علمی اندھے پن کی وباء۔۔تنویر سجیل

علمی اندھے پن کی وباء۔۔تنویر سجیل/اس بات میں کوئی شک والی بات نہیں کہ آج کی دنیا انفارمیشن کے سیلاب سے مزیّن ایک ایسی دنیا ہے جہاں پر ہر طرح کی ضروری اور غیر ضروری انفارمیشن جس کے حصول کے لیے خواہ آپ نے کوشش نہ بھی کی ہو، ٹپک کر آپ کی آنکھوں کے راستے دماغ میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ جی ہاں ! جدت زدگی کی اس بے ساختگی کو پرمو، ایڈ یا مارکیٹنگ کا سستا ڈھنگ گردانیے یا پھر مجبوری  سائبر دھونس کا نام دیجیے بہرحال یہ زبردستی خود سے رکنے والی نہیں   اوراس زبردستی کی انفارمیشن سے صرف زبردستی سے ہی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

انفو ٹیک کی اس رنگینی کے فائدے تو بہت ہیں مگر کچے ذہنوں میں زبردستی ٹھونسی جانے والی انفارمیشن اتنی مفید نہیں   ہوتی کیونکہ ایسی انفارمیشن جس کے حصول کے لیے کوئی کوشش نہ کی جائے اور پھر بھی تسلسل کے ساتھ بار بار آنکھوں کے سامنے آئے تو وہ تحت الشعور کے پردے پر اپنے عکس چھوڑ دیتی ہے اب اگر اس انفارمیشن کو لاشعور کے سٹور میں مقفل نہ بھی کیا جائے تب بھی وہ انفارمیشن شعوری سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔

ایسی زبردستی کی انفارمیشن دراصل ایک ایسا وبال ہے کہ جس کے اثرات تب نمایاں ہوتے ہیں جب اس انفارمیشن کو وصول کرنے والا ذہن اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کو حقیقت تسلیم کرنا شروع کر دیتا ہے اور جب بھی حقیقی زندگی میں اس انفارمیشن سے ملتی جلتی صورتحال کا سامنا کرتا ہے تو انفارمیشن آٹومیٹیکلی اس کے خیالات کو گائیڈ کرنا شروع کر دیتی ہے جس کے سبب معاملات اور تعلقات الجھتے اور بگڑتے ہیں چونکہ وہ انفارمیشن جعلی اور حقائق کے منافی ہوتی ہے اور اپنی تشہیری خصوصیت کی وجہ سے ہر کچے ذہن کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

پھر چاہے دلائل اور حقائق کے انبار ہی اس شخص کے سامنے لا کر ڈھیر کر دیں تو وہ شخص حقائق کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا کیونکہ اس انفارمیشن نے ایک ایسی نفسیاتی ٹیکنیک کا سہارالیا ہوتا ہے جس کےمطابق اگر کوئی انفارمیشن بھی پہلے ذہن کو پہلے مل جائے تو ذہن اس انفارمیشن کو حقائق سمجھنا شروع کر دیتا ہے جبکہ بعد کی انفارمیشن چاہے وہ کتنی ہی حقیقی اور مدلّل ہو اس کو تسلیم نہیں کرتا ۔

مسئلہ زیادہ سنگین تب ہو تا ہے جب حقائق سے یہ دوری ہماری ذاتی زندگی کے معاملات میں مداخلت کرنا شروع کر دیتی ہے، یہ مداخلت اکثر اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ ہم اختلاف و انحراف کرتے کرتے زندگی میں بہت سے قیمتی لوگوں کوکھو دیتے ہیں اس انفارمیشن کی وجہ سے جو جہالت ہم میں در آتی ہے وہ ہم کو ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے ہماری انانیت کی لگام کو اتنا ڈھیلا کر دیتی ہے کہ وہ ہماری عقلی تفہیم کو بگاڑ دیتی ہے اور بحث کو جیتنے اور خود کو ہی درست ثابت کرنے کے چکر میں زندگی کے بہت سے رشتے ناطے توڑ کر خود کو اذیت پہنچانے کا ایسا بندو بست کرلیتے ہیں جو ہمیں سماجی طور پرتنہا کردیتی ہے۔

آجکل ایسی انفارمیشن کا سب سے زیادہ جادو نوجوانوں کے ذہن پر چلتا ہے جو پہلے سے ہی ایسی جلدبازی اور غیر تحقیقاتی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں کہ وہ ہر پہلی انفارمیشن کو ہی سچ مان کر اس کو اپنے ناقص علم کا حصہ بنا لیتے ہیں جبکہ اس انفارمیشن کے بارے ان کی تحقیق ذرا بھی نہیں ہوتی اور تصویر کے ایک رخ کو دیکھ کر علمی اندھے پن کا شکار ہوجاتے ہیں یہ اندھا پن اگر ان کی ذات کی حد تک رہے تو تب بھی صرف وہی شخص ہی اس سے متاثر ہوتا ہے مگر جب وہ اپنے علمی اندھے پن کا اظہار وہ دوسروں سے ہونے والی گفتگو میں کرنا شروع کرتے ہیں تو پھر وہم کی ایسی دنیا میں چلے جاتے ہیں جس کا حقائق اور علم سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا جہاں پر خود پرستی اور نرگسیت کے بادل منڈلا رہے ہوتے ہیں، جو اس شخص کو جیت کی ایسی ہوس میں مبتلا کر دیتے ہیں جو ان سے تمیز و اخلاق بھی چھین لیتی ہے اور بات کا رُخ علمی سے ذاتیات کی طرف چلا جاتا ہے جس کی کوئی عقلی منزل نہیں ہوتی ۔

اس علمی اندھے پن کی وبا کی شکارایک خاص قوم آج کل سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر وافر مقدار میں موجود ملتی ہے ۔ جن کے پاس ہر موضوع و مضمون پر مکمل پی۔ایچ ۔ڈی والی دسترس کا زعم ہوتا ہے جو صرف اپنے خیالی گیئر کو دباتے ہیں اور چشمِ زدن میں (غیر ) حقائق کے سمندر سے ایسے موتی نکالتے ہیں کہ دوسرے لوگ خود کوفلم کے ولن کی طرح مرتا محسوس کرتے ہیں۔

حیرت تو تب رخصت ہو تی ہے جب بادل نخواستہ ان کے علم و معرفت سے ذرا انحرافی یا اختلافی بات ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے حقائق کی طرف توجہ دلا نے کی کوشش کی جائے تو تب ان کے وضاحتی مگر آمرانہ بیان ایسے سامنے آتے ہیں جیسے کوئی شدید ٹھنڈ میں ان کا لحاف اُتار کر بھاگ جائے اور وہ آگ بگولہ ہو کر آپ کو دنیا ئے فانی سے نہ سہی مگر سوشل میڈیا سے کوچ کروانے کے در پر ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشل میڈیا کے ایسے ارسطوؤں کے ساتھ افلاطون بننے کی کوشش کرنادراصل علمی خودکشی کرنے کےمترادف ہوتا ہے کیونکہ گرو جی کو ایسی باتیں سخت گراں گزرتی ہیں جس میں ان کے علمی فکر کی شان کے خلاف بات کی جائے یا کم ازکم حقائق کی ہی بات کی جائے، اس لیے ضروری ہے کہ دامن کو ایسے خاروں سے الجھانے کی بجائے ان سے دامن کو بچایا جائے اور ان کو ان کی جہاندیدہ خیالات کی احمقانہ دنیامیں بھٹکنے دیا جائے۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply