انسپکٹر صادق گُجر شہید کا قتل (قسط دوئم)۔۔عزیز اللہ خان

اب یہ بات تو کنفرم ہو چکی تھی کہ چوہدری صادق کو جبار ارائیں المعروف سندھی ، شاہسوار ، ابوبکر اور ستار ارائیں نے شہید کیا ہے مجھے صرف جبار کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ پشاور میں کہیں چھپا ہوا ہے اور اُسے گرفتار کرنے کے میرے پاس ایک ہی راستہ تھا گُل خان پٹھان دودن بعد بھٹو شاہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ گل خان پٹھان کا پتہ چل گیا ہے اگر آپ نے اسکو اکیلے گرفتار کیا تو اسے مجھ پر شک ہو جائے گا میں اسے لے کر کل براستہ ملتان علی مظفر گڑھ جاؤں گا۔ ویگن میں وہ میرے ساتھ ہوگا آپ نے ہم دونوں کو گرفتار کرلینا ہے تاکہ اُسے شک نہ ہو۔ اگلے روز پروگرام کے مطابق میں نے ملتان سے مظفرگڑھ جانے والی سڑک پر واقع دریائے چناب کی پل پر ناکہ لگا لیا۔مختلف ویگنیں چیک کرتے رہے۔کافی انتظار کے بعد ایک ویگن ملتان سے آئی جس میں اگلی سیٹ پر بھٹو شاہ اور گل خان پٹھان بیٹھے ہوئے تھے۔دونوں کو قابو کرنے کے بعد سرکاری گاڑی میں بیٹھا لیا اور دونوں کے چہرے پر نقاب چڑھا دیا۔رات کو واپس تھانہ کوٹ سمابہ جہاں میری پوسٹنگ تھی پہنچ گئے۔ بھٹو شاہ اور گل خان پٹھان کو الگ الگ کردیا۔ گل خان پہلے تو تفتیش میں اس بات سے انکار کرتا رہا کہ اس کو جبار سندھی کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہے جب تھوڑی سختی کی گئی تو بتایا کہ ایک سال قبل اس نے اپنے ایک پٹھان دوست کے ذریعے جبار سندھی کی شادی ایک پٹھان حجام کی بہن نانو سے کروائی تھی۔گاؤں کا نام اُرمڑ ہے البتہ پشاور سے 30/35کلومیٹر دور ہے اور علاقہ غیر کے قریب ہے۔ اب اگلا مرحلہ جبارسندھی کو گرفتار کرنا تھا۔ میں نے فوری طورپر DIGاشرف ملک کو بذریعہ فون بتلایا جنھوں نے مجھے شاباش دی اور انتظار کرنے کا کہا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ بعد مجھے SSPاعظم جوئیہ کی کال آگئی اور مجھے فوری طور پر جبار سندھی کی گرفتاری کے لیے اُڑمڑ پشاور جانے کا کہامجھے سے پوچھنے لگے آپکو پشتو آتی ہے؟ میں نے انکار کیا تو کہنے لگے پشتو بولنے والا کوئی ایک پولیس ملازم ساتھ لے جائیں لیکن آج ہی روانہ ہونا ہے کل صبح ملتان سے آپکی فلائیٹ ہے۔ٹکٹیں آپکو ائیرپورٹ پر مل جائیں گی۔آپ نے صبح ۹ بجے ملتان ائیرپورٹ پہنچنا ہے۔مزید کہا کہ اکاؤنٹنٹ تھوڑی دیر میں پچاس ہزار آپکو پہنچادے گا جو آپ کے کام آئیں گے میں نے نذیر نیازی سے پشتو بولنے والے ملازمین کے بارے میں پوچھا جس نے بتایا اس کا قریبی عزیز امیر خان ہیڈ کانسٹیبل ہے جو پشتو بخوبی بول لیتا ہے۔ آجکل پولیس لائینز میں اس کی ڈیوٹی ہے۔میں نے لائن افسر روزی خان کو SSPکا پیغام دیا۔ایک گھنٹہ کے اندر اندر امیر خان تھانہ کوٹ سمابہ پہنچ گیا۔اکاؤنٹنٹ نے بھی پچاس ہزار میرے حوالے کردیا۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔میں اور امیر خان ملتان کے لیے روانہ ہوگئے۔ان دنوں رحیم یار خان میں موبائل فون سروس نئی نئی شروع ہوئی تھی میں نے بھی ایک نمبر لیا ہوا تھا
صبح 6بجے میں اور امیر خان ملتان ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ آپریٹر SSPنے مجھے انسپکٹر ٹریفک ملتان کا نمبر دیا جس نے مجھے ٹکٹیں لا کر دینی تھی۔8بجے انسپکٹر ٹریفک نے مجھے ٹکٹیں لا کر دے دی۔ 11بجے دن میں اور امیر خان بذریعہ جہاز راولپنڈی کے لیے روانہ ہوگئے۔ان دنوں فوکر جہاز ملتان سے روالپنڈی جایا کرتے تھے۔آجکل کی بسیں ان جہازوں سے ہزار گنابہتر ہیں۔امیر خان پہلی دفعہ جہاز کا سفر کررہا تھا۔ دوران سفر وہ پریشان ہی رہا۔سرکاری خرچہ پر جہاز پر جانے کا ان دنوں رواج نہ تھا۔ بڑے افسران تو اکثر سرکاری خرچہ پر جہاز میں سفر کرتے تھے۔ مگر ماتحت ملازمین پہلی دفعہ سرکاری خرچہ پر سفر کر رہے تھے۔تین گھنٹہ کی فلائیٹ کے بعد فوکر جہاز راولپنڈی ائیرپورٹ پر اتر گیا میرا کزن ساجد بلوچ ان دنوں پرل کانٹیننٹل ہوٹل روالپنڈی میں ملازمت کرتا تھا۔ہم نے ٹیکسی لی اور پرل کانٹیننٹل ہوٹل پہنچ گے ساجد نے ہمیں دوپہر کا کھانا ہوٹل میں کھلایا کھانا کھانے کے بعد میں نے ساجد بلوچ کو کہا کے اپنی کار مجھے دے پشاور جانا ہے جس نے اپنی شیرالڈ کار کی چابی میرے حوالے کردی۔تھڑی دیر بعد میں اور امیرخان پشاور روانہ ہوگئے۔ اس سے قبل میں کبھی پشاور نہیں گیا تھا دوران سفر مجھے SSPاعظم جوئیہ کی کال آئی۔جنھوں نے مجھے بتایا کہ پشاور میں فرنٹیر کانسٹیبلری کے ریسٹ ہاؤس میں ہماری بکنگ کروا دی ہے آپ سیدھے وہاں چلے جانا جوئیہ صاحب کی تعیناتی پشاور بھی رہی تھی جس کا ہمیں بُہت فائدہ ہوا
رات کو پشاور پہنچے تھوڑی تلاش کے بعد فرنٹیر کانسٹیبلری ریسٹ ہاؤس ڈھونڈ لیا جوکہ پشاور میں واقع فورٹ(قلعہ) کے پچھلی جانب تھا۔جہاں ہمارے لیے دوکمرے بُک تھے۔میں نے اپنے پشاور پہنچنے کی اطلاع SSPاعظم جوئیہ کو دے دی۔جنھوں نے مجھے کہا کہ کل صبح CIAہیڈکواٹر پشاور میں انسپکٹر عزیز خان سے ملنا ہے۔وہ آپکی ہرقسم کی مدد کرے گا۔
اگلے روز تیار ہوکر CIAہیڈ کواٹر پشاور پہنچے۔انسپکٹر عزیز میراانتظار کررہا تھا۔ ہم نام ہونے کی وجہ سے مجھے بڑے تپاک سے ملا۔میں نے اسے ملزم جبار سندھی کی اُڑمڑمیں موجودگی کے بارے میں بتایا۔انسپکٹر عزیز نے اپنا ایک پرانا ہیڈکانسٹیبل بلایااور اس سے پشتو میں بات کی۔امیرخان میرے ساتھ ہی موجود تھا جو مجھے ساتھ ساتھ ترجمہ کر کے بتارہاتھا۔تھوڑی دیر بعد انسپکٹر عزیزنے مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگا یہاں تین اُڑمڑ گاؤں ہیں۔ اُڑمڑبالا، اُڑمڑ میانہ اور اُڑمڑپیان اب بتائیں کے ان میں سے کس گاؤں میں جبار موجود ہے؟تینوں گاؤں انتہائی خطرناک ہیں ان گاؤن کے 95%مرد قتل ہوتے ہیں۔یہ علاقے اسلحہ کا گڑھ ہیں کلاشنکوف، ہینڈگرنیڈ ہر قسم کااسلحہ یہاں ملتاہے۔آپس میں شدید دشمنیاں پائی جاتی ہیں مکمل پتہ کے بغیر یہاں جاکرجبار سندھی کو تلاش کرنا بہت مشکل ہوگاکیونکہ پٹھان اپنے مہمانوں کو نہیں پکڑنے دیتے۔ میں اور امیرخان ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کے اب کیا کریں؟ میں نے انسپکٹر عزیز سے کل تک کا وقت مانگا تاکہ گُل خان سے معلوم کیا جاسکے کے جبار سندھی کس گاؤں میں رہتا ہے۔میں نے نذیر نیازی کو کوٹ سمابہ ٹیلی فون کیا کیوں کہ ہم نے گُل خان پٹھان کو تھانہ کوٹ سمابہ حراست میں رکھا ہوا تھا۔اسکی حفاظت کے لیے نذیر نیازی اور غلام قاسم کانسٹیبلان مامور تھے نذیر نیازی نے گُل خان سے دریافت کیا کچھ دیر بعد اس نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ گل خان کہتاہے کے مجھے یقین نہیں ہے۔۔۔پر ہوسکتاہے یہ اُڑمڑ میانہ ہو؟
اگلے روز میں اور امیر خان تیار ہوکر ملک عزیز انسپکٹر کے دفتر CIAپشاور پہنچ گئے۔ انسپکٹر صاحب ابھی تک دفتر نہ آئے تھے تھوڑی دیر انتظار کے بعد وہ دفتر آگئے میں نے انھیں اُڑمڑمیانہ کا بتایا اور کہا ہوسکتا ہے جبار سندھی یہاں ہو۔ ملک عزیز انسپکٹر نے ہیڈ کانسٹیبل مراد خان کو بلایا اور کہا کہ ان کو لے کر اُڑمڑمیانہ چلے جاؤ۔۔۔وہاں میرا ایک دوست علی خان ہے وہ آپکی مدد کرسکتا ہے۔میں، امیرخان اور مراد خان اپنی کار پر اُڑمڑمیانہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اُڑمڑمیانہ پشاور سے تقریباََ 12/10کلومیٹر کی مسافت پرتھا
بابا علی شاہ دراز قد سترسال کا بوڑھا شخص تھا مگر جوانوں سے زیادہ پُرجوش ساری بات سُننے کے بعد بولا آپ کو عزیز خان نے بھیجا ہے اُس کے مجھ پر بُہت احسان ہیں کوئی مثلہ نہیں آپ حجام کا نام بتائیں میں جبار کو ڈھونڈ دوں گا مراد خان پشتو میں بولا نام حجام کا تو نام تو پتہ نہیں البتہ اُس کی بہین کا نام نانو ہے علی شاہ نے زور سے قہقہ لگایا اور بولا اب میں بہین کے نام سے کیسے پتہ لگاوں گا یہاں گاوں میں کُل چار حجام ہیں مجھے دو دن کا وقت دیں میں پتہ کروا دوں ہوں گا ہم نے واہس جانے کی اجازت مانگی تو بابا علی شاہ ناراض ہو گیا کہ بغیر کھانا کھائے جانے دینا پٹھان کی روایت نہیں ہے کھانا بُہت اچھا تھا جوار کی روٹی اور شملہ مرچ میں بھرے قیمہ کا سامن کمال تھا ہم واپس پشاور روانہ ہو گئے کیونکہ رات کا سفر خطرناک ہو سکتا تھا
واپس پُنچ کر اعظم جوئیہ ایس پی کو دن کی تمام مصرفیات کے بارے میں آگاہ کیا ابھی اُن کا فون بند ہوا تو ڈی آئی جی بہاولپور کی کال آگئی اُنہیں دوبارہ وہی سارے حالات بتائے اگلہ روز ہم فارغ تھے صُبح صُبح انسپکٹر عزیز خان پولیس ریسٹ ہاوس آگیا بولا آپ کو جوئیہ صاحب نے بھیجا ہے وہ میرے مہربان ہیں ہم دونوں پر پشاور میں ایک مقدمہ بھی ہو گیا تھا آج آپ کو باڑہ کی سیر کرواتے ہیں ناشتہ کرنے کے بعد ہم باڑہ مارکیٹ دیکھنے روانہ ہو گئے اُن دنوں حالات اتنے خراب نہ تھے باڑہ مارکیٹ میں خوب رونق تھی غیر مُلکی کپڑا الیکٹرانکس کے سامان سے دوکانیں بھری پڑی تھیں یہاں سے خریداری پر کوئی روک ٹوک نہ تھی البتہ کسٹمز والے پشاور سے باہر سامان لے جانے والوں کو پکڑ لیتے تھے اور اپنا حصہ وصول کرتے تھے باڑا مارکیٹ کے دوسری جانب آزاد علاقہ شروع ہو جاتا تھا جہاں اسلحہ چرس اور افیون کی دوکانیں بھی تھیں جن میں یہ سارا ممنوع سامان وافر مقدار میں موجود تھا مجھے یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کہ ان دوکانوں پر قران پاک کی آیات مبارک لکھی ہوئی تھیں جن کا مفہوم تھا کہ”اے اللہ ہمارے رزق میں آضافہ فرما” عزیز خان مجھے اور امیر خان کو ایک بُہت ہی خوبصورت بنے ہوئے حجرہ میں لے گیا جہاں کُچھ لوگ ہمارے منتظر تھے جو ہمیں بڑے تپاک سے ملے ان افراد میں طاہر شاہ بھی تھا جو اس حجرہ کا مالک تھا کُچھ افغانستان سے بھی آئے ہوئے تھے حجرہ کے مالک طاہر شاہ ہمیں مل کر فوری طور پر باہر نکل گیا جہاں ایک صحت مند دُنبہ موجور تھا ملازمین چھریاں لے کر آگیے اور ہمارے سامنے طاہر شاہ نے دُنبہ کو ذبح کردیا پٹھان اپنے مہمانوں کے لیے دُنبہ خود ذبح کرتے ہیں اور خوشی محسوس کرتے ہیں پُر تکلف کھانے کے بعد انسپکٹر عزیز خان نے ہمیں ریسٹ ہاوس چھوڑ دیا
اگلے روز مراد خان کو لیکر ہم علی شاہ کے پاس پمنچ گئے جو ہمارا انتظار کر رہا تھا اور کافی خوش نظر آرہا تھا ملتے ہی بولا نانو کے بھائی نذر کے گھر کا پتہ چل گیا ہے مگر یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ جبار کہاں ہے کیونکہ یہ تو معلوم ہوا ہے نانو کی شادی نذر خان نے کسی پنجابی سے کی ہے مگر اس یہ بات کنفرم نہیں ہورہی کہ وہ گھر ہے یا نہیں ؟ شام تک انتظار کرتے رہے مگر جبار کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی رات ہونے سے پہلے ہم پشاور کے لیے روانہ ہو گئے ایک اچھی خبر تھی جو ڈی آئی جی ملک اشرف صاحب کو دی جا سکتی تھی واپس پُہنچ کر پہلے ایس ایس پی اعظم جوئیہ کو فون کیا کیونکہ اپنے امیجیٹ باس کو اعتماد میں رکھنا ملازمت میں کامیابی کا زینہ ہے اور انہیں یہ بھی کہا کہ آپ ڈی آئی جی صاحب کو بتا دیں کہ جبار کا پتہ چل گیا ہے اب صرف گرفتاری بقایا ہے ایس پی صاحب نے شاباش دی دس منٹ کے بعد میرے موبائل فون پر ملک اشرف ڈی آئی جی کی کال آگئی مجھ سے تمام صورت حال کے بارے میں دریافت کیا اور بولے آئیندہ مجھے ڈاریکٹ کال کرکے فوری بتایا کرو تاکہ میں آئی جی صاحب کو بتا سکوں ان دنوں جہانزیب برکی آئی جی پنجاب تھے
اُرمڑ میانہ میں موبائل فون کے سنگنلز نہیں آتے تھے وہاں جاتے ہی سب سے رابطہ منقطع ہو جاتا تھا کیونکہ بابا علی شاہ کے ہاس موبائل فون نہ تھا اور نہ ہی ہم جبار کے بارے میں کسی اور کو بتا سکتے تھے اس لیے روزانہ اُرمڑ میانہ جانا پڑتا تھا اسی طرح ایک ہفتہ گذر گیا مگر جبار کے بارے میں کوئی اطلاع نہ تھی کہ وہ گھر ہے یا نہیں ایک عورت بھی نانو کے گھر بجھوائی گئی مگر اُس کا جانا بھی بےسود ثابت ہوا
سارا دن اُرمڑ میں چھپ کر گُزرتا اور رات کو ڈی آئی جی صاحب کی جھاڑیں سُننے کو ملتیں تھیں صرف ایس پی جوئیہ صاحب میرا حوصلہ بڑھاتے تھے
آٹھویں دن جب میں اور امیر خان اُرمڑ سے واپس پولیس ریسٹ ہاوس پُنہچے تو ڈی آئی جی صاحب کی کال آئی میں ذہنی طور پر بے عزتی کے لیے تیار ہو گیا مگر اُن کا موڈ بُہت اچھا تھا بولے چوہدری صادق قتل کے ملزمان میں سے ستار ارائیں اور ابوبکر کو اسلم غوری ڈی ایس پی اور میاں عرفان انسپکٹر وغیرہ نے بورے والا سے گرفتار کر لیا ہے ملزمان ابوبکر اور ستار نے بھی انٹیروگیشن میں یہی بتایا ہے کہ جبار اُرمڑ میانہ میں ہے اب شاہسوار اور جبار کی گرفتاری بقایا ہے جبار کی گرفتاری آپ کے ذمہ ہے اور آپ نے ہی کرنی ہے بغیر گرفتاری کے مجھے شکل نہ دیکھانا اور فون بند ہو گیا
مجھے ستار اور ابوبکر کی گرفتاری کی خوشی بھی ہوئی مگر اب یہ فکر بھی لاحق ہو گئی کہ اگر جبار گرفتار نہ ہوا تو میں کیا مُنہ لے کر واپس جاوں گا سب میرا مذاق اُڑائیں گے کیونکہ محکمہ میں ایک اندیکھا مقابلہ چل رہا ہوتا ہے
اگلے دن حسب دستور تیار ہو کر بابا علی شاہ کے حجرہ پر پُُہچ گئے اُسے بھی ملزمان کی گرفتاری کا بتایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اب ہم واپس نہیں جائیں گے ہمارے رہنے کا بھی بندوبست کریں اپنی کار ہم چھپا کر کھڑی کرتے تھے تاکہ عام لوگ نہ دیکھ سکیں
بابا علی شاہ بولا نذر پٹھان کے گھر کے سامنے ایک قبرستان ہے رات وہاں چُھپ کر بیٹھتے ہیں ہو سکتا ہے جبار رات کو گھر سے باہر نکلتا ہو مجھے ہدایت کی گئی آپ نے گونکا بن کر رہنا ہے کیونکہ آپ کو پشتو نہیں آتی پوری رات امیر خان میں اور بابا علی شاہ قبرستان میں چھپ کر بیٹھے رہے صُبح کی اذانیں شروع ہوگئیں مگر نذر پٹھان کے گھر سے کوئی شخص باہر نہ نکلا دو راتیں مزید ہم نے قبرستان میں گُزاریں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا جبار کا پتہ نہ چلا صُبح واپس پشاور جانے کا فیصلہ کیا تاکہ ڈی آئی جی صاحب کو بتا سکیں کہ جبار کا کوئی پتہ نہیں چل رہا مگر اُن کے سخت رویہ سے ڈر بھی لگ رہا تھا بابا علی شاہ ہمیں پریشان دیکھ کر بولا آپ پریشان نہ ہوں اللہ بہتری کرے گا واپس پشاور آکر ایس پی جوئیہ صاحب کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور عرض کیا کہ ڈی آئی جی صاحب کو بتا دیں کیونکہ مجھ میں بے عزت ہونے کا حوصلہ نہ تھا ایس پی صاحب نے مجھے کہا ہمت نہ ہاریں جبار ضرور وہیں ہے اتنا بڑا جرم کر کے بھاگا ہے وہ آسانی سے باہر نہیں آئے گا

ایک دن پشاور میں گُزارا میں اور امیر خان اب مایوس ہو چُکے تھے پیسے بھی ختم ہو گئے تھے ہم نے یہ فیصلہ کیا ایک دن اور اُرمڑ کا چکر لگاتے ہیں اگر اب بھی جبار کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی تو پھر ہم واپس چلے جائیں گے دوسرے دن تیار ہو کر اُرمڑ میانہ کے لیے نکل ہی رہے تھے کہ ایس پی جوئیہ صاحب کا فون آیا جنہوں نے بتایا کہ شاہسوار کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے مجھےاس خبر سے خوش ہوئی چلو تین ملزمان گرفتار تو ہو گئے ہیں جبار بھی پکڑا جائے گا اور پھر ہم اُرمڑ روانہ ہو

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply