میں ہاسٹل جا رہا تھا ،مردان میں پشاور جانے والی گاڑی میں بیٹھ گیا ،میرے ساتھ سیٹ پر دائیں طرف ایک قوی الجثہ نوجوان بیٹھا تھا ، بہت سنجیدہ لگ رہا تھا دوسری طرف محکمہ پولیس کا ایک انسپکٹر بیٹھا تھا جو اپنے کوئی پرائیوٹ کام سے جا رہا تھا اور میں درمیان میں بیٹھا تھا ۔ گاڑی اڈے سے نکل گئی ،سب خاموش بیٹھے تھے ،ہم ایک کوچ میں بیٹھے تھے جو موٹر وے پر جا رہی تھی ۔ پاکستان میں موٹر وے کا سسٹم بہت اچھا ہے ،موٹر وے پر سفر میں کوچ کی ایک سیٹ پر چار سواریا ں بٹھا نا منع ہیں ،ہمارے ڈرائیور صاحب نے چار سواریاں بیٹھا ئی تھیں کیونکہ یہاں زیادہ تر قوانین صرف کاغذات تک محدود ہوتے ہیں ، راستے میں موٹر وے پولیس نے گاڑی روکی اور ڈرائیور صاحب کو جرمانہ کیا ، اس وقت تک سب خاموش بیٹھے تھے کوئی ڈرائیور سے نہیں پوچھتا کہ آپ نے چار سواریاں کیوں بٹھا ئی ہیں ۔لیکن پولیس کے جرمانے کے بعد ساری سواریاں جاگ گئیں ،کوچ میں سر گوشیاں شروع ہوئیں ۔۔ ہر کوئی ڈرائیور پر لعن طعن بھیج رہا تھا ، تو ہمارے ساتھ قوی الجثہ نوجوان بھی خاموش نہ رہ سکا ، اس نے کہا ’’یہا ں کوئی قانون نہیں ہے یار!‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔۔ پھر اس نے اپنا تعارف کرایا ،وہ ایک ڈاکٹر تھا، مختلف ممالک میں کام کر چکا تھا اس نے دوسرے ممالک میں اپنے ادوار کے قصے بھی سنا ئے اور وہاں کے قانون یہاں کے قانون سے کمپئرکرتا رہا اور با ر بار کہتا کہ ’’ یار یہا ں پیچیدگی اور ٹینشن کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘ ، ڈاکٹر صاحب نے انگلینڈ میں گزرے ہوئے وقت کا ایک قصہ سنا تے ہوئے کہا کہ وہ ایک بار کام پہ جا رہا تھا ،اس کے پاس ایک چاکلیٹ تھی اس نے چاکلیٹ کھائی اور اس کاکاغذ پھینک دیا ۔راستے میں اس کے پیچھے ایک بچہ آرہا تھا ،بچے کاغذ اُٹھا کر تیزی سے ان کے پاس آیا، کاغذ ان کے ہاتھ میں تھمادیااور کہا کہ ’’ میں اس راستے پر سکول جا رہا ہوں اور آ پ اس میں گندگی پھلا رہے ہیں ‘‘ ۔ابھی آپ اپنے ملک کے بارے میں سوچئے بچوں کو تو چھوڑو ان کے والدین اور اساتذہ بھی ان با توں سے نا واقف ہیں ، راستے کو تو چھوڑئیے آپ یہاں کے بچوں کے کسی سکول جائیں وہاں پہ آپ کو اتنی گندگی دکھائی دے گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے ،
اسی طرح یہاں سارا معاشرہ گندہ ہے کہا ں کس کس کے بارے میں بتائیں گے ۔کل ایک بچہ میرے پاس آیا ،ہاتھوں میں ایک بڑا سلینڈر بھی بمشکل لے آیا اور میرے قریب رکھ دیا اس کے ساتھ اخبار کا ایک اسلامی صفحہ بھی تھا ،ان میں قرآنی آیات بھی تھیں۔اس نے اخبار کو اپنے کند ھوں پر رکھ دیا اور مجھے سلینڈر کو اپنے کندھوں تک اٹھا نے کو کہا ، میں نے اس سے اخبار لیا اور کہا کہ میں آپ کے لئے کوئی کپڑا لے آتا ہوں تو اس نے کہا نہیں ،میں ویسے بھی لے جا سکتا ہوں ،اخبا ر کو ایک امیر صاحب نے دیا کہ کپڑے گندگی سے بچ جائیں گے ۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں کاغذ ،کتاب ،اخبار قلم وغیرہ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ قرآنی آیات اور احادیث کی اتنی بے حرمتی۔۔۔۔۔۔ پھر ان اوراق کو ہمارے حضرات جہاں بھی ان کا کام ہو سکے پھینک دیتے ہیں ،بچے قصوروار نہیں ہمارے بزرگ اور مشیران صاحبان بھی اخبارات و رسائل سے یہ کام لیتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے ، چاہئے تو یہ تھا کہ غیر مسلم ہم سے عبرت لیتے اور ہمارے اعمال سے متاثر ہوتے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب ہم ان کی مثالیں دے رہے ہیں ، اس نے ایک لمبی سانس لی . ۔۔۔۔۔۔‘‘
پولیس انسپکٹر نے بھی اس کے ساتھ ان ہی موضوع پر بحث شروع کی ،دونوں یہاں کے اور دوسرے ممالک کے قوانین کا موازنہ کر تے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ۔یہاں کیا ہے؛کرپشن ، نا انصافی ، چوری ،غریبوں کا استحصال ،رشوت ،پولیس کی بد معاشی ، اغوا برائے تاوان ، اقتدار کا جابرانہ استعمال ،دہشتگردی ! اتنی برائیاں ہیں کہ بس۔۔۔۔ ۔وہ اس صورتحال کا ذمہ دار زیادہ تر پولیس کو ٹھہرا رہے تھے ۔۔جس پر انسپکٹر صاحب نے اعتراف کر تے ہوئے کہا کہ بالکل پولیس ذمہ دار ہے ،یہ ناجائز کام ان ہی کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ ’’میں سوچتا ہوں کہ رشوت تو پولیس ہی کی پیداوار ہے‘‘ انسپکٹر صاحب نے بلا جھجھک کہا ۔ بحث ہورہی تھی، پولیس اور حکومت تنقید کی زد میں تھے تو میں نے بھی اپنی خاموشی توڑدی اور کہا کہ ہم تو مسلمان ہیں ہمیں اتنے مسائل کیوں ہیں ؟ یورپ اور امریکہ والے غیر مسلم ہیں وہاں اتنے مسائل نہیں ہیں ، خوب کھا تے پیتے اور آزادی سے جیتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ، ’’ دیکھو! اللہ تعالیٰ ۔۔۔۔رب المسلمین نہیں ہے! رب العٰلمین ہے‘‘ ۔ ہم حیران ہوئے کہ یہ کیسی بات ہے لیکن وہ ٹھیک کہہ رہا تھا اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا رب ہے اور سب اس کی مخلوق ہیں ، وہ تمام جانداروں کا خالق و مالک ہے اور سب کو کھلا پلا رہا ہے ، اللہ تعالیٰ رحمان ورحیم ہے یعنی مہربان ہے دنیا میں مسلمان و کافر سب کو بلا امتیاز کھلا پلا رہا ہے،تو ڈاکٹر صاحب کی بات سو فیصد درست تھی کہ اللہ تعالیٰ رب العٰلمین ہے رب المسلمین نہیں ، مغرب والے اس لئے ہم سے آگے ہیں کہ ہم نے اپنا کام چھوڑ دیا ہے ،قرآن مجید کو چھوڑ دیا ہے ، برائے نام مسلمان ہیں ۔اور مغرب والے ، ٹھیک ہے مسلمان تو نہیں ہیں لیکن ہمارے مسلمانوں کا کام (جو ان کے لئے دنیاوی فائدے کے لئے ہیں اور ہمارے لئے دو نوں جہانوں کے لئے) انہوں نے اپنائے ہیں ،قرآن کو خوب سٹڈی کر رہے ہیں اور اس کے مطابق اپنی ترقی کا لائحہ عمل طے کر رہے ہیں ، زیادہ علم قرآن سے حاصل کر رہے ہیں اور ہم نے اپنی اس مقدس اور جامع کتاب کو چھوڑ کر انہی کی راہ پر چل رہے ہیں ۔اگر ہم اس مقدس کتاب قرآن مجید کا صحیح مطالعہ کریں گے اور ان ہی کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کریں گے ،ان کی راہ پرچلیں گے تو پھر کوئی مسلہ نہیں ہوگا ،دنیا میں بھی ہم مغلوب نہیں رہینگے اور آخرت میں بھی کامیاب ہونگے ۔اقبال کے اس شعر پر اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں