فلم ریویو:طیفا اِن ٹربل ۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

طیفا اِن ٹربل فلم جو کہ ٹورنٹ پر آ چکی ہے۔ دیکھی اور اس میں علی ظفر کی ایکٹنگ تو کمال ہے۔ لیکن فلم میں کچھ بھونڈی حرکتیں کی گئی ہیں۔ ہدایتکار بہت کچھ کرنے کی کوشش میں الجھے الجھے نظر آئے اور بہت سی سطحی غلطیاں کی گئی ہیں۔ فلم کا سارا کام علی ظفر، دانیال ظفر اور احسن رحیم ہی کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ فلم کی کہانی سے گانے کے بول تک،  گانے کی دھنوں سے گانے تک، فوٹوگرافی سے لے کر ہدایتکاری، فلم پروڈیوس کرنے سے ایڈیٹنگ تک سب کام ان تین لوگوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔

فلم کی موسیقی دل موہ لینے والی ہے۔ جو دل کو بھلی بھلی لگتی ہے۔ لیکن حیران ہونے والی بات ایک گانے کے علاوہ باقی گانے سامعین کے دل میں وہ جگہ کیوں نہ پا سکے “جو آیٹم نمبر نہیں کروں گی “کو ملی ہے۔

فلم کی کہانی یہ ہے گوجرانوالہ کی ایک بٹ فیملی جو اندرونِ لاہور رہتی ہے۔ جو پیسے کے لیے کوئی بھی کام کرسکتی ہے۔ اور ان کاموں کو کروانے کے لیے مختلف لوگ پال رکھے ہیں۔ جن میں سب سے سرِفہرست اُن کا بچپن سے پالا ہوا، لاہوری لڑکا طیفا (علی ظفر) ہے۔ جس کا باپ بچپن میں ہی مر جاتا ہے، ماں بیٹے کے لیے عزت کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑ کر گیا ہوتا۔ طیفا اپنی اور اپنی ماں کی ہر خواہش پوری کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے وہ بٹ صاحب کے کاموں میں اُن کا ساتھ دینے لگ جاتا ہے۔ بٹ صاحب کا جو بھی کام کہیں  پھنستا ہے وہ طیفے( علی ظفر) کو اُس کام کو سرانجام دینے کے لیے بھیجتے ہیں، اور وہ کبھی اُن کاموں کو کرنے میں ناکام نہیں ہوا۔ بٹ صاحب کا ایک دوست بشیر (جاوید شیخ ) جو کافی عرصہ پہلے پولینڈ آ کر کامیاب بزنس مین(بونزو)  بن  چکا ہوتا ہے۔بونزو کی ایک بیٹی ہے انایا ( مایا علی) جو کہ  ایک باغی لڑکی کے روپ میں فلم میں پیش کی گئی ہے۔ جو موٹرسائیکل چلاتی ہے، کلب جاتی ہے، کسی بھی تنگ کرنے والے کا سر پھوڑ دیتی ہے۔ بشیر اور بٹ نے کافی عرصہ قبل دوستی کو رشتہ داری میں بدلنے کا اعادہ کیا ہوتا ہے۔ لیکن بشیر( جاوید شیخ) اپنے بزنس کو بلندیوں پر لے جانے کے لالچ میں بٹ صاحب کے بیٹے بلو بٹ سے اپنی بیٹی انایا( مایا علی) کا رشتہ توڑ کر کہیں  اور طے کر دیتا ہے۔ بٹ صاحب کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے۔ وہ طیفے ( علی ظفر) کو بشیر کی بیٹی انایا کو اغوا کرکے پاکستان لے کر آنے کے لیے پولینڈ بھیج دیتے ہیں۔ جہاں ٹونی ڈاٹ شاہ( فیصل قریشی) طیفے کی مدد کرتا ہے۔ { ٹونی ڈاٹ شاہ( فیصل قریشی)  کی کارکردگی بہت شاندار رہی اور اپنے اچھوتے انداز میں دیکھنے والوں کو بہت بھلی لگی ہے}- انایا( مایا علی) شادی کے لیے مان تو جاتی ہے لیکن شادی کے دن گھر سے بھاگنے کا ارادہ کر چکی ہوتی ہے۔ وہی بشیر کے گھر میں علی ظفر بھی اُسے اغواء  کرنے پہنچ جاتا ہے۔علی ظفر اغواء  کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہےیا یہ کہا جاسکتا ہے مایا علی بھاگنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ فلم کی باقی  ساری کہانی ان دونوں کے بشیر کے لوگوں سے چھپنے اور خیر و عافیت سے پاکستان پہنچنے میں گزرتی ہے۔ طیفا اسے پاکستان لے کر جانے کی کوشش میں ہوتا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن اس بھاگنے اور چھپنے کے بیچ دونوں کو پیار ہو جاتا ہے-  علی ظفر پاکستان جا کر اسے بٹ صاحب کے حوالے کر دیتا ہے۔ بٹ صاحب اُس کی شادی اپنے بیٹے سے طے کر دیتے ہیں۔ جہاں طیفا پھر اسے شادی کے دن بھگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پھر آخر پر کچھ لڑائی ہوتی ہے اور علی ظفر کی مایا علی سے شادی ہو جاتی ہے اور سب خوشی خوشی رہنا شروع کر دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

فلم کے آغاز میں طیفا لڑائی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ لڑائی تامل، ہالی وڈ اور جاپانی فلموں سے اٹھا کر نہ جانے کچھ علیحدہ ہی کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ پاکستانی فلموں کے لحاظ سے بہت ہی غیر معیاری اور حقیقت سے دور نظر آتی ہے۔ فلم میں پنجابی کلچر دکھانے کی بھی کوشش کی گئی جس کو بھرپور طریقے سے خراب کیا گیا۔ مجھے بتایا جائے پنجاب کے کس گھر میں ایسا ہوتا ہے کہ ساگ ایک نہایت ہی چھوٹی سی مٹی کی دیگچی میں پکایا جاتا ہے۔ انہیں کوئی بتائے “ساگ پکتا ہے تو پوری آن شان کے ساتھ بڑے دیگچے میں چولہے پر چڑھایا جاتا ہے” کہانی میں کوئی پیچ و خم نہیں ہیں بالکل سیدھی سادی کہانی ہے۔فلم کی کہانی رشتہ  ٹوٹنے کے بعد عام دیکھنے والا آسانی سے predict کرسکتا ہے اور بتا سکتا ہے کہ آگے کیاہونے والا ہے۔ علی ظفر، مایا علی کو پولینڈ سے لینے جائے گا دونوں  میں پیار ہو جائے گا۔ علی ظفر اسے پاکستان بھی لے آئے گا پھر وہاں سے آگے کچھ کرے گا، اور سب ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیں گے۔ ساری کہانی ایسی ہے۔ فلم میں کوئی ایک بھی کام کا ڈائیلاگ نہیں ہے۔ شاید کوئی ڈائیلاگ ڈالا ہی نہیں گیا۔ فلم بہت سی فلموں سے انسپائر ( کاپی میں نہیں کہوں گا) ہو کر بنائی گئی ہے۔فلم کی لوکیشن اچھی ہے، visual  effect نہایت شاندار ہے،  مایا علی جو پہلے سین میں ایک باغی بنائی گئی ہے اس کا کریکٹر پھر بالکل ہی بدل دیا گیا۔ جو علی ظفر کے اشاروں پر سب کچھ کرتی چلی جاتی ہے۔ فلم کے آخری حصے میں مایا علی من مائل والی ایکٹنگ کرتی ہوئی نظر آئی ہیں۔ وہ ایکٹنگ ڈالنے کا واحد مقصد شاید من مائل والی پبلیسٹی گھیرنا ہو۔ پہلا گانا وہاں آتا ہے جہاں گانے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا۔ سین کچھ اور ہے وہاں” آئٹیم نمبر نہیں کروں گی گانا آ جاتا ہے”۔ ہدایتکار کو اب سمجھنا چاہیے، لڑکی کو سردی لگنا اور لڑکے کا اسے اپنی جیکٹ دینے والا سین بہت پرانا ہو چکا ہے۔ فلم بہت ساری فلموں کو ملا کر ایک منجن پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply