اے ای میں ہوں.
آپ کے والد صاحب اور بھائی کب سے گرفتار ہیں اور ان کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھا گیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply