• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سوشل میڈیا کے خودساختہ دانشوروں کے نام ۔۔۔ عبد اللہ خان چنگیزی

سوشل میڈیا کے خودساختہ دانشوروں کے نام ۔۔۔ عبد اللہ خان چنگیزی

سوشل میڈیا یا سادہ الفاظ میں سماجی رابطوں کے ذرائع پر آج کل لاتعداد ایسے حضرات کی بھر مار ہے جو خود کو کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کرنے کا اہل سمجھتے ہیں۔

ان کے نزدیک ایسا کوئی مسئلہ ابھی وجود میں آیا ہی نہیں جن کا حل ان کی لکھی ہوئی کتاب میں موجود نہ ہو، خواہ وہ مذہب کی پیچیدگیاں ہوں، سیاست کی ظالم بساط پر کھیلی جانی والی بازیاں ہوں، حساس دفاعی اداروں کی پالیسیوں پر تنقید ہو، صحت کے بنیادی مسائل پر بغیر تحقیق کے حل پیش کرنا ہو، ہر ایک جرم پر آخری حد تک جرح ہو، غریب کی غریبی سے لے کر امیر کی امارات تک پر تنقیدی نشتر چلانے ہوں، پردے جیسے شرعی حکم سے لیکر مغربی تہذیب کی دھجیاں بکھیرنی ہوں، سود کی ممانعت سے عالمی بنکوں تک کی والدہ و ہمشیرہ ایک کرنی ہو، سکولوں کے اساتذہ سے مدرسوں کے علماء کرام تک کی مبینہ جہالت کی اقسام بیان کرنی ہوں، بچوں کی پیدائش سے ان کے بڑھاپے تک سارے نظام زندگی پر مشورے پیش کرنے ہوں، چوکیدار کی بزدلی سے باغ میں کام کرنے والے مالی کی قابلیت پر شک کرنا ہو، ڈرائیور کی غلطی سے ٹریفک حوالدار کی رشوت خوری کے قصے عام کرنے ہوں، کسی کے گھر جھاڑو پونچھا کرنے والی مائی سے اس پر ظلم کرنے والی مالکن کی عزت اچھالنی ہو، بوڑھے باپ کو گھر نکالنے سے جوان بیٹے کی اچانک موت کو عذاب کی شکل میں پیش کرنا ہو، پسند کی شادی پر موت کے گھاٹ اتار دینے والی دوشیزہ سے ساٹھ سال کے بابا کی الہڑ نوعمر بچی کے ساتھ بندھن میں بندھ جانے کی بات ہو، ڈاکیے کی تنخواہ سے وزیر اعظم کی فضول خرچی کے قصے بیان کرنے ہوں، دینی تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم سے آکسفورڈ سے ڈگری لے کر آنے والے بے دین کی چھترول کرنی ہو، عید کے دن غریب کے پرانے کپڑوں سے مالدار کی ریاکاری پر لعن طعن کرنی ہو، فرض نماز میں مسجد کے امام کی لمبی سورت تلاوت کرنے سے سیاستدانوں کی قرآن مجید کی سب سے چھوٹی سورت تلاوت کرنے میں غلطی کرنا ہو، سبزیوں کے فوائد سے عربی معاشرے میں سالم اونٹ بھون کر کھانا ہو، چین کے مال کو دونمبری ثابت کرکے اپنے ملک کی قابل استعمال اشیاء کو کباڑ کے طور پر پیش کرنا ہو، پانی ملے دودھ کو مضر صحت بتا کر پاوڈر والے خشک دودھ کو زہر سے تشبیہ دینا ہو، قصائی کی دکان پر بکنے والے ہفتوں پرانے گوشت سے تازہ برائیلر مرغی کو قاتلِ صحت قرار دینا ہو، چھوٹے بچے کے رخنوں کی سوزش کو ڈائیپر کی غیر معیاری کوالٹی کا بتا کر دیہاتوں میں بچوں کے لئے استعمال ہونے والے کپڑوں کو جہالت سے تعبیر دینا ہو، قدرتی پانی میں پائے جانے والے نمکیات کی کمی سے فلٹرڈ پانی کو زیادہ قیمت پر بیچنے والوں پر لعنت بھیجنا ہو، فیس بک پر کسی کی عزت اچھالنے سے مولویوں کے فتووں کو غیر اسلامی و شرعی بنانا ہو، ہسپتال میں نرس کے ساتھ زیادتی ہونے سے مرد ڈاکٹر کے ڈیلوری آپریشن کرنے پر لوگوں کو سیخ پا کرنا ہو، دوسروں کی خوش بختی کو لے کر اس کو کسی کا ٹٹو ثابت کرنا ہو، معاشرے میں اچھے کاموں کو سرانجام دینے والے کو ریا کاری کی سند پیش کرنا ہو، برے کام کرنے والوں کو اچھائی کی ترغیب دلانے کے لئے وعظ و نصیحت کے انبار لگانے ہوں، خود اپنے آپ کو شہنشاہِ قلم سمجھ کر دوسروں کے جذبات کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا ہو، سچ سے منہ موڑ کر جھوٹ کی بنیادوں کو کھوکھلا ثابت کرنا ہو، بغیر تحقیق کسی پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کرنے سے ناحق کسی کے قتل پر افسوس در افسوس کرنا ہو۔ 

بھلا ایسی دانشوری کا کیا فائدہ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میری اس مختصر تحریر کو ایک دانشور کی تحریر سمجھ کر پڑھنے کے بعد اس پر تنقیدی نشتر چلانے والوں سے پیشگی گزارش ہے کہ میں کوئی دانشور تو ہوں نہیں۔ پس آپ بھی ایسے دانشور بننے کی کوشش نہ کریں جن کے پاس نہ کوئی دلیل ہو نہ ثبوت۔ اتنی التجا ہے کہ مہربانی فرما کر پہلے اپنے گریباں میں جھانک لیں کہ کہیں آپ اس شوق میں کسی کی عزت نفس سے تو نہیں کھیل رہے؟ کہیں آپ کے الفاظ کسی کے جان و مال کو نقصان پہنچانے کے مؤجب تو نہیں بن رہے؟

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply