تبلیغی جماعت کے بڑوں کی خدمت میں

 سی پیک کی تکمیل کے ساتھ ہی اگلے چند سالوں میں چینیوں کا ایک سیلابی ریلہ پاکستان میں داخل ہونے والا ہے۔ ایسے میں وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ آج چینی زبان اور کلچر کو سیکھنے کی طرف توجہ کی جائے تا کہ ایسے داعی پیدا ہو سکیں جو چینیوں کو مشرف با اسلام کریں۔ اور اس کی امید تبلیغی جماعت ہی سے کی جا سکتی ہے۔ خود چین میں تو تبلیغ پر پابندی ہے لیکن ان کے یہاں آنے کے بعد تو انہیں تبلیغ پر کوئی پابندی نہ رہے گی۔ دنیا میں اس وقت اگر کوئی طاقت امریکہ کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہے، تو وہ چینی قوم ہے اور اچھی بات تو یہ ہے کہ یہ روسیوں کی طرح  “فکری” لوگ نہیں ہیں۔ تو کیا معلوم کہ اس دعوت اور تبلیغ کے نتیجے میں “پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے” والی صورت حال پیدا ہو جائے۔

آپ انہیں اپنی “مسجد” میں لانے کی فکر نہیں کریں گے تو وہ تو آپ کو اپنے “مساج سنٹر” میں لے جائیں گے۔ ایک سرکاری ادارے میں چینی زبان سیکھنے والی کلاس کے تیس طلباء میں سے اٹھائیس کا تعلق فقہ جعفریہ  سے ہے۔ تو بھئی کام کرو کام، دوسروں کو لعن طعن کرنے اور گالیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، دوسرے تم سے تعداد میں بہت کم ہونے کے باوجود بہت کمٹڈ ہیں اور بہت پلاننگ سے کام کر رہے ہیں۔ انہی سے کچھ سیکھ لیں ۔ بریلوی تو ہجوم ہیں، اہل حدیثوں کو جماعتیں بنانے سے فرصت نہیں ہے، اب اہل سنت میں سے دیوبند کی تبلیغی جماعت سے ہی کچھ امید کی جا سکتی ہے۔ بھئی، میں بھی چینی زبان سیکھنا چاہتا ہوں، کوئی رہنمائی کر دے، یہ ہر عالم کا جذبہ ہونا چاہیے۔

جذبہ شہادت !

رات ایک شخص کو بے قراری میں روتے دیکھا تو پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگا اللہ کے لیے اور اس امت کے لیے، جان قربان کرنے کو دل تڑپتا ہے۔ میں نے کہا تو جہاد پر کیوں نہیں جاتے؟ کہنے لگا کہ کہاں جائیں، بیس سال ہو گئے مجھے اس کے لیے روتے ہوئے، اور بیس سال ہی ہو گئے یہ دیکھتے ہوئے کہ جہاد کا آغاز کافروں کے ظلم کے خلاف اٹھنے کے نعرے  سے ہوتا ہے اور اختتام مسلمانوں کی باہمی لڑائی پر۔ میں یہی سوچ کر خاموش ہو گیا کہ اس امت میں ضرور جہاد کی کوئی ایسی اجتماعی صورت پیدا ہو گی کہ ایسا جذبہ ضائع نہ ہو۔

عورت کی زبان!

Advertisements
julia rana solicitors

عورت کے کمیونی کیشن ٹولز میں سے اہم ترین “جذبات” ہیں، اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ پل بھر میں کیا سے کیا ہو جاتی ہے اور آپ حیران ہی رہ جاتے ہیں کہ لمحوں میں ہو کیا گیا ہے؟ اگر اپنی بیوی کے ساتھ  اچھے طریقے سے چلنا ہے تو عورت کی کمیونی کیشن کے طریقے کو سمجھنا ہو گا۔ پس لفظ، لاجک، ریزن، نصیحت، مکالمہ وغیرہ کو ایک طرف رکھو اور جذبات کو ہینڈل اور ڈیل کرنا سیکھو تو یہ تمہیں ہمیشہ تمہاری ہی بیوی لگے گی۔ تو بیوی سے جب اختلاف ہو، اسے سمجھانے کی بے وقوفی نہ کرنا۔ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے کون سے لفظ سے اس کا اچھا بھلا موڈ خراب ہو جائے لیکن کچھ الفاظ ہیں کہ جن سے آپ اس کا موڈ ایک منٹ میں ٹھیک کر سکتے ہیں، ان الفاظ کو سیکھیں۔ ان کا تعلق لاجک، ریزن اور نصیحت سے نہیں ہے ، اس کے جذبات سے ہے اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ “غلطی میری تھی۔”

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply