کیا حکومت خطرے میں ہے؟ ۔۔۔۔۔آصف محمود

سوال یہ ہے : کیا حکومت خطرے میں ہے؟ اور جواب ہے : جی ہاں حکومت خطرے میں ہے۔ لیکن یہ خطرہ لرزتی معیشت سے ہے نہ پارلیمان کے اندر اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد سے، اس حکومت کو خطرہ اس کے اپنے وزرائے کرام سے ہے۔ یہ ایسے شعلہ بیان جنگجو ہیں جو دنیا کی ہر زبان میں داد شجاعت دے سکتے ہیں لیکن چُپ کسی زبان میں نہیں رہ سکتے ۔ تمام رات یہ عمران خان کی فصیلوں میں ریت بھرتے ہیں اور صبح دم یہ دادو تحسین کے طالب ہوتے ہیں ۔ شہر پناہ کے کمالات دیکھیے ، یہ خالی ہاتھ نہیں لوٹتے ۔ یہ عزت افزائی انہیں اور بے باک بنا دیتی ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شام ڈھلے فصیل شہر کے ساتھ ریت کا ڈھیر کچھ اور بلند ہو جاتا ہے۔ یہ فاتحانہ تمکنت کے ساتھ اس ڈھیر پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ روز نیا مطلع ، روز نیامقطع ۔
’’ داغ سا بھی کوئی شاعر ہے ذرا سچ کہنا
جس کے ہر شعر میں ترکیب نئی ، بات نئی‘‘

حزب اختلاف کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اور حزب اقتدار کی ضروریات الگ ۔ ٹین ایجرز جیسا لا ابالی پن ، نو عمری کا کھلنڈرا پن ، اٹھتی جوانیوں کی برہمی ، کسی جنگجو کا سا غصہ اورحریف کی صفیں الٹ دینے کی بے کران تمنا ، یہ چیزیں حزب اختلاف میں ہوں تو گوارا کی جا سکتی ہیں جہاں ردیف قافیہ ملا کر فریق مخالف پر اچھالے گئے چند فقرات ، کچھ ناتراشیدہ اور غیر معیاری جملے بازی اور ٹاک شو ز اور پریس کانفرنسوں میں مخالف کے گریبان کی دھجیاں اڑا دینا ہی صلاحیتوں کا بہترین اظہار سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن اقتدار کے تقاضے جدا ہیں ۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی مزاج کی تہذیب نہ ہو سکے ، لا ابالی پن اور کھلنڈرا پن رخصت نہ ہو سکے ، وہی ردیف قافیہ اور وہی ناتراشیدہ فقرے اچھالنا ہی معیار فضیلت قرار پائے تو ایک وقت آتا ہے سماج ان رویوں سے بے زار ہو جاتا ہے۔اولین مرحلے میں وہ سراپا سوال بن جاتا ہے : الیس منکم رجل رشید ؟ کیا تم میں کوئی رجل رشید نہیں ؟ اور آخرمیں وہ مجبور ہو کر کہتا ہے : میں بازآیا محبت سے ، اٹھا لو پاندان اپنا ۔ الیس منکم رجل رشید کی صدائیں تو بلند ہونا شروع چکیں، دیکھیے اب معاملہ سنبھال لیا جاتا ہے یا پاندان اٹھا لینے تک بات پہنچتی ہے۔

ٹاک شوز نے اس سماج کی اقدار لہو لہو کر دی ہیں ۔ اختلاف رائے کے آداب ہی پامال کر دیے گئے اور بات کہنے کا ڈھنگ نہ رہا ۔ چنانچہ ایک ہیجان ہے ۔ سیاست اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز نہیں رہ سکتی لیکن یہاں اخلاقی وجود کی کس کو پرواہ ہے ۔ اہل سیاست ایک دن ایک سیاسی آقا کی مدح سرائی میں مصروف ہوتے ہیں دوسرے دن آقا بدل لیتے ہیں اور ان کی زبان نئی چوکھٹ کی بلائیں لے رہی ہوتی ہے ۔ قصیدے سے ہجو تک ، گداگران سخن کا طنطنہ نہیں جاتا ۔ تحریک انصاف کی جانب لوگ مائل ہوئے تو ان مروجہ قباحتوں سے بے زاری بھی ایک بنیادی وجہ تھی ۔ تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو اس کی کوتاہیوں سے صرف نظر آسان تھا ۔ لیکن اب وہ حکومت میں ہے اور امور ریاست کبھی بھی کار طفلاں نہیں رہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مروجہ سیاست میں محض اخلاقی برتری سے معاملہ نہیں کیا جا سکتا ، مروجہ اصول بھی گاہے اختیار کرنا پڑتے ہیں ۔ رانا ثناء اللہ ، دانیال عزیز ، طلال چودھری ، مشاہد اللہ خان ، خواجہ آصف اور حتی کہ خواجہ سعد رفیق تک کا لب و لہجہ ایسا ہے کہ دوسری جانب فواد چودھری اور فیاض چوہان نہ ہوتے تو اپویشن لٹھ لے کر پیچھے ہوتی اور تھریک انصاف کی حکومت اپنی اخلاقی برتری کی پوٹلی کندھے پر رکھے آ گے آگے ہوتی ۔ یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ دو تین وزراء نے ساری اپوزیشن کو آگے لگایا ہوا ہے۔ لیکن سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ یہ صرف ایک محاذ ہے اور حکومت کو بیک وقت کئی محاذ سنبھالنا ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ جو حکمت عملی ایک محاذ پر کامیاب رہے وہ دوسرے محاذ پربھی آپ کو سرخرو کر سکے۔

حکومت کا معاملہ محض اپوزیشن سے نہیں ہوتا ۔ دور کہیں عوام الناس بھی کھڑے اس کی کارکردگی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ آتشیں لہجے اور ہر وقت کا جلال اپوزیشن کے لیے تو نسخہ کیمیا ہو سکتا ہے لیکن عوام اس رویے سے بیزار بھی ہو سکتے ہیں ۔ عوام کی اپنی ضروریات ، توقعات اور خواہشات ہوتی ہیں ۔ حکومت نے معیشت کے باب میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہوتیں تب تو عوام اس آتشیں لہجے کو گوارا کر لیتے لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے عذاب کے شکار عوام کے کانوں میں اگر صبح شام یہی دو چار فقرات ہی انڈیلے جاتے رہے کہ پکڑ لیں گے، الٹا لٹکا دیں گے ، چھوڑیں گے نہیں ، ایسی کی تیسی کر دیں گے تو ایک وقت آئے گا لوگ سوچیں گے انہیں ’’ تڑیاں ‘‘ لگانے کے علاوہ بھی کچھ آتا ہے یا سارے ہی جنگجو ہیں۔

سیاست میں تاثر حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ جذبات ، حدت گفتار، اقوال زریں ، فقرہ بندی کی لطافت ، ہجو میں ید طولی جیسی خوبیاں تو اس کے ہاں وافر ہیں لیکن حکومت کرنے کے لیے جس تحمل ، تدبر، اور خیر خواہی کی ضرورت ہوتی ہے اس کا شدید فقدان ہے۔ فی الوقت ایک خوش گمانی اس تاثرکو قدرے زائل کر دیتی ہے۔ خوش گمانی یہ ہے کہ ابھی یہ نا تجربہ کار ہیں کچھ وقت گزرے گا تو سنبھل جائیں گے۔لیکن ڈر ہے یہ خوش فہمی کہیں غلط فہمی نہ بن جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اقتدار تدبر ، تحمل ، فراست ، نرم دلی اور خواہی کا نام بھی ہوتا ہے۔ ہر وقت ، ہر موقع پر ، ہر کسی کے ساتھ آتش فشاں بنے رہنے کو گڈ گورننس نہیں کہتے۔حکومتی وزراء کے رویے میں بالعموم حکمت ، تدبر اور خیر خواہی کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسا گھر کا انتظام نو عمر لڑکوں کے حوالے کر دیا گیا ہے جو نیک نیت بھلے کتنے ہی کیوں نہ ہوں ان میں خوئے دلنوازی سرے سے موجود نہیں ، ان کے لہجے آگ اگل رہے ہیں اور وہ جدھر جاتے ہیں موقع محل دیکھے بغیر پنجابی فلم کے ہیرو کی طرح ڈائیلاگ بولنا شروع کر دیتے ہیں ۔ بس اتنی سی میانہ روی البتہ موجود ہے کہ ڈائیلاگ اردو میں بولتے ہیں جس سے صورت حال سنگین کم اور لطیف زیادہ ہو جاتی ہے ۔ عمران خان کے لیے جس روز اور کوئی بحران سر نہ اٹھائے اس روز کوئی وزیر محترم اپنی بصیرت سے ایک نیا بحران پیدا کر دیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو عمران خان اور ان کی حکومت کو میرا نہیں خیال کہ کسی اپوزیشن کی حاجت رہے

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply