علی رضا عابدی ۔۔۔۔عرفان صادق

رات سونے سے پہلے حسبِ سابق موبائل کو آخری دفعہ دیکھنا چاہا تو واٹسایپ پر پیغامات کی بھرمار نے تشویش میں مبتلا کر دیا۔۔ کیونکہ واٹسایپ پر عموم سے ہٹ کر زیادہ پیغامات تب ہی آتے ہیں جب کوئی ان ہونا واقعہ رونما ہوا ہو۔ بہرحال ہر دوست کی جانب سے ایک ہی خبر کا اعادہ تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما علی رضا عابدی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے اور ان کو جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ابھی چند لمحات ہی گزرے تھے کہ تمام اطراف سے علی رضا عابدی کے جاں بحق ہونے کی خبریں موصول ہونے لگیں اور ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس بھی آ گئیں جن کے مطابق علی رضا عابدی کو ان کے گھر کے سامنے ہی گاڑی سے اترتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے سر اور گردن میں بالترتیب دو ، دو گولیاں لگی ہیں
قتل کی بابت اب مزید تحقیقات ہونگی اور قاتلوں تک رسائی کیلئے ممکن حربے آزمائے جائیں گے اور قوی امید ہے کہ قاتل پکڑے بھی جائیں گے لیکن فائدہ ندارد کیونکہ انسان کیلئے دنیا میں قیمتی ترین چیز اس کی جان ہے اور یہی جان ہے تو جہان ہے اور جب جان ہی باقی نہ رہے تو قاتلوں کا پکڑا جانا اور ان کو سزا ہو جانا مقتول کیلئے اس دنیائے فانی میں کسی طور سود مند نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ رسمِ دین و دنیا بھی نبھانا ایک فرض و قرض ہے۔
سید اخلاق حسین کے گھر 6 جولائی 1972 کو پیدا ہونے والے علی رضا عابدی نے شروع کی تعلیم اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز متحدہ قومی موومنٹ سے کیا تھا اور 2013 کے عام انتخابات میں یہ پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے ممبر کے طور پہ NA-251 سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار راجہ اظہر خان کو 81603 ووٹوں سے شکست دے کر منتخب ہوئے۔
متحدہ قومی موومنٹ میں ان کی شمولیت 1988 کے دور کی کہانی ہے جب یہ SM کامرس کالج کے طالب علم تھے۔ لیکن جب انہوں نے دورانِ آپریشن اپنے ساتھیوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ دیکھا تو اپنے آپ کو سیاست سے الگ کر لیا اور امریکہ چلے گئے اور وہاں بوسٹن یونیورسٹی میں سائنس اور مینیجمنٹ کو پڑھنا شروع کر دیا۔ دوران تعلیم بھی بقول ان کے وہ ملکی حالات سے باخبر رہے اور پھر 1998 میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ وہ پاکستان آکر اپنے کاروبار سنوارنے کی خاطر مصروف ہو گئے۔ پہلے پہل تو ایک آئسکریم کی کمپنی کے ساتھ بطور ڈسٹریبیوٹر منسلک ہوئے اور پھر سمندری خوراک کے اپنے خاندانی کاروبار میں آگئے اور اپنا ایک ہوٹل
Biryani Of The Seas (BOTS)
کے نام سے بنا لیا جو انتہائی کامیاب تجربہ رہا اور جلد ہی نہ صرف ایک قابلِ اعتبار برینڈ بلکہ علی رضا عابدی کی پہچان بن گیا۔ایم کیو ایم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ علی رضا عابدی نے اپنے ہوٹل کا جو لینڈ لائن نمبر خریدا تھا اس میں بھی 9090 آتا تھا۔انہی دنوں علی رضا عابدی کے والد سید اخلاق حسین عابدی ایم کیو ایم کی جانب سے NA 150 کے ممبر قومی اسمبلی بھی رہے۔پھر 2008 میں علی رضا عابدی نے دورانِ طالب علمی چھوڑی ہوئی سیاست میں دوبارہ حصہ لیا اور ایم کیو ایم کی ایک ذیلی تنظیم
Professionals Research and Advisory Council (PRAC)
بنائی جس کا کام ان تمام پروفیشنلز کو اکٹھا کرنا تھا جو لوگ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ممبرز رھے تھے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر چھوڑ کر بکھر گئے تھے۔ پھر جب سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا اور فورتھ اور ففتھ جنریشن وارفیئر کا آغاز ہوا اور سوشل میڈیا نے اپنے وجود کا لوہا منوانا شروع کیا تو پارٹی کی جانب سے علی رضا عابدی کے ذمے سوشل میڈیا کا ٹاسک دیا گیا جس کیلئے انہوں نے پارٹی کے نوجوانوں کی سوشل میڈیا ٹیمز بنائیں اور ان کو سوشل میڈیا ایکٹیوزم کیلئے تیار کیا۔پھر جب 2013 میں علی رضا عابدی نے اپنی الیکشن کیمپین کا آغاز کیا تو محمود آباد سیکٹر کے پارٹی عہدیدار کو فیصل کو قتل کر دیا گیا علی رضا عابدی نے بیان جاری کیا کہ ایک شیعہ ہونے اور ایم کیو ایم کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں دوہرے خطرات میں گھرا ہوا ہوں۔ اگرچہ میں نے دو سیکورٹی گارڈز ساتھ رکھے ہوئے ہیں لیکن میں نے خود کوئی ہتھیار اپنے پاس نہیں رکھا ہوا۔اگرچہ ابھی تک وہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ ہی منسلک تھے اور انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان صاحب کے خلاف الیکشن لڑا تھا جو کہ وہ ہار گئے تھے اور اب پھر ضمنی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے لیکن ان کی بابت یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ وہ جلد ہی پاکستان پیپلز پارٹی کو جوائن کر لیں گے۔ حتی کہ ان کی وفات کے فورا بعد ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید گیلانی کی طرف سے ٹوئٹ میں یہ دعوی کیا گیا کہ علی رضا عابدی سے ہماری بہت سی ملاقاتیں ہو چکی تھیں جن کو ہم منظر عام پر نہیں لائے تھے بہر حال وہ جلد ہی پاکستان پیپلز پارٹی کو جوائن کرنے والے تھے۔
یہ دعوی بھی اپنی حیثیت میں بڑا وزن رکھتا ہے۔ بہرحال ایسے حالات میں علی رضا عابدی صاحب کا قتل ہو جانا بہت سے سوالات پیدا کر گیا ہےجن کا جواب آئندہ دنوں میں آنیوالی رپورٹس ہی دیں گے لیکن کراچی کے ایک نامور شخص کا قتل کراچی کے امن کو برباد کرنے کی ایک سازش معلوم ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قاتلوں کو جلد از جلد پکڑ کر ان کے سرغنوں سمیت کٹہرے میں لایا جائے۔.۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply