میرا چاند۔۔۔۔۔۔۔۔مونا شہزاد

میں تیار ہوکر ڈریسنگ روم میں سے نکلا تو کشف کو تیار ہوتے دیکھ کر میرے قدم رک سے گئے ،آج کشف تیار ہوکر بہت حسین لگ رہی تھی ،اس نے سیاہ رنگ کا مکیش سے بھرا جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا، اس کا جوڑا دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے انگنت تارے رات کی گود میں سوئے ہوئے ہوں ۔اس کی دراز سیاہ ذلفیں کھلی ہوئی عجب بہار دکھا رہی تھیں۔اس کے گولڈن جھمکے اس کے عارض کو چوم رہے تھے۔میں اسے ڈریسنگ ٹیبل کے آگے سجتا،سنورتا دیکھ کر ماضی کے سمندر میں ڈوب گیا۔میری آنکھوں کے سامنے چار سال پہلے کی فلم چل پڑی۔

میں نے کشف کو جب پہلی بار بس سٹاپ پر دیکھا تو میں مبہوت رہ گیا تھا ۔ اس کا خوبصورت سراپا کالی چادر میں چھپا ہوا تھا ۔اس نے چادر اس ڈھنگ سے اوڑھی ہوئی تھی کہ اس کا چہرہ بھی چادر سے ڈھکا ہوا تھا،اس کی صرف ایک آنکھ باہر تھی ۔ مجھے نہ جانے کس چیز نے اس کی طرف متوجہ کیا تھا،بس ایک انجانی سی کشش تھی کہ میرا دل اس نازنین کے قدموں میں لوٹ گیا تھا۔
اس کی اداس نظر نے مجھے پہلے دن ہی اپنا اسیر بنا لیا تھا۔میں اس دن صرف اپنی ایڈونچرس طبیعت کے باعث بس پر سفر کررہا تھا، میرا شمار شہر کے چند گنے چنے امیر افراد میں ہوتا تھا، میں سونے کا چمچ منہ میں لے کر اس دنیا میں آیا تھا۔اس روز میں نے گاڑی خراب ہونے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی ٹھانی ،میں نے ڈرائیور کو ہدایت کی کہ وہ گاڑی کو tow کروا کر قریبی گیراج میں لے جانے اور کسی اچھے مکینک سے مرمت کروائے۔میں نے لوکل بس پکڑی ،میں بس میں بیٹھے لوگوں کا بہت دلچسپی سے مشاہدہ کررہا تھا،یک دم وہ ماہتاب طلوع ہوا، وہ میرے اسٹاپ سے اگلے اسٹاپ پر بس میں سوار ہوئی تھی۔جیسے ہی اس کی نظر مجھ سے ملی ،تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وقت تھم گیا ہو۔ اس کی نظر میں کچھ ایسی ان کہی کہانی تھی کہ میں اس کی اداس نظر سے گھائل ہوگیا، میں شہروز علی خان ،مشہور و معروف سرجن پہلی بار زندگی میں کسی کے سامنے بے بس ہوگیا۔مجھے زندگی میں پہلی بار پہلی نظر کی محبت کے فلسفے پر یقین آیا۔مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے محبت کا یونانی دیوتا ” کیوپڈ” اس حسینہ کے ساتھ ہی اس بس پر چڑھا تھا اور اس نے مجھ غریب کے دل کو اپنے عشق کے تیر سے گھائل کردیا تھا ۔اس نے ایک بے نیازی سے مجھے دیکھا اور دیگر مسافر خواتین کے ساتھ بیٹھ گئی ۔میں اس بے نیاز نظر کا سوالی بن گیا۔اس مختصر سفر نے مجھے عشق کی وادی کارزار میں پھینک دیا۔میں داتا سے بھکاری بن گیا۔

اگلے روز میں ارادتا چل کر اس کے بس سٹاپ پر اس امید کے ساتھ پہنچا کہ وہ ماہ جبین شاید پھر نظر آجائے ۔جب میں نے اسے ایک گلی سے خراماں خراماں نکلتے ہوئے دیکھا۔تو میرا سیروں خون بڑھ گیا۔ اس روز میں نے اس کی آنکھوں پر اور غور کیا ،اس کے ابرو ترشے ہوئے خم دار تھے۔اس کی آنکھوں کی رنگت مجھے کبھی بنفشی لگتی ،کبھی مجھے سبز محسوس ہوتی۔پھر تو میرا روز کا جیسے معمول ہوگیا، میں اس کے بس سٹاپ پر پیدل پہنچتا،اس کے ساتھ بس پکڑتا،سارے راستے اس کی نظر اتارتا، خیالوں میں اس سے باتیں کرتا،اپنے مقررہ سٹاپ پر اتر جاتا۔میں روز کوشش کرتا کہ اسے مخاطب کر سکوں مگر روز ہمت نہیں جٹا پاتا۔دن پر دن گزر رہے تھے ۔میں اس کی محبت میں بسمل ہوچکا تھا،یہ کیسا عشق تھا جس نے مجھے بدل دیا تھا۔چھٹی والے دن میں اپنی ہیوی موٹرسائیکل پر سینما گھر سے فلم دیکھ کر نکلا تو راستے میں بارش شروع ہوگئی ۔اچانک میری دلی مراد بر آئی ،مجھے وہ نازنین بارش میں بھیگتی درخت کے نیچے کھڑی نظر آئی ۔میں نے جھجھکتے ہوئے اس کے قریب موٹرسائیکل روکی اور اسے لفٹ کی آفر کی۔وہ میری شکل سے آشنا تھی، شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا،اس نے کچھ سوچا مگر میں نے فورا ً کہا:
” محترمہ! میں ایک شریف شخص ہوں، اس وقت آپ کو کوئی اور سواری نہیں ملے گی ۔”

وہ کشمکش میں تھی مگر موسم کے تیور مزید بگڑنے لگے ، بادلوں کی گرج چمک بڑھ گئی ،اس نے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور جھجھکتے ہوئے میری آفر منظور کرلی۔وہ سمٹ کر میرے پیچھے بیٹھ گئی، مجھے اس کے بیٹھنے کے انداز میں ایک گریز سا محسوس ہوا۔ میری حس شامہ اس کے جسم سے آتی بھینی بھینی خوشبو سے مہک اٹھی ، میں فیصلہ کرنے سے قاصر تھا کہ یہ کسی پرفیوم کا کمال تھا یا اس کے پسینے کی مہک تھی۔ میرا دل ایک ضدی بچے کی طرح ہمکا ،کاش یہ نازنین میرے کندھے ہی سہارے کے لئے تھام لے ، مگر دل ہی دل میں مجھے اس بات کی خوشی بھی ہوئی کہ وہ کسی اچھے ،شریف گھر کی لڑکی تھی ،جو اپنی حدود و قیود سے بخوبی واقف تھی ،میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ آج اس حسین اتفاق سے میں پورا فائدہ اٹھا کر اسے اپنی روداد دل بتائے بغیر آج نامراد واپس نہیں لوٹوں گا۔ جب اس کو میں نے اس کے گھر اتارا ،تو جھجھکتے ہوئے اس سے اپنی امی کو رشتے کے لئے بھیجنے کی اجازت مانگی۔اس کی واحد نظر آنے والی آنکھ حیرت سے پھیل گئی اچانک اس کی آنکھ میں سرخی آگئی، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آنکھیں درحقیقت جیسے سرخ رنگ کی تھیں ۔اس نے بہت آہستگی سے کہا:
“پلیز مجھے اپنانے کا خیال ذہن سے نکال دیجیے، میں وہ چاند ہوں جس پر واقعی داغ ہے۔”
اس نے آہستگی سے اپنا نقاب میرے آگے اتار دیا۔ میں نے دیکھا اس کے چہرے کا دوسرا حصہ بری طرح جلا ہوا تھا، میں بے اختیار دو قدم پیچھے ہوگیا۔اس نے اپنی لہو رنگ آنکھیں جھپکیں اور خاموشی سے سر جھکا کر گھر کے اندر چلی گئی ۔میں واپس اپنے گھر کی اور چل پڑا مجھے لگتا تھا جیسے میرا دل کسی دو ٹکڑے کر ڈالا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے اس کا چہرہ بہت جانا پہچانا سا محسوس ہوا،میں اپنے دماغ پر زور دیتا رہا کہ اس لڑکی کو میں نے کہاں دیکھا تھا؟ اچانک مجھے یاد آیا کہ پچھلے سال ایک ہوس کے پجاری نے ایک لڑکی کے منہ پر تیزاب صرف اس بات کا بدلہ لینے کے لئے ڈال دیا تھا، کیونکہ اس نے اس لڑکے کے ساتھ محبت کا کھیل رچانے سے انکار کردیا تھا ۔ مجھے یاد آیا کہ اس اوباش لڑکے نے ایک شریف لڑکی کو اس کی شرافت کی سزا دی تھی ،میں ان دنوں اپنی کاسمیٹکس سرجری کی سپیشلائزیشن کے لئے انگلینڈ جارہا تھا، اسی واقعے نے مجھے اس فیصلے پر مجبور کیا تھا کہ میں ہر سال دس کے قریب مختلف مفت کاسمیٹکس سرجری ان عورتوں کی کرتا تھا ،جو کسی ظلم کے نتیجے میں اپنی خوبصورتی کھو بیٹھتی تھیں ،میں نے ملک واپس آکر کشف کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر حادثے کے بعد وہ لوگ محلہ چھوڑ کر دوسری جگہ شفٹ ہوگئے تھے ،مجھے اب سمجھ آیا کہ میں اس کی ایک جھلک پر دیوانہ کیوں ہوگیا تھا۔میں نے دل ہی دل میں ایک فیصلہ کیا اور مطمئن ہوگیا۔آج کشف میری بیوی ہے۔کشف کا چہرہ کاسمیٹکس سرجری سے پہلے جیسا بے داغ ہوگیا ہے ،مگر میرا چاند ابھی بھی پردے میں رہتا ہے ، میں نے ایک دفعہ اس سے چادر سے منہ ڈھانپنے پر استفسار کیا ،تو وہ ہنس کر بولی:
” میں نے ایک مرد کی بربریت صرف اس لئے سہی کہ وہ میرا بے نقاب چہرہ دیکھ کر میرا دیوانہ بن گیا تھا،میں نے شہروز قرآن پاک ترجمے سے اپنے اس حادثے کے بعد پڑھا،میرا روپ میرے مجازی خدا کی امانت ہے ،میں نہیں چاہتی کہ کسی شخص کی گندی نظریں اس امانت کو میلا کرے ،اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے۔
وَلاَیُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِہِنَّ
اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں مگر شوہر وں اور محرم کے لئے
(سورہ نور:۳۱) ​
تو میرے اللہ اور اس کے رسول کا حکم یہی ہے کہ ہم عورتیں اپنی زینت صرف اپنے شوہر یا محرم کے لئے رکھیں۔
میں ابھی ماضی میں دریا برد تھا کہ کشف نے مجھے آواز دی ،میں نے دیکھا میرے چاند نے سیاہ چادر اوڑھی ہوئی تھی اس کی صرف ایک آنکھ باہر تھی۔میرے چاند کا الوہی روپ صرف میرے لئے تھا،وہ میرے آسمان کا چاند تھی،جس کی چمک اور خوبصورتی صرف میرے لئے تھی۔میں طمانیت سے مسکرایا اور گاڑی کی چابیاں اٹھا کر کشف کے سنگ چل پڑا۔
۔یہ پردہ ہی تو ہے جو عورت کو غیر مرد کی حیوانیت سے محفوظ رکھتا ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟

Facebook Comments

Munnaza S
میرا نام مونا شہزاد ہے، میں کالج کے زمانے سے لکھتی تھی،1994 میں بی اے کے دوران قومی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا،جو گاہے بگاہے چلتا رہا۔2001 میں شادی کے بعد کینیڈا آنے سے سلسلہ رک گیا۔میں زندگی کی مصروفیات میں گم ہوگئی،زینب کے سانحے نے مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کیامیں نے قلم سے رشتہ استوار کیا۔اب میری تحریریں تمام بڑے آن لائن پلیٹ فارمز،آن لائن رسالوں، دیگر رسالوں اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply