• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • لاپتہ افراد کی واپسی اور کریڈٹ لینے کا مقابلہ۔۔۔۔شہزاد سلطان بلوچ

لاپتہ افراد کی واپسی اور کریڈٹ لینے کا مقابلہ۔۔۔۔شہزاد سلطان بلوچ

آئیں بات کرتے ہیں بلوچ سیاست کی۔

بابائے بلوچستان یا بابا بزنجو کو جب پڑھتا ہوں, اس کی سیاسی بصیرت, دلیلوں سے مرصع گفتگو, اہل وطن سے عشق, مسائل پر سنجیدگی اور حل کے لیے تڑپ… پھر موجودہ بلوچ سیاسی رہنماؤں کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم سیاسی سفر میں پیچھے چلے گئے ہیں۔

2012 میں جب میں روزانہ پانچ اخبارات کا مفصل مطالعہ کرتا تھا اس وقت بلوچستان کی سیاست میں میری دلچسپی بڑھ گئی مگر عمر کی کمی یا شعور کی کمی کے بنا نقطہ نظر میں جذباتیت کا عنصر زیادہ تھا۔

اس وقت سردار اختر مینگل پاکستان آئے اور پاکستانی سیاسی جماعتوں یا یوں کہیے پاکستانی اداروں کے سامنے 6 نکات رکھ دیے۔

1. بلوچ عوام کے خلاف تمام اعلانیہ اور خفیہ آپریشنز بند کیے جائیں۔

2. لاپتہ افراد کو بازیاب کراکے عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

3. تمام ڈیتھ سکواڈز ختم کیے جائیں۔

4. بلوچ سیاسی جماعتوں کو آزادانہ سیاست کرنے کی اجازت دی جائے۔

5. بلوچ رہنماؤں, کارکنوں پر غیر انسانی تشدد, قتل, لاشوں کو گم اور مسخ کرنے کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

6. کسمپرسی کی حالت میں پڑے بلوچوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

اس وقت مجھے یہ سب شو بازی لگتا تھا مگر۔

نتیجتاً 13 کے انتخابات میں بی این پی کو دو سیٹ ملے۔ پشتونخواہ, ن لیگ اور آزاد کے بعد زیادہ سیٹیں جے یو آئی اور نیشنل پارٹی کے حصے میں آئیں جن کی تعداد 6 تھی۔ یعنی ہر نے ایک 6 سیٹیں لیں۔

نیشنل پارٹی اس وقت مشترکہ حکومت کا حصہ بن گئی اور ڈھائی سالہ حکومت چلائی۔ اس کی ترجیحات میں ساحل اور وسائل کے دفاع کا کھوکھلا نعرہ اور تعلیم’ صحت ایمرجنسی شامل تھیں۔ تمام تر کامیابی تعلیمی میدان میں کچھ اصلاحات اور نئی یونیورسٹیز کا قیام تھا باقی صحت اور ساحل کا دفاع پہلے سے بری حالت میں تھے۔

اس دوران لاپتہ افراد کے لیے کیمپ لگے۔ کوئٹہ سے کراچی پھر اسلام آباد تک کا تاریخی طویل مارچ ہوا لیکن کسی لیڈر کو ان سے ہمدردی کے دو بول بولنے کی ہمت ہوئی نہ کسی کو ان آنسوؤں کے مداوا کا سوجھا۔ بلکہ اس ایشو پر بات کرنا تقریباً جرم سمجھا جاتا تھا۔

18 کے الیکشن آگئے اور بی این پی نے منشور میں عوامی سطح پر کام کو شامل کیا اور لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی اٹھایا۔ بہت سارے لوگوں کے بیان سنے جو کہتے تھے بی این پی یہ سب الیکشن جیتنے کے لیے کررہی ہے اور الیکشن کے بعد سب بھول جائے گی مگر!

الیکشن کے بعد بی این پی کو سیٹیں ملیں۔ بلوچستان میں مشترکہ حکومت کی آفر ملی, وفاق میں سیٹوں کا پیش کش ہوا۔ مگر اس نے پرانے نکات کو سامنے رکھ کر اپنی سیاست کی جھونپڑی کو انہی پر کھڑی کی۔

وفاق میں عمران کو حکومت دینے کے خواہاں طاقتیں محتاج ہوئے تو نکات مان لیے گئے۔

ضمنی الیکشن کیچ کا وقت تھا۔ اختر مینگل خاموش رہ کر جیتی ہوئی سیٹ اپنے نام کرسکتے تھے مگر باہر سے آتے ہی لاپتہ افراد کے کیمپ میں گئے اور جیتی ہوئی سیٹ ہار گئے۔

سردار اختر مینگل کی سیاسی سوچ سے شدید اختلاف نہ صرف رکھا بلکہ کئی تحریریں اس کے متعلق لکھی جن میں سردار صاحب کی سیاسی حمکت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن یہ سب الیکشن 2018 سے پہلے کی باتیں تھیں۔ الیکشن 2018 سے قبل انتخابی مہم میں تمام بلوچ قوم پرست پارٹیز مگن تھیں اور ہر کسی کی کوشش تھی کہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ اس دوران میری جستجو کا محور الیکشن جیتنے کے بعد کے لیے کیے گئے وعدے اور دعوے تھے۔ میں نے تقریبا ساری بلوچ سیاسی تنظیموں کی طرف سے جاری کیے گئے منشور حاصل کیے اور سب کا بغور مطالعہ کیا۔

چند ایک اب بھی میرے پاس پڑے ہیں۔

الیکشن کے بعد تمام جماعتیں منشور بھول گئیں لیکن قومی اسمبلی میں 6 نکات اور صوبائی اسمبلی میں انتخابی منشور کی گونج نے واضح کیا کہ اختر مینگل یہ سب سیٹیں حاصل کرنے کے لیے نہیں کررہے تھے۔ اسی لیے اختر مینگل کی بدلی ہوئی سیاسی سوچ کی حمایت کی۔

لاپتہ افراد میں سے کچھ بازیاب ہوئے تو ریموٹ کنٹرول پاور ایک بار پھر حرکت میں آگئی اور پریس کانفرنس جھاڑ کر آنسوؤں کا رونا رویا۔ اچھی بات ہے کہ لاپتہ افراد بازیاب کرائیں مگر الیکشن کمپین کے دوران نال میں لاپتہ افراد کے گھر جاکر انہیں بتایا کہ کل پرسوں تک تمہارے لوگ تمہارے بیچ میں ہوں گے الکشن جیتنے سے بھی قبل۔ یہ کس طاقت کے بل بوتے پہ تھا اور عوام نے ووٹ دیا وہ لوگ کب واپس لاؤگے؟

بات کریڈٹ لینے کا نہیں سیاسی استقامت کا ہے۔

اگر آپ اسے سیاسی طور پر آزاد جدوجہد سے تعبیر کرتے ہیں تو بھی کریڈٹ اختر کو دیں کیوں کہ بلوچ سیاسی تنظیموں کو آزاد سیاست کرنے دینے کا مطالبہ بھی 6 نکات کا حصہ ہے۔

ایک طویل تاریخ اور جدوجہد کے داستان کو بھول کر ایک سیاسی بیان دینے سے میں تبدیل ہوتی سیاسی سوچ اور بظاہر بہتری کی جانب گامزن حالات کا کریڈٹ تمہیں کیسے دے سکتا ہوں۔

سردار اختر کے کمپین کو کمزور کرنے کی کوشش وہاں سے بھی کی گئی جہاں سے تمہارے کل کے کام تمہیں دیے جاتے ہیں جب کہا گیا کہ اختر مینگل نے میٹنگ جوائن نہیں کی۔

خضدار کی سطح پر شفیق مینگل سے اتحاد کرنے والے این پی, بی اے پی اور بی این پی عوامی کی سیاسی سوچ اور وژن کا بخوبی اندازہ ہوا تھا اس لیے اب کریڈٹ کریڈٹ میچ کو ختم کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر بلوچستان کے لیے واقعی آپ سب سنجیدہ ہیں تو مطالبات رکھیں اور اپنی سیاست کی عمارت کھڑی کریں کیوں کہ مرکز میں آپ بھی اتحادی ہیں اور اتحاد سے الگ ہونے کی دھمکی آپ بھی دے سکتے ہیں۔ مگر حکومت بلوچستان جو عزیز ٹھہری… اب کریں تو کیا کریں!

Facebook Comments

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply