میدانِ محشر سے۔۔سعید چیمہ

محشر کے میدان میں بے لباس کھڑا ہوں،سبھی بے لباس ہیں ،تمام مرد و زن۔اتنی تاب و طاقت مگر کسی میں کہاں کہ وہ دوسرے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ سبھی کی بے لباسی کا یقین اس لیے ہے کہ دنیا میں ختم المرسلینﷺ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے  دن سبھی بے لباس اٹھائے جائیں گے اور کوئی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکے گا۔آج کے دن ذوالجلال کی صفتِ منتقم صفتِ رحیمی پر غالب آ چکی ہے۔’اپنی امت کو حساب کے لیے پیش کرو’ ختم المرسلینﷺ کو حکم ہوا۔ خدائے ذوالجلال کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ختم المرسلینﷺ نے سب سے پہلے خلیفہ اوّل ابوبکر صدیق کو پیش کیا،خلیفہ اوّل کے اعمال میزان میں تولے گئے،ابوبکر کے اعمال میں اتنی نیکیاں تھیں کہ کوئی گن نہیں سکتا تھا، ہاں مگر پروردگار کے سِوا۔حساب و کتاب ہوتا رہا حتّی کہ امتِ محمدی میں سے مجھ ایسے لوگوں کی باری آئی۔ کیسے بد بختی کے آثار تھے جو اُن  چہروں سے عیاں تھے جن کو بائیں ہاتھ میں نامئہ اعمال  تھمائے جا رہے تھے۔ دائیں ہاتھ میں نامئہ اعمال  حاصل کرنے والوں کی ایک منزل ابھی اور باقی تھی،پُلِ صراط کا سفر۔ پُلِ صراط جہنم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بنایا گیا تھا جو تلوار کی دھار ایسا باریک تھا۔آخرکار حساب کے لیے میرا نام پکارا گیا۔۔۔

ایسے محسوس ہوا جیسے دل کی دھڑکن تھم گئی ہو،ندامت سے سر جھکائے ہوئے عادل کی عدالت کے کٹہرے میں جا کھڑا ہوا۔میزان کے ترازو  پر میرے اعمال رکھے گئے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا،جس کی توقع تھی۔برائیوں والا پلڑا نیچے جُھک گیا اور نیکیوں والا اوپر۔

ہلاکت و درد ناک عذاب یقینی تھا۔۔

اپنے ہونیوالے انجام کو دیکھ کر آنکھوں سے لہو ٹپکنے کو تھا۔ فرشتے گھسیٹ کر جہنم کی طرف لے جانے ہی لگے تھے کہ ربِّ ذوالجلال گویا ہوئے ‘دیکھا جائے کہ اِس کے اعمال میں کون کونسی نیکیاں شامل ہیں’،فرشتوں نے نیکیوں کو جانچنا شروع کیا۔نامئہ اعمال میں چند گنتی کی نیکیاں تھیں اس لیے جانچ پڑتال کا عمل جلد ہی ختم ہو گیا۔چند نیکیوں میں ایک نیکی دنیا میں لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی بھی تھی،خدا تعالی کو میری یہ نیکی پسند آئی۔

حکم ہوا کہ اِس کے نامئہ اعمال کو دوبارہ تولا جائے۔ نیکی جو اللہ کو پسند آئی تھی اُس کا وزن اتنا زیادہ ہوا کہ میری چند نیکیاں اَن گنت برائیوں پر غالب آ گئیں۔

نامئہ اعمال دائیں ہاتھ میں تھما دیا گیا،اپنی خوش قسمتی پر رشک   آنا شروع ہوا۔ نامئہ اعمال دائیں ہاتھ میں تھام کر حوضِ کوثر کی جانب جانے کو تھا کہ دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی،دوسرے ہی لمحے یہ خیال غالب آیا کہ پہلے ہی بڑی مشکل سے جان بخشی ہوئی ہےلہذا خدا سے خواہش کا اظہار زیبا نہیں۔مگر وہ تو خدا تھا دل کے بھیدوں کا جاننے والا۔حکم ہوا کہ اپنی خواہش کا اظہار کرو،خواہش بھی اُس سے کہاں مخفی تھی وہ تو بس اپنے گناہگار بندے کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔

‘ میرے بعد جن لوگوں کا حساب لیا جائے میں اُن لوگوں کو ادھر رہ کے دیکھنا چاہتا ہوں’ میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔   جب ایک چھوٹی سی نیکی پر جنت کا  حکم ہو سکتا تھا تو کیسےممکن تھا کہ میری خواہش پوری نہ ہوتی۔ درخواست منظور ہوئی اور میں ایک جگہ سمٹ کر لوگوں کا حساب دیکھتا رہا۔میرے بعد میرے ہی زمانے کے ایک عالم کو حساب کے لیے پیش کیا گیا،یہ وہی عالم تھے جن کو دنیا میں پیرِ طریقت،رہبرِ شریعت ، قاری القرآن،واعظِ خوش الحان و بیان اور پتہ نہیں کن کن القابات سے پکارا جاتا تھا اور جو تفرقہ بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اِس عالم کے اعمال کو جب میزان پر رکھا گیا تو نیکیوں والا پلڑا نیچے جھک گیا اور برائیوں والا اوپر۔ ان کے اعمال میں نیکیوں کے دفتر ہی دفتر تھے جبکہ برائیوں والے پلڑے میں چند گناہ تھے۔ موصوف کے گناہوں میں ایک گناہ تو یہ تھا کہ حضرت امتِ محمدی کو جوڑنے کی بجائے تقسیم کر رہے تھے جبکہ وہ اس پر قدرت رکھتے تھے کہ امت کو جوڑیں اور دوسرا گناہ یہ تھا کہ حضرت لوگوں کے دلوں کو دُکھایا کرتے تھے،اِسی طرح کے چند اور گناہ بھی تھے۔ خدا تعالیٰ  کو جلال آیا۔۔۔ اِس عالم سے سوال ہوا کہ تم نے امت کو کیوں نہ جوڑا حالانکہ تم اِس کی قدرت بھی رکھتے تھے؟۔

اِس عالم کی ہلاکت و بدبختی  کا دل میں یقین پیدا ہوا کیوں کہ دنیا میں مشکوٰۃ سے ایک حدیث پڑھی تھی جس میں ختم المرسلین نے فرمایا تھا کہ پس وہ ہلاک ہوا جس سے قیامت والے دن سوال کر لیا گیا۔

اب یہ جو عالم تھے بڑے ڈھیٹ تھے،موصوف نے خدا کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ وہ تو امت کو جوڑنے کے لیے ساری زندگی تگ و دو کرتے رہے، لوگوں کو تفرقہ بازی سے بچنے کی تلقین کرتے رہے، مگر ایسوں کی  چالاکیاں دنیا میں تو چل سکتی تھیں سب سے بڑے عادل کی عدالت میں نہیں۔

اِس عالم کی زبان سے گواہی طلب کی گئی،زبان گویا ہوئی کہ یہ تفرقہ بازی کو ہوا دیتا تھا،اب فرار کا کوئی راستہ نہ تھا۔

اب یہ عالم رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا شروع ہوئے،بہت معافیاں مانگیں بڑی استغفار کی مگر بے سُود۔فرشتے عالم موصوف کو زبان کے تالُو سے پکڑ کر جہنم کیطرف لے گئے۔ دل ہی دل میں خیال گزرا کہ کیسی درد ناک عذاب والی زندگی سے بچا لیا گیا ہوں۔

اِس عالم کے بعد ایک اور شخص پیش ہوا جو خود کو دنیا میں حکمران کہتا تھا،جو یہ سمجھتا تھا کہ اُس کی حکمرانی کو دوام ہے، اِس حکمران کی اِس بات پر پکڑ ہوئی کہ وہ نااہل لوگوں کو اپنی رعایا پر مسلط کرتا تھا۔ پھر اِسی طرح حساب چلتا رہا، کوئی جہنم کا ایندھن بنتا رہا تو کسی کے لیے جنت کا حکم کا صادر ہوتا رہا حتّی کہ آخری  شخص حساب کے لیے پیش کیا گیا،اِس شخص کا معاملہ اس طرح سے تھا کہ یہ لوگوں کو برائی سے روکتا بھی تھا اور رات کے اندھیرے میں گناہوں کا مرتکب بھی ہوتا تھا،لوگوں کو اُن نیکیوں کی تلقین بھی کرتا تھا جو اُس نے کبھی خود بھی نہیں کی تھیں،حکم ہوا کہ یہ منافق ہے اِس کو جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں پھینکو۔ حساب کتاب ختم ہوا  تو میں حوضِ کوثر کی جانب چلنے لگا۔ رستے میں دیکھا کہ امت محمدی سے کچھ لوگ حوض کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر فرشتے اُن کو روک رہے ہیں۔ آقا فرشتوں سے استفسار کرتے ہیں کہ یہ تو میری امت ہیں اِن کو کیوں روکا جا رہا ہے۔ فرشتوں نے بتایا کہ یہ آپکی امت کے وہ بد بخت ہیں جنہوں نے آپ کے بعد دینِ اسلام میں نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں،آقا کے چہرے پر ناگواری آثار ظاہر ہوئے اور فرمایا کہ کے دور لے جاؤ اِن کو مجھ سے دور لے جاؤ،ایک بار پھر خدا کا شکر ادا  کیا کہ دنیا میں بدعات کی پیروی نہیں کی ورنہ آج ہلاکت یقینی ہوتی

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر: یہ تحریر ابو یحیٰ کا شہرہ آفاق ناول “جب زندگی شروع ہو گی” پڑھنے کے بعد لکھی گئی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply