سفر عشق ۔علی زیدی (قسط 2)

پنجاب سے گزرتے ہوئے سبز اور گھنے باغات اور خوش نما وادیاں دل و دماغ کو ٹھنڈک پہنچاتی رہیں۔ ٹرین نے بلآخر 3 بجے راولپنڈی کے اسٹیشن پرقدم رنجہ فرمایا ۔ ہمارے دوست الطاف  حیدر نے ہمیں پہلے ہی “مسافرِ خانہ توبا” کا پتا دے دیا تھا جہاں 500 روپے  ایک رات کا کرایہ تھا۔ اس نے یہ بھی  کہا تھا کہ مسافر خانہ باقی جگہوں سے صاف ستھرا اور ہماری “اوقات” کے مطابق ہے۔

اسٹیشن سے باہر آتے ہی ایک پستہ قد اور تیرہ رنگ شخص ہماری طرف آیا۔ ہم نے مسافر خانہ کا نام لیا۔ جب ہم ٹیکسی میں بیٹھے تو ڈرائیور کہنے لگا “کیا صاحب؟ مسافرخانہ توبا تو عجیب لوگ جایا کرتے ہیں، آپ تو پڑھے لکھے ہیں، آپ کو ایسی جگہ زیب نہیں دیتی” ہم نے فورا “زیب اور ہانیہ” کے بارے میں سوچا اور کہا کوئی اچھی جگہ لے چلو۔

مسافر خانہ!

جگہ دیکھ کہ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ مسافر خانہ مہنگا ہی ہوگا۔ اس دوران ہم اپنی اوقات یاد کرتے رہے۔  ہم اندر گئے۔

“نہیں نہیں، 2 ہزار تو بالکل نہیں دیں گے ۔ بہت زیادہ ہے”

“صاحب۔ اے سی ہے، ٹی وی ہے، اور کیا چاہیے؟”

20151211_152241

ہم نے ڈرائیور کو بلایا اور کہا، یار یہ تو بہت زیادہ بتا رہا ہے، کہاں لے آئے ہو تم ہمیں؟ ٹیکسی والے نے پنجابی میں اس بندے کو کچھ سمجھایا۔ ہمیں بس اتنا سمجھ آیا کہ ان لوگوں کی آپس میں پہلے سے سیٹنگ تھی اور ہم اس دوران  مرغا بن گئے تھے۔ ہم کافی تھک چکے تھے۔ کہیں اور جانے کی ہمت بھی نہیں تھی لہٰذا تھوڑی بحث و  تکرار کے بعد نرخ 1500 طے پایا اور ہم کمرے کی طرف چل دیے۔

سارا دن سونے کے بعد رات کو ہم باہر چلے آئے۔ موسم کافی خوشگوار تھا۔ چہل قدمی میں مزہ آرہا تھا۔ لوگ اپنی فیملی  کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے۔ تبھی بلا وجہ ہمیں الہام ہوا کہ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں خاتم الشعراء  جون ایلیا صاحب کی کتاب “شاید” خرید کر اپنے ظرف میں اضافہ کرنا چاہیے۔

ہم جستجو میں پڑ گئے۔ لوگوں سے پوچھ کر  ایک 2 منزلہ کتاب گھر جا پہنچے، جہاں پوچھنے پر پتا چلا کہ کتابوں کے اس عالی شان محل میں جون ایلیا کی ایک بھی کتاب موجود نہیں۔ ہم ششدر رہ گئے۔ یہ سننے سے پہلے ہمیں موت کیوں نہ آئی؟” کیا ایسا ممکن ہے؟ وہ کونسا کتاب گھر ہے جو جون ایلیا کی کتاب نہیں رکھتا۔ خاک ایسی زندگی پر۔

مگر قیامت تو اگلے مرحلے میں آنے والی تھی۔ جی ہاں، 2 گھنٹے  ڈھونڈنے کے بعد 5 کتاب گھروں کی سیر کرنے پر بھی ہمیں جون ایلیا کی ایک بھی کتاب نہیں مل سکی۔یہ دیکھ کر ہم راولپنڈی سے بد دل سے ہوگئے۔ سارا موسم تلخ اور دل رنجیدہ ہو گیا۔  واپس مسافر خانہ اپنے کمرے میں چلے آئے۔ دل بھر گیاتھا اس شہر سے۔

گیا اس شہر ہی سے میر آخر ۔ ۔ ۔

تمھاری طرز ِ بد سے کچھ نہ تھا خوش!

صبح ِ انور (کیونکہ ہم دیر سے اٹھے تھے اس لیے صبحِ صادق کہنا صادق کی بے عزتی ہوگی) ہم رکشے والے کو 150 دے کر پیر ودھائی اڈہ” پہنچے۔ ہمیں یاد تھاکہ مراد علی نے کہا تھا کہ پیر ودھائی اڈہ  سے گاڑیاں مانسہرہ اور پھر وہاں سے وادی” کاغان” کو جاتی ہیں۔210 روپے  کا ٹکٹ لے کر ہم کوسٹر میں بیٹھ گئے۔ کافی گرمی تھی۔ آدھے گھنٹے بعد کوسٹر روانہ ہوئی۔ ہر طرف سر سبزمنظر تھا۔ حالانکہ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔

ملک کے اس حصے کی جانب یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ سب سے زیادہ حیرانی ہمیں ایبٹ آباد کو دیکھ کر ہوئی۔ اس سفر سے پہلے ہمارا یہ تصور تھا کہ پہاڑوں پر صرف ہزارہ برادری کے گھر ہوتے ہیں اور وہ بھی کوئٹہ میں۔  مگر ایبٹ آباد میں نہ صرف بہت سارے گھر پہاڑوں پر دیکھنے کو ملے، بلکہ وہاں کے پہاڑ بہت سرسبز اور خوبصورت بھی تھے۔ ہم نے سوچا اگر مری  کے پہاڑوں کو سبز رنگ کیا جائے تو ایبٹ آباد کا چھوٹا بھائی کہلائے گا۔

مگر پھر یہ خوشی دھیمی پڑ گئی۔  کیا دیکھتے ہیں کہ کوئٹہ کی طرح یہاں بھی ہر جگہ وردی والے کی عمارتیں اور وردی کے لوگ جلوہ افروز ہیں ۔ ہم افسردہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر آگے چلے تو دیوار پر یہ جملہ پڑھ کر  بے اختیار مسکرا دیے۔۔

“یہاں کتے کا بچہ پیشاب کرتا ہے”

تقریباً 3 بجے مانسہرہ پہنچے۔ مانسہرہ میں ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ موسم تو کافی خوشگوار تھا، مگر شاید مسلسل سفر کرنے کی وجہ سے  سر میں درد بڑھتاجا رہا تھا۔  50 کا ٹکٹ لیا اور وادی کاغان جانے والی کوسٹر میں بیٹھ گئے۔ کوسٹر  میں ابھی کافی جگہ خالی تھی۔  خیال آیا کہ کیا پتہ کہ وادی کاغان میں سامانِ خوردو نوش موجود ہوگا کہ نہیں۔

ہم اترے اور ایک دکان پر گئے۔   کچھ سامان لیا اور پوچھنے لگے کہ کیا وادیِ کاغان میں وسائلِ خورد و نوش ملتے ہیں کہ نہیں۔ دکاندار مسکرا کر کہنے لگا “ہاں بھائی۔ وہاں بھی ملتے ہیں۔ مگر ذرا مہنگے داموں۔”

خیر ہم واپس آگئے۔ کوسٹر اب بھی خالی پڑی  تھی، اس لیے ہم باہر ایک تھڑے پربیٹھ گئے اور آس پاس دیکھنے لگے۔

ایک جانب دو نو عمر مگر خستہ حال لڑکیاں ایک ڈرائیور سے باتیں کر رہی تھیں۔ ڈرائیور 50 کا نوٹ آگے کرتا اور جب ان لڑکیوں میں سے ایک ہاتھ بڑھاتی تو ڈرائیور اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیتا۔ پھر تینوں مل کر ہنستے۔

دوسری جانب ایک عمر رسیدہ شخص اپنے ٹھیلے کے ساتھ کھڑا انگور بیچ رہا تھا۔ اس کے بائیں جانب ایک  بچہ کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک شکستہ کھلونا تھا۔ لڑکا بڑی عقیدت سے اس کھلونے کو دیکھ رہا تھا۔ پھر عمر رسیدہ شخص نے بچے کو کچھ کہا اور خود تھوڑی دور جا کر دیوار کے ساتھ لیٹ گیا۔   بچہ ٹھیلے کے اور نزدیک ہو گیا اور دوبارہ کھلونے کے ساتھ کھیلنے لگا۔ اس دوران ایک گاہک آیا اور بچے سے انگور کا دام پوچھنے لگا۔ بچہ کھلونا نیچے رکھ کر اس انداز سے دکانداری کرنے لگا جیسے وہ بچہ نہیں بلکہ ایک جوان اور سیانا لڑکا ہو۔ گاہک کچھ خریدے بغیر واپس چلا گیا۔ لڑکا دوبارہ کھلونا اٹھا کر کھیلنے میں مشغول ہو گیا۔

کچھ دیر چہل قدمی کے بعد ہم دوبارہ کوسٹر میں آ بیٹھے۔ مسافروں میں آگے ایک بابا جی بیٹھے تھے جو زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ ہم نے ہیڈفون لگایا اور دوبارہ  گھسی پٹی موسیقی سننے لگے۔ تقریباَ 2 گھنٹے گزر نے کے باوجود مسافروں کی تعداد پوری نہیں ہو رہی تھی۔ ہم نے ڈرائیور سے بات کی تو اس نے کہا کہ کم مسافر لے  جانے سے اس کا نقصان ہوگا۔ ہم پھر انتظار میں بیٹھے رہے۔ ایک گھنٹہ اور گزر گیا ۔

تنگ آکر ہم نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کتنے بندے کم ہیں تو اس نے جواب دیا  ،چار۔ مسافروں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ اگر ہر بندہ 10 روپے زیادہ دے تو کوسٹر کا کرایہ پورا ہوجائے گا۔ مسافروں سے مشاورت کے بعد سب راضی ہوگئے مگر وہ بابا جی جو زور زور سے مسلسل ساتھ بیٹھے شخص سے باتیں کر رہا تھا انکار کرنے لگا۔

بابا جی بولے  “خدا قسم ہم ولله اگر ایک روپیہ دیوے” مسافروں نے بابا جی کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اس بات پر بضد تھے کہ “کوسٹر والے کبھی اپنا ایک روپیہ بھی کم نہیں کرتے تو ہم اس بار زیادہ پیسہ کیوں دیوے؟” زیادہ سمجھانے پر بابا جی نے آخر کہا، “بھئی ہمارا گھر مانسہرہ میں بھی ہے، اگر گاڑی نہیں چلتا تو ہم آج ادھر سوئے گا” یہ سنتے ہی ہمیں غصہ آیا اور ہم نے کہا “بابا جی آپ کا گھر ہے، دوسروں کا نہیں ، آپ دوسروں کے بارے میں بھی سوچیں”۔ اس پر عجیب شور و غل ہونے لگا۔ ہر کوئی بول رہا تھا۔ بڑی منت سماجت کے بعد بابا جی نے آخر کار پیسہ دے دیا اور یوں کوسٹر روانہ ہو ئی ۔

روانہ ہوتے  ہی ہمیں محسوس ہوا کہ بارش ہونے والی ہے۔ بادل گرجنے کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔ ہوا بھی کافی تیزی ہوگئی تھی۔ مگر راستہ اتنا خوبصورت تھا کہ نظریں ہٹانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ شب کی تاریکی پھیلنے کے ساتھ بادل  کےگرجنے کی آوازیں کسی آرام بخش موسیقی سے کم نہیں تھیں۔ میں مسلسل ہیڈ فون لگائے پیانو اور بادل گرجنے کی اس اختلاط کو سن رہا تھا۔

کچھ دیر بعد ہمیں محسوس ہوا کہ کوسٹر میں کچھ لوگ بلند آواز میں باتیں کر رہے ہیں۔ ہیڈ فون نکالا تو وہی بابا جی ،جو کچھ دیر پہلے پیسوں پر بحث کر رہے تھے، اب  ڈرائیور کی سرزنش کر رہے تھے کہ وہ گاڑی چلاتے وقت فون پہ مسلسل بات کیوں کر رہا ہے۔ بابا جی زور زور سے ہاتھ ہلا ہلا کر بات کر رہے تھے جبکہ ڈرائیور بس ہنس رہا تھا۔

CIMG4751

پھر دیکھتے ہی دیکھتے بارش ہونے لگی۔ یہ دیکھ کرڈرائیور نے کوسٹر روکی  تاکہ چھت پر رکھا سامان نیچے لایا جا سکے۔ سب اپنا اپنا سامان اندر رکھنے لگے۔ ہمارا بستہ بھی ہمارے حوالے کر دیا گیا۔ کچھ گھنٹوں کی مسافت کے بعد کھانے کے لیے ایک سنسان ریسٹورنٹ پر روکا گیا جو بظاہر کوئی گھر لگ رہا تھا ۔ جیسے ہی ہم باہر آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بابا جی پھر زور زور سے بات کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے”ہم اس حرام خور کو قتل کر دے گا۔  سارا رستہ چرس پی کر گاڑی چلاتا رہا۔”

باقی مسافر حضرات، بابا جی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جبکہ ڈرائیور پہلےکی طرح مسکرا رہا تھا جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سب ہوٹل میں کھانے  کے لیے داخل ہوئے۔ ہمیں بھوک نہیں لگ رہی تھی۔ ہوٹل کے سامنے سڑک کی دوسری جانب ایک دکان تھی۔ دکان کیا، ٹھیلہ لگ رہا تھا۔ ہم وہاں گئے۔

جوان سا لڑکا تھا۔ ہم نے 4 عدد ٹماٹر لیے اور جوان لڑکے کو آدھا کلو گھی اور 3 انڈے دینے کو کہا۔ جب وہ انڈے اور گھی دینے لگا تو ہم نے پوچھا “وادیِ کاغان تک کتنے گھنٹے کا رستہ باقی ہے”۔ اس نے کہا بس دو گھنٹے۔ پھر ہم نے دوسرا سوال کیا کہ کیا وہاں سامان خورد و نوش میسر ہے؟ تو وہ مسکرا کر کہنے لگا کہ ہاں۔ بالکل ہے۔ ہمارا جی چاہ رہا تھا کہ خریدا ہوا سامان واپس کر دیں۔ مگر “نفس ِخوب” نے ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ جبکہ “نفس ِبد” ہمیشہ کی طرح ہمیں بھڑکانے کی بے جا کوشش کرتا رہا۔

جب سب کھانا کھا کر باہر نکلے  تو بابا جی ہماری طرف آئے اور کہنے لگے “یہ گدھے کا بچہ آج رات ہمیں خاک  میں ملا دے گا “۔ ہم نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔

دعائیں کر کر کے بل آخر ہم منزل مقصود پر پہنچ ہی گئے۔

تاریکی میں ہماری آنکھیں کمزوری کا اظہار کرتی  ہیں۔ اس لیے ہمیں زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہمیں اپنا حسن بھی بہت عزیز ہے اس لیے ہم عینک کے استعمال سے گریز کرتے ہیں ۔ ہمارا یہ گمان ہےکہ کہیں ایسا نا ہو کہ کوئی دل نشین ہمارے عشق کے جال میں پھنس جائے مگر پھر ہماری عینک کو دیکھ کر اپنے دل کا فیصلہ رد کر دے ۔ دل بھی کیا کمبخت چیز ہے۔

سارے مسافرکوسٹر سے اترے ۔ اترتے ہی ہمیں محسوس ہوا کہ سڑک احمد فرازصاحب کی سی تھی۔ یعنی رخ بلندی کی جانب۔ کچھ دیر میں ہمیں محسوس ہوا کہ بجلی چلی گئی ہے کیونکہ ہر جگہ سے جنریٹر کی دل خراش آوازیں آرہی تھیں۔ بارش زور و شور سے تشویق میں مگن تھی۔  وہ فرنگی لوگ کہتے ہیں ناں  کہIt was raining cat and dogs

یعنی بلی اور کتوں والی بارش۔

خیر،سب نے اپنا سامان اٹھایا اور اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہم ابھی آسمان و زمین پر غور کر ہی رہے تھے کہ اچانک بابا جی کہنے لگے “کوئی جگہ نہیں ۔ ۔ ۔  تو ہمارے ساتھ آجاؤ”

ہم نے بابا جی کا بہت شکریہ ادا کیا۔

“خدا آپ کو سلامت رکھے۔ آپ نے پوچھ لیا، بس ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ مہمان نوازی کا شکریہ۔”

بابا جی کہنے لگے “نہیں نہیں، ہمارا ادھر ہوٹل ہے بچہ، ہم کرایہ لیتا ہے۔ ہم پوچھ رہا ہے اگر جگہ نہیں ہے تو ہم تم کو اپنا ہوٹل دکھاوے”

تب بات سمجھ میں آئی۔

ہم نے سوچا  بابا جی اصول کے پکے نظر آتے ہیں۔ اور جگہ دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ پسند نہیں آیا تو ہم نہ  کر دیں گے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے ۔ جگہ دکھا دیں۔

بابا جی نے اشارہ کیا اور ہم ان کا پیچھا کرنے لگے۔

بابا جی ہمیں ایک تاریک اور تنگ گلی میں لے گئے۔ راستے میں ہم نے پوچھا “بابا جی اتنا بتا دیں کہ کرایہ کتنا ہے؟” بابا جی نے کہا “بچہ، پہلے جگہ تو دیکھ لو۔ تم کو نوبت والا کمرہ دکھائے گا۔”

گلی کے اندر  جاتے ہی ہمیں ایک بہت بڑی عمارت نظر آئی۔ عمارت کی دیواروں پر خوبصورت ٹائلز لگے ہوئے تھے۔ باہر سے ہر کمرے پر نصب کی ہوئی ایک جیسی کھڑکیاں نظر آرہی تھیں جو کہ بہت صاف ستھری اور کشادہ تھیں۔ ہم نے سوچا جگہ تو بہت اچھی ہے مگر پتا نہیں کرایہ کتنا ہوگا۔ اس عمارت کے قریب جاتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ بابا جی کمر کی لچک دکھا کر عمارت کو چھوڑ کر دوسری جانب داخل ہوگئے۔

ہم آگے چلے اور ایک دوسری گلی میں داخل ہوئے۔ اندر ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ عمارت کے اندر گئے تو ہمیں پتا لگا کہ عمارت میں مرمت کا کام باقی ہے۔ راستے  میں شکستہ بوتلیں، اینٹیں، ہتھوڑے، ٹوٹی پھوٹی ٹائلیں، اور سیمنٹ کی تھیلیاں پڑی تھیں۔  بابا جی پہلی منزل کی جانب گئے جو عمارت کی آخری منزل بھی تھی۔ بابا جی نے الٹے ہاتھ پرپہلےکمرے کا دروازہ کھولا اور ہم اندر گئے۔

کمرہ چھوٹا تھا۔ ایک بستر، ایک چھوٹی سی میز، جس پر ایک پانی کی بوتل اور ایک گلاس نجانے کب سے رکھا ہوا تھا، فرش پر کچھ اخبار کے صفحے جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کسی نے ان صفحات سے اپنے ہاتھ صاف کیے ہوں گے۔ ایک دروازہ  غسل خانے میں جا کھلتا تھا۔  ہمیں کمرہ صحیح لگا۔ ویسے بھی ہم کون سا عیش کرنے آئے تھے؟ ہم تو آئے تھے غم اٹھانے ، دربدر ہونے، جستجو کرنے ۔ بقول جون؛

اے شخص میں تیری جستجو سے

بے زار نہیں ہوں، تھک گیا ہوں

ہم نے دیکھا جگہ صاف ستھری ہے۔ بابا جی بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ “نوبت والا کمرہ دکھایا ہے تم کو”۔ ہمیں بات سمجھ نہیں آئی مگر ہم خوش ہوئے۔ کوئی جدید ماڈل کا کمرہ ہوگا۔

پھر بابا جی کہنے لگے “ہمارے پاس گرم پانی موجود نہیں ہے ہم پہلے سے بتاوے”۔ ہماری خوشی دھیمی پڑھ گئی۔ ہماری اماں جنہیں ہم “مانی” پکارتے ہیں ہمیں بچپن سے کہتی چلی آرہی ہیں کہ ہم “بز مانند” ہیں۔ یعنی ہمیں سردی جلدی لگتی ہے۔

ہم اپنی انگلیاں آپس میں مسلنے(ملنے) لگےاور بابا جی سے پوچھا بابا جی کتنا؟ بابا جی نے کہا “دیکھو، تم ایسا موسم میں آیا ہے جو کوئی نہیں آتا۔  بالکل کم ہے، اور تم آئے بھی ہو اکیلے، دیکھ رہے ہو یہ کمرہ 2 لوگوں کے لیے ہے۔”

ہم نے سر کھجا  کر سوچا، “لے بھائی، ایسی تمہید باندھنے کے بعد ایسا نرخ بتائیں گے کہ ہم پانی مانگے بغیر ہی بھاگ جائیں گے”۔ مگر بابا جی نے کہا “400 روپے ”۔ ہم سوچ میں پڑھ گئے۔ جہاں تک ہمیں یاد آرہا تھا، مراد علی نے کہا تھا کہ کم سے کم 2 ہزار اور 1500 میں ایک کمرہ کرائے  پر دیتے ہیں۔ پھر یہ کیا ماجرا ہے؟ ہمیں سوچ میں دیکھ کر بابا جی  نے دوبارہ دہرایا “بچہ ، یہ نوبت والا کمرہ ہے”۔ یہ سنتے ہی ہم نے فورا ً کہا ٹھیک ہے ۔ بابا جی چلے گئے۔

ہم نے دوبارہ کمرے کا خوب جائزہ لیا۔ ٹھیک لگ رہا تھا۔ کمرے میں صرف ایک کھڑکی تھی وہ بھی عمارت کے اندر ہی کھلتی تھی۔ پھر ہم نے سب سے اہم جگہ کا جائزہ لیا۔ جی ہاں،غسل خانہ۔ صاف لگ رہا تھا۔ نل کا پانی کھولا تو پانی برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔  پاس ہی ایک استعمال شدہ صابن بھی نظر آیا۔ جبکہ ایک عدد بالٹی اور لوٹہ بھی رکھا ہوا تھا۔

ہم واپس کمرے میں آئے۔ بستہ کمرے کے ایک کھونے میں پھینکا اور بستر پر گر گئے۔ سر میں درد کی شدت ابھی بھی موجود تھی۔ شاید پہلے سے بھی زیادہ۔ بارش کی آواز اپنے زوروں پر تھی۔ کپڑے بدل کر  اور پاؤں وغیرہ دھو کر  بستر پر لیٹ گئے اور پلکوں کو وصال بخشا۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

(تشکر زیاد از حسن رضا چنگیزی صاحب)

Facebook Comments

علی زیدی
علی زیدی تھرڈ ڈویژنر ہیں اور بد قسمتی سے اکاؤنٹنگ کے طالبعلم ہیں۔ افسانہ، غزل اور نظم بھی لکھتے رہتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kafandooz@