وہ لوٹ آئیں گے، دلوں کو بے قرار رکھو۔۔۔۔محمد خان داؤد

وہ لوٹ آئے ہیں جن کو انسانوں اور کتابوں سے پیر تھا۔ جو محبت بھری باتیں کرتے ہیں۔ جن کو سیاست اور خدمت سے عشق ہے۔ جو انسانوں سے دل رکھ کر انسانوں کے لیے سو چتے ہیں۔ جو اپنے بے قرار دل سے بہت ہی بے قرار رہتے ہیں۔ وہ لوٹ آئے ہیں جن کے لیے ہمارے اداس دل کہا کرتے تھے کہ “وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بے قرار رکھو.”

وہ انسانوں کی ڈھارس بندھاتے تھے اور کتابوں کو پڑھتے تھے۔ وہ علم عمل کی بات کرتے تھے۔ ان کا علم انہیں عمل پر اکساتا تھا۔ وہ عمل میں اتنے آگے بڑھ آتے تھے کہ وہ کامدار ہو جا تے تھے۔ انہیں نامدرا ہونے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ پر کبھی کبھی تو وہ انسانوں کو بھی پڑھتے تھے۔ ان کا علم، عمل آگہی ہی ان کا دشمن ہوا۔ وہ جو رات کی تاریکی میں اس لیے گم کر دیے گئے تھے کہ وہ اپنے ایک اور ساتھی کو تلاشتے پھرتے تھے۔ وہ ساتھی جو حال ہی میں بی ایس او سے ایک عہدہ لیے میدان عمل میں آیا تھا۔ وہ بیقرار دلوں کے مالک اس کے لیے مظاہرہ کر تے تھے۔ اس کے لیے بات کر تے تھے اور ان بہنوں کی آنکھوں سے آنسو پونچھتے تھے جن کے بھائی رات کی تاریکی میں گھر سے اُٹھا لیے گئے تھے۔ ان بہنوں کا کوئی حالِ یار نہ تھا۔ وہ بہنیں تو کوئٹہ شہر کی گلیوں سے بھی واقف نہیں تھیں۔ پر اب وہ اسی شہر کی گلیوں میں بھٹک رہی ہیں۔ وہ بہت سی بہنیں اپنے ان بھائیوں کو تلاشتی رہیں جن کا کسی کوکچھ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ وہ بہنیں اپنی صدا لیے کوئٹہ کی زمستانی ہواؤں میں پھر تی رہیں۔ انہیں بھی بلا تی رہیں جن کی گاڑیوں پر پرچم لگا ہوتا ہے پر نہ کوئی حالِ یار آتا تھا۔ نہ وہ بھائی آتے تھے جو گم ہوئے اور نہ ہی کوئی ایسا دلاسہ جو بس اتنا کہہ دے کہ وہ “وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بیقرار رکھو!.”

پر کوئی نہ آتا تھا. جب بی ایس او کے وہ ساتھی سامنے آئے اور مہرنگ بلوچ کی پکار بنے اور ان بہت سے بھائیوں نے ایک بہن کو کہا کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بیقرار رکھو!. وہ اس بہن کی ڈھارس بنے جس بہن کے دو بھائی گم کر دیے گئے. اہلِ بلوچستان سے کیا گلہ انہیں کیا کہا جائے۔ ابھی تو بلوچستان سُلگ رہا ہے اور اس ہلکی سی آگ پر وہ مائیں بہنیں اپنے درد سینک رہی ہیں جو سڑکوں پر “ہوریاں ہوریاں” چلتی ہیں. کبھی چیخ بن جا تی ہیں، کبھی محض صدا کبھی گونج. پر جب بلوچستان جلتا ہے اور اس آگ کی تپش کراچی اور ملک کے کونے کونے تک محسوس کی جا تی ہے. جب بھی اہل بلوچستان کی وہ گونگی چیخ وہی دب جاتی ہے جہاں سے وہ نکلتی ہے۔ جہاں وہ دردوں کی ماری بیٹھتی ہیں جو اپنے غم کا نوحہ بن جا تی ہیں تب بھی اہلیان بلوچستان ان سے بس اتنا بھی نہیں کہتے کہ
وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بے قرار رکھو!

اب کی بار جب سنگت جیئند بلوچ اور ان کے بھائی کو رات کی تاریکی میں گھر سے اٹھا لیا گیا. جب جیئند ملتان سے اپنی چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا اور اسے بی ایس او کی ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی جس میں وہ ان مظاہروں میں بھی شریک رہتا جن مظاہروں میں دردوں کی ماری با قی دردوں کی ماریوں کے آنسو پونچھتے، انہیں دلاسہ دیتے اور انہیں کہتے کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بیقرار رکھو!

تو وہ کون تھے جو بلوچ بیٹیوں کی آواز بنے تھے. ان کی بات اپنے لبوں سے کہتے تھے اور بہت ہی مایوسی کی کیفیت میں بھی اپنی بہنوں سے کہتے تھے کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بیقرار رکھو!

وہی بے قرار دلوں کے مالک بھی رات کی تاریکی میں گم کر دیے گئے. ویسے تو وہ مہرنگ اکیلی نہیں جو کوئٹہ کی شاہراؤں پر سنگت جیئند کو تلاش کر رہی ہے. بہت سی بہنیں ہیں پر ان بہت سی بہنوں میں تین اور کا اضافہ ہوگیا تھا. ان بہنوں کے بھائیوں کو گم کر دیا گیا تھا جو اداس بہنوں کے ساتھ محبت بھری کچہری کیا کرتی تھیں. اپنے ہاتھوں سے انہیں پانی پلا تے تھے. جب وہ دکھی بہنیں کہنے کے باوجود کچھ نہیں کہہ پاتی تھیں تو وہ اپنے ہاتھوں سے بہت ہی منت کر کے انہیں کچھ نہ کچھ کھلانے میں کامیاب ہو جا تے تھے پر کون جانتا تھا کہ وہ بھی اس لسٹ میں آجائیں گے جو لسٹ نصراللہ بلوچ کے ہاتھوں میں ہو تی ہے جس میں روز بروز ناموں کا اضافہ ہو جاتا ہے اور رو تی چیختی چلاتی مائیں اور بہنیں کوئٹہ میں اس نصر اللہ کا پتا پوچھتی رہتی ہیں جو نصراللہ جانتا ہے کہ کون کب کہاں سے اور کیسے لاپتا کر دیا گیا ہے۔

نصر اللہ بھی ان بہنوں کو یہی کہتے رہے ہیں کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بے قرار رکھو!

دل بہت بے قرار ہی تھے کہ وہ لوٹ آئے جو اپنی بہت سی بہنوں کو دلاسہ دیتے وقت کہتے تھے کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بے قرار رکھو. پر پھر بھی وہ نہیں لوٹا جس کے لیے یہ سانگ (مظاہرے) رچائے جا تے تھے. دن کو رات میں اور رات کو دن میں تبدیل کیا جاتا تھا. جو کھلے آکاش کے نیچے بیٹھ کر انتظار کی اذیت سے گزر رہی ہیں. جنہیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ اہل بلوچستان ان کے پاس کیوں نہیں آتے۔ جن میں اکثر نے کوئٹہ دیکھا ہی تب ہے جب وہ اس درد سے گزری ہیں جو کسی کی بات کرتے وقت بہت پریشان سی ہو جاتی ہیں۔ وہ جو ڈر جاتی ہیں جب ان کے سامنے سے کوئی بڑی گاڑی گزر جائے اور وہ اس دھول میں یہ دیکھ ہی نہ پائیں کہ اس گاڑی میں کون سوار تھا۔ وہ جو بہت معصوم ہیں۔ اتنی معصوم ہیں جب انہیں پہلے بار کوئی موبائل فون دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ وہ بھلے اپنے گھر اپنی ماں سے بات کریں تو ان کی آواز گلے میں ہی رک جا تی ہے اور آنسو روانی سے گرتے رہتے ہیں۔

پر آنسو تو گھر میں رہ جانی والی ماں کو یہ نہیں بتا پائیں گے کہ وہ کیسی ہیں جو بہت سا درد لیے کھلے آکاش میں بیٹھی ہیں۔ دوسری طرف سے سیدھی سادی ماں معصوم بیٹی سے پو چھتی رہتی ہے پر یہاں اس بیٹی کا دل بہت تیز دھڑک رہا ہوتا ہے اور وہ ماں کو اپنی بولی میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بیقرار رکھو!

ان کی ایسی معصومیت پر بھی اہل بلوچستان انہیں ایسا دلاسہ کیوں نہیں دیتے کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بے قرار رکھو.

جی ہاں حال ہی میں جو وزیر داخلہ بلوچستان کو نصر اللہ بلوچ نے ایک سو گم شدہ بے قرار دلوں کی لسٹ دی ہے. اس لسٹ میں بی ایس او کے وہ سنگت بھی تھے جو لوٹ آئے اور بی ایس او نے اپنے آفیشل پیج پر ان کی آمد کی اطلاع دی اور پر اس مہرنگ بلوچ کا بھائی نہیں آیا جو بھائی بہت پڑھانا چاہتا ہے جو بہت آگے بڑھنا چاہتا ہے، جو اپنے ہاتھ میں ان بلوچ بھائیوں کا ہاتھ پکڑ کر وہ دنیا دکھانا چاہتا ہے جو اس کے خوابوں کی دنیا ہے اور وہ دنیا ایسی ہے جو دنیا سنگت جیئند بلوچ کو سونے نہیں دیتی اور اب سنگت جیئند بلوچ کا نہ ہونا اس مہرنگ بلوچ کو سونے نہیں دیتا جس کا سنگت جیئند بلوچ سے بس بھائی والا رشتہ نہیں پر وہ دونوں اس دنیا کے اسیر ہیں جو دنیا خوابوں میں آکر دل کو بہت بے قرار کر دیتی ہے۔

وہ دونوں بے قرار دلوں کی دنیا کے اسیر ہیں. پر سنگت جیئند بلوچ نہیں اور اداس مہرنگ کے دل کے کان اس دلاسہ کو سننے کے لیے بے چین ہو رہے ہیں کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بے قرار رکھو.

Advertisements
julia rana solicitors

اہل بلوچستان ان بیٹیوں کے پاس آئے جو بیٹیاں اداس دل اور سخت سردی میں اپنے بھائیوں کی متلاشی ہیں۔ اگر اہل بلوچستان نہیں آتے تو وہ آئیں جن کو ہمارا بھی دل کہتا رہا ہے کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بے قرار رکھو. جب ان کا نام بھی اس لسٹ میں شمار کیا جانے لگا تھا جو لسٹ نصراللہ بلوچ کے ہاتھوں میں تھی۔ پر اب تو وہ آچکے ہیں۔ وہ بے قرار دلوں والے آئے جن کے آنے کی بی ایس او آنے کی اطلاع دے رہی ہے۔ بی ایس او کے سنگت آئیں مہرنگ بلوچ اور اس جیسی ان سب بیٹیوں کے آنسو پونچھیں اور انہیں دلاسہ دیں کہ وہ لوٹ آئیں گے دلوں کو بے قرار رکھو.

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply