چیف جسٹس ہمیں کیا دے گئے؟۔۔خاور نعیم ہاشمی

ایک شخص جو کل تک طاقت کا منبع تھا،آج خالی ہاتھ واپس گھر چلا گیا ہے،عدالت عظمیٰ میں سب سے بڑی مسند سے اترنے والے چیف جسٹس پاکستان جناب میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے خیال تھا کہ ان کی عدالتی تحریک پر تجزیے اور تبصرے سترہ جنوری کے بعد شروع ہوں گے، لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ انہوں نے تخت انصاف سے نیچے اترنے کے چھتیس گھنٹے پہلے خود ہی اپنے دور منصفی پر ریمارکس دیدیے،سب سے زیادہ وہ خود جانتے ہیں کہ انہیں تاریخ کس مقام پر کھڑا کرے گی،اپنی تاریخ وہ خود لکھتے جا رہے تھے انہوں بدھ کو ایک کیس کی سماعت کے دوران فرمایا کہ ان سے دانستہ اور غیر دانستہ طور پر اگر کسی کی بھی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ انہیں معاف کردے، یہ مکالمہ میں نے اور آپ نے بھی پہلے کبھی کسی جج کو اپنی ریٹائرمنٹ پر ادا کرتے ہوئے نہیں سنا ہوگا ، ان ججوں کی زبان سے بھی نہیں جو پی سی اوز پر حلف اٹھاتے رہے اور جو عوام کے منتخب نمائندوں اور سیاسی کارکنوں کو سولیوں پر چڑھاتے رہے،میں ماضی کے جن ججوں کا نام لئے بغیر ذکر کر رہا ہوں، ان کے اذہان میں احساس ندامت کا ہی اتنا بوجھ تھا کہ وہ معافی مانگنے کی بھی سکت نہیں رکھتے تھے، ریٹائرڈ جسٹس صاحب کے ان الفاظ کے پیچھے بہت کہانیاں ہیں، تاریخ کے جبر کی کہانیاں۔۔۔ میں نے سوشل میڈیا پر دو دن پہلے یہ سوال اٹھایا تھا کہ محترم چیف جسٹس جاتے ہوئے ہمیں کیا دے کر جا رہے ہیں؟ خیال تھا کہ اس سوال پر ان کی مخالفت اور حمایت میں لمبی چوڑی بحث ہوگی مگر ایسا نہ ہوا، اکثریت نے اس سوال پر چپ سادھ لی، کوئی جواب نہ دیا، صرف چھیالیس افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا، باقی اس سوال کو لائیک اور ڈس لائیک ہی کرتے رہے اس سوال کے جواب میں ایک نوآموز صحافی انتظار قریشی نے لکھا، چیف جسٹس ہمیں پہلی بار کرپشن کے خلاف زبردست ایکشن ، ریکوریاں ، ڈیمز کی تعمیر اور عنقریب ملنے والا معاشی سکون دے کر رخصت ہو رہے ہیں، لندن میں مقیم پاکستانی نڑاد سینئر صحافی ثقلین امام نے رائے دی ہے کہ وہ منی لانڈرنگ سے سیاستدانوں کی لانڈرنگ کرکے جا رہے ہیں۔
توصیف احمد خان پاکستان کی اردو صحافت کا ایک بڑا نام ہیں ،انہوں نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک اور سینئر پاکستانی صحافی عبدللہ سید نے جو کئی سالوں سے لندن میں مقیم ہیں نے رائے دی ہے کہ ہمارے منصف اعلی ہمیں عدالتی تحرک اور ایسے فیصلے سنا کر جا رہے ہیں جن کی وجوہات پردے میں رہیں گی یا جن کی توجیح نظر نہیں آئی،صحافی شاہد ندیم احمد اور نصرت علی کی رائے میں جسٹس صاحب ہمیں دلاسے اور لارے دے کر واپس جا رہے ہیں ، شگفتہ بٹ کا فرمانا ہے کہ وہ ہمیں جو دے کر جا رہے ہیں وہ ان کے جانے کے بعد ہی سامنے آئے گا، ناجیہ نذیر نے لکھا ہے ،کاش وہ مقدمات نمٹانے پر فوکس کرتے، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما اورنگزیب برکی نے ہمارے سوال کے جواب میں لکھا،وہ ہمیں ذہنی سکون دے کر رخصت ہو رہے ہیں، اسلم لودھی پبلک ریلیشن کی دنیا کا ایک بڑانام ہیں انہوں نے جواب دینے کی بجائے لکھ دیا کہ سوال اچھا ہے جبکہ سینئر صحافی طاہر ملک کا جواب ہے وہ وہی کرکے واپس جا رہے ہیں جو ان کے پیش رو کرتے رہے، رانا مسعود کی رائے میں وہ ہمیں دے کر جا رہے ہیں ،ایک نالائق حکومت ،، سرمد بشیر پاکستان کی صحافت کا ایک بڑا نام ہیں وہ لاہور پریس کلب کے صدر بھی رہ چکے ہیں جبکہ ان کے والد بھی صحافت کی دنیا میں اہم مقام رکھتے تھے، سرمد بشیر نے اپنے بھی جذبات کا ذکر کیا ہے، تھیٹر کی دنیا کے ایک آرٹسٹ آغا شاہد نے جو فوزیہ تبسم صاحبہ کے شوہر اور صوفی تبسم صاحب کے داماد ہیں،جواب دینے کی بجائے ہمیں ڈانٹ دیا ہے، لکھتے ہیں،،، کچھ نہیں دے کر جا رہے جناب۔۔ اب ذکر ایک اور فنکار کے جواب کا، عدیل برکی صاحب نئی نسل کے پسندیدہ گلوکار ہیں، گائیکی کی دنیا میں آج وہ ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا جواب بھی سن لیں۔۔ چیف جسٹس صاحب ہمیں وہی دے کر جا رہے ہیں جو جسٹس افتخار چوہدری دے گئے تھے۔۔۔ انگریزی صحافت میں نمایاں نام جناب اعظم خلیل نے بھی ہمارے سوال کا جواب بہت اعتدال کے ساتھ دیا ہے، کہتے ہیں کہ جسٹس ثاقب نثار صاحب ہمیں کچھ زیادہ نہیں دے کر جا رہے، اسی قسم کا ملتا جلتا جواب زاہد قادری، قمر شہزاد ،ظہیر الدین احمد،عمران مجید،ابوبکربٹ، اورنگ زیب ظفر خان،سجاد بلوچ،سینئر صحافی نفیس بزمی، جناب سید کاشف رضا اور امریکہ میں مقیم سینئر صحافی اقبال خان نے بھی دیا،، ہمارے سوال کا تفصیل سے اور طویل ترین جواب دیا سجاد احمد قاضی نے، وہ لکھتے ہیں ،، رخصت ہونے والے معزز چیف جسٹس نہ کسی کو سزا دے سکے اور نہ کسی کو انصاف۔۔۔ سجاد قاضی صاحب نے ایک بڑے بنک کے پنشنرز کیس میں ریویو پٹیشن کا بھی ذکر کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ اس پٹیشن کی پندرہ ماہ تک سماعت نہیں ہونے دی گئی، ان کا خیال ہے کہ رخصت ہونے والی چیف جسٹس تاریخ میں نہیں تاریخ کے ایک مخصوص خانے میں نظر آئیں گے، یہ تو تھی چند لوگوں کی ملی جلی رائے، اس ملک میں کروڑوں لوگ ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان کی محبت میں بھی مبتلا ہونگے ، جوں جوں وقت آگے بڑھے گا، منفی اور مثبت کہانیاں سامنے آتی رہیں گی اور عمومی رائے اوپر نیچے ہوتی رہے گی، اب آپ مجھ سے بھی سوال کر سکتے ہیں کہ میری کیا رائے ہے؟ میں چونکہ آج کی سیاسی اور متحرک عدلیہ کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں اس لئے میرا جواب ہے کہ۔۔۔ میں تو غیر جانبدار ہوں۔ ٭٭٭٭٭ جناب جسٹس ثاقب نثار نے بیرسٹر اعتزاز احسن کو اپنا آ ئیڈیل وکیل قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اعتزاز احسن جیسا بننا چاہتے تھے لیکن نہ بن سکے، بے شک اعتزاز احسن کے اس ملک پر، اس ملک کے جمہوری اداروں پر اور عوام پر بہت احسانات ہیں، پاکستان میں جب بھی حقیقی جمہوریت قائم ہوئی وہ اعتزاز صاحب کی احسان مند رہے گی، انہوں نے ضیاءآمریت کے دور میں مجھے بھی ایک بے بنیاد مقدمہ قتل میں سزائے موت سے بچایا تھا، میرے خلاف اس مقدمے کا عنوان تھا،،، ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کا سب سے بڑا ملزم، میں قلعہ بند تھا، میرے پیچھے آنے والا کوئی نہ تھا اوراعتزاز احسن اتنے بڑے آدمی ہیں کہ چھتیس سال پہلے کے اس واقعہ کے حوالے سے انہوں نے آج تک مجھ پر اپنا احسان نہیں جتلایا۔۔۔۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply