امریکہ میں ذات پات پر بڑی چوٹ/ابھے کمار

ریاست ہائے امریکہ کا شہر سیٹیل نے ذات پات پر مبنی امتیازات کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سیٹیل شہری کونسل نے ذات پات پر مبنی امتیازات کو ختم کرنے سے متعلق ایک مسودہ پاس کیا ہے۔ سوشلسٹ نظریہ کی حامل اور ہندوستانی نژاد اور سیٹیل شہری کونسلر کشما شاونت نے مذکورہ مسودہ پیش کیا۔ جہاں اس مسودہ کی مخالفت میں صرف ایک ووٹ پڑا ، وہیں چھ ووٹ اس کی حمایت میں آئے۔ اس طرح ۲۱ فروری کے روز سیٹیل امریکہ کا پہلا شہر بن گیا ، جہاں ذات پات کے خلاف قانون بنایا گیا ہے۔ مساوات کی اس جنگ کو کامیاب بنانے میں دلت اور بائیں بازو کی تنظیموں کا بڑا رول رہا ہے۔ یہ  بات بھی   بڑی مثبت ہےکہ کشما ساونت خود برہمن ذات میں پیدا ہوئی ہیں، مگر انہوں نے دلتوں اور دیگر محکوموں کے حقوق کی پاسداری کو اپنا مشن بنایا ہے۔

میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق، ساونت کا تعلق مہاراشٹر سے ہے۔ ان کی پیدائش سال ۱۹۷۳ میں پونےمیں ہوئی تھی، مگر ان کی تعلیم ممبئی میں ہوئی۔ وہ یونیورسٹی آف ممبئی سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویٹ ہیں۔پھر انہوں نے بطور سافٹ ویئر انجینئر کام کرنا شروع کیا۔ بعد کے سالوں میں وہ اپنے شوہر وویک ساونت کے ساتھ امریکہ چلی گئی۔ پھر ان کا جھکاؤ معاشیات کی طرف ہونے لگا اور انہوں نے سال ۲۰۰۳ میں شمالی کارولینا ریاست سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تین سال بعد وہ سیٹیل چلی گئی اور وہاں وہ مارکسی نظریہ کی حامل سیاسی جماعت “سوشلسٹ آل ٹنیٹیو” سے جڑ گئی۔ سال ۲۰۱۳ میں وہ بطور سوشلسٹ امیدوار سیٹیل شہری کونسل سے منتخب ہوئی اور تاریخ رقم کی۔ ایک لمبے وقت سے وہ عدم مساوات کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں اور ان کی کامیابی پوری دنیا کے لیے ایک بڑا پیغام ہے۔پیغام یہ کہ انسان کو اپنی ذات، دھرم، جنس سے اوپر اٹھ کر مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

کشما ساونت کو خراج تحسین دینے کا یہ ہرگز بھی مطلب نہیں ہے کہ اس کامیابی کے لیے صرف ایک ہی فرد ذمہ دار ہے۔ دراصل بہت ساری تنظیمیں امریکہ میں عدم مساوات کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ بہت سارے لوگ، اپنے آپ کو گمنام رکھ کر اور بڑی خاموشی سے، بابا صاحب امبیڈکر کے خوابوں کو پورا کرنے میں لگے ہیں۔ آج بڑی تعداد میں دلت بہوجن نظریہ کی حامل تنظیمیں امریکہ میں متحرک ہیں۔ امبیڈکر ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ، امبیڈکر انٹر نیشنل سینٹر، امبیڈکر انٹرنیشنل مشن، امبیڈکر کنگ اسٹڈی سرکل اور یکوٹی لیب ، جیسی امبیڈکر نواز تنظیموں کی اجتماعی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج امریکہ کا قانون ذات پات کی غیر برابری اور تعصب کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں کہا جائے تو امریکہ میں ۵۴ لاکھ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے لوگ زندگی  بسر  کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے آبا ؤ اجداد بھارت ، پاکستان، بنگلہ دیش ، نیپال، سری لنکا، بھوٹان سے ہیں۔ جنوبی ایشیا ئی نژاد کے امریکی باشندوں کی ایک بڑی تعداد دلتوں اور پسماندہ طبقات کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ میں ذات پات پر مبنی غیر برابری، بھیدبھاؤ اور تعصب جھیل رہے ہیں۔ بیرون ملکوں میں بھی ان کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کو پیچھے دھکیلنے کےلیے طرح طرح کی سازشیں کی جاتی ہیں،بالخصوس کام کاج سے متعلق جگہوں پر ان کے ساتھ امتیازات برتے جاتے ہیں۔ بہت ساری انسانی حقوق سے وابستہ تنظیمیں دلتوں اور پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں کی دردناک داستان کو اپنی رپورٹ میں شامل کر رہی ہیں۔

یہ ساری تلخ حقیقت اس بات کی گواہ ہے کہ ذات پات کا نظام ابھی بھی زندہ ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ذات پات کا نظام شہر میں آ کر ختم ہو جاتا ہے ،وہ سچائی سے منہ موڑ رہے ہیں۔ یہ بھی کہنا کہ صنعت کاری اور جدید کاری نے ذات پات کو پارہ پارہ کر دیا ہے، غلط ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ جس طرح سے ذات پات کا نظام گاوؤں میں دکھتا ہے، وہ شہروں میں کچھ الگ دکھتا ہے۔مگر ہر طرف ذات پات پر مبنی استحصال کا راج قائم ہے۔ امریکہ، یورپ یا پھر بھارت کے باہر دیگر ملکوں میں ذات پات پر مبنی غیربرابری پائی جاتی ہے۔ جس طرح سے نسل پرسی میں انسان کو ایک خاص نسل یا خاندان میں پیدا ہونے یا پھر ایک خاص رنگ میں دکھنے کی وجہ سے سماجی، معاشی اور ثقافتی طور سے کمتر سمجھا جاتا ہے، کچھ اسی طرح ذات پات کا بھی گندا کھیل دلتوں اور پسماندہ طبقات کو مساوی حقوق نہیں دیتا ۔ دیکھیے جب طاقتور طبقہ کسی مسئلہ کا حل نہیں چاہتا اور وہ کمزورں کو ان کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہوتا، تو وہ استحصال اور بھید بھاؤ سے چشم پوشی کرنا شرو ع کر دیتا ہے۔ بار بار یہ جھوٹی بات پھیلائی جاتی ہے کہ ذات پات کا نظام کب کی ختم ہو گیا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک کا آئین کب کا مساوی حقوق بانٹ چکا ہے۔مگر اس بات پربحث نہیں ہوتی ہے کہ اچھا قانون تب تک کام نہیں کرے گا ، جب تک اس نافذ کرنے والے لوگ محکوم طبقات سے نہ آ جائے۔ یہ بھی افواہ پھیلائی جاتی ہے کہ ذات پات کی بات کرنا ذات پات کو دوبارہ زندہ کرنے کی ایک بھارت اور ہندو مخالف سازش ہے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے ماہر سماجیات نے بھی کاسٹ ختم ہونے کا علان کر دیا ہے۔

مگر سچائی یہ ہے  کہ  ذات پات کا نظام مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ ذات پات صرف بھارت کا ہی مسئلہ نہیں ہے،بلکہ کم و زیادہ یہ بر صغیر اور دنیا کے مختلف حصّوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ذات پات کی گندگی صرف ہندو معاشرے میں ہی نہیں دیکھی جاتی ہے، بلکہ مسلم، عیسائی اور سکھ سماج میں بھی موجود ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت سارے مذاہب میں ذات پات کو جائز نہیں قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ یا ایشور نے سب کو برابر پیدا کیا ہے اور کوئی کسی سے بڑا یا چھوٹا نہیں ہے۔ اگر کوئی بڑا اور چھوٹا ہے تو صرف اپنے اچھے اور بُرے اعمال کی وجہ سے۔ مگر جب ہم ان مذہبی کتابوں سے باہر نکل کر معاشرتی نظام کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ بعض ہی ذاتوں کے لوگ جھگی اور گندی بستیوں میں رہنے کو مجبور ہیں۔ کچھ ہی ذاتوں سے صفائی کا کام لیا جاتا ہے۔ وہیں ، چند مٹھی بھر اعلیٰ ذات کے لوگ سارے وسائل پر قابض ہیں۔کالج، یونیورسٹی، پارلیمنٹ، میڈیا، سنیما ، مذہبی ادارہ، صنعت اور کھیت، سب جگہ اعلیٰ ذاتوں کا دبدبہ ہے۔شادی بیاہ کی رسم بھی تو اکثر ذات پات کے دائرے میں ہی  پوری کی جاتی ہے۔ کیا کھانا ہے، کیا نہیں کھانا ہے، کیا اچھا ہے، کیا برا ہے، یہ سب بھی تو ذات پات پر مبنی شعور ہی طےکرتا ہے۔آسان لفظوں میں کہا جائے تو ذات پات کا نظام ، محروم طبقات کے لیے سزا ہے، وہیں اعلیٰ ذاتوں کے لیے مراعات کا خزانہ ہے۔ جب اعلیٰ ذات کے لوگ ملک چھوڑ کر باہر چلے جاتے ہیں، تب بھی وہاں وہ ذات پر مبنی اپنے مراعات کو ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اور اس طرح ذات پات کی بیماری بھارت سے باہر بھی پھیل گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سیٹیل میں ذات پات پر مبنی تعصب کے خلاف پاس ہوئے قانون سے طاقتور لوگوں کو زِک پہنچی ہے۔ اعلیٰ ذاتوں کی امریکی لابی دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کی اس مہم کے خلاف بول رہی ہے۔ یہ یاد رہے کہ یہ وہی اعلیٰ ذات کی امریکی لابی ہے، جو بھارت میں ہندوتو اکی تنظیموں کے کافی قریب ہے۔ امریکہ سے یہی لابی زعفرانی جماعت کے لیے موٹی رقم چندے کی شکل میں بھیجتی رہتی ہے۔اس لابی کی سیاست مساوات کی نہیں ہے بلکہ زعفرانی قوم پرستی اور مذہبی احیاء  ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کی اس لابی نے مذکورہ قانون کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک خاص مذہب پر حملہ ہے۔ انہوں نے اس قانون کو “ہندو فوبیا “سے بھی جوڑ دیا ہے۔یہاں تک بھی کہا جا رہا ہے کہ ذات پات کا بیانیہ بھارت اور ہندو سماج کے خلاف انگریزوں کی ایک بڑی سازش ہے۔یہ سب بتلاتا ہے کہ ۲۱ ویں صدی میں بھی طاقتور طبقہ مساوات کی راہ پر چلنے کے لیے تیار نہیں ہے، بھلے ہی وہ خود کو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ یا ترقی یافتہ کہے۔ یہی تو اس بات کی علامت ہے کہ ذات پات کا نظام زندہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply