بچوں سے زیادتی ثقافت کا حصہ نہیں ۔۔۔۔۔۔محمود چوہدری

برطانیہ کے شہر راچڈیل میں کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیس میں ایک پورے گینگ کو پکڑا گیا ۔

گینگ میں شامل نو مجرموں میں سے آٹھ پاکستانی نژاد ہیں ۔ گینگ نے گزشتہ کئی سال کے دوران پینتالیس بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا ان کی برطانوی شہریت ختم کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے کی بحث جاری ہے تو برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے بیان دیا ہے کہ گینگ کی صورت میں بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے کا پاکستانی ہونے کی وجہ ثقافتی ہو سکتی ہے۔

آپ کو یہ بیان برا لگا ہے نا ؟

مجھے بھی بہت برا لگا ہے میرا خیال ہے کہ ان مجرموں کو بے رحم اور سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہیے لیکن کسی بھی جرم کو پاکستانی ثقافت کا حصہ بنانا افسوسناک ہے کیونکہ ہماری پاکستانی ثقافت تو وہ ہے جہاں ہم اپنے سے چھوٹوں کو شفقت سے بیٹا کہتے ہیں بیٹیوں کے بارے میں ہمارا کہنا ہے سب کی سانجھی ہوتی ہیں، پڑوسی کی بچیوں کو ہم بہنیں کہتے ہیں ۔ چھوٹے بچے ہمیں ہمارے نام سے نہیں بلکہ چچا ماموں کہہ کر مخاطب کرتے ہیں پنجاب میں آج تک تایا کو بڑے ابو اور خالہ کو ماسی ( ماں جیسی) کہتے ہیں ۔ یہ ہمارے کلچر کی خوبصورتی ہے کہ ہم ہر کسی سے کوئی نہ کوئی رشتہ جوڑ کر ہی بات کرتے ہیں

اس لئے اگر کوئی ہماری ثقافت کو گالی دی تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اسے اپنی اصلی ثقافت سے آگاہ کریں۔۔۔

لیکن ٹھہرئیے۔۔

اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ ہم اپنے گھر کا گند صاف کرنے کی کوشش بالکل نہ کریں اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کا بھی دفاع کریں اور گند کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کریں۔ قصور میں زینب کا کیس سامنے آیا تو ہمارے کچھ گرفتار دانشوروں نے پردہ ڈالتے ہوئے اس کے ڈانڈے ڈارک ویب سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔

کچھ پرجوش مجاہدین کا خیال تھا کہ اگر مجرم کو فوری پکڑ کر سزائے موت دے دی جائے تو یہ جرم ختم ہوجائے گا سابقہ حکومت نے مجرم پکڑا ، اسے سزائے موت بھی دلوا دی لیکن یہ کیا ؟

وہ واقعات تو نہیں رکے ۔ اسی ہفتے ایبٹ آباد میں ایک تین سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا لیکن اب میڈیا شور کیوں نہیں مچا رہا اب نوجوان پرجوش شاعر مذمتی نظمیں کیوں نہیں لکھ رہے اب حکومت پر زور کیوں نہیں دیا جا رہا۔

حکومتیں اگر کچھ نہیں کرتیں ، کوئی پالیسی نہیں بناتیں تو میرا سوال ہے کہ مملکت خداداد میں موجود نوجوانوں کی اصلاحی و فلاحی رضاکارانہ تنظیمات کوئی پالیسی کیوں نہیں بناتیں وہ خود اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو کیوں نہیں باہر نکالتے یہ ملک ہم سب کا سانجھا ہے اس کو سب ملکر کیوں ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ لکھاری دانشور مذہبی راہنما قومی و سیاسی لیڈر قوم کی تربیت کیوں نہیں کرتے اگر اسی طرح کے واقعات ہوتے رہے تو ہم اپنے چاچا ماما ماسی والا کلچر دنیا کوُکبھی روشناس نہیں کر اسکیں گے

Advertisements
julia rana solicitors london

خدارا سمجھئے کوئی حکومت لاڈلی نہیں ہوتی ۔ ایسے واقعات پر خاموش رہنا جرم ہے ۔ بولئیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اگر کسی بھی حکومت میں ننھے معصوم بچے محفوظ نہیں ہیں تو وہ ریاست نہیں بلکہ جنگل سے بھی بھیانک جگہ ہے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply