اپنی شخصیت کی تلاش میں گم ہمارے بچے -ڈاکٹر عرفان شہزاد /تبصرہ-محمد وقاص رشید

سنیے ، ذرا رکیے اور غور فرمائیے۔۔خدا نے انسان کی تخلیق اور پھر اسے پروان چڑھانے کے لیے کیا اسکیم اختیار کی ؟ اس اسکیم میں آپکا کردار کیا ہے ؟ اور کیا آپ یہ کردار صحیح معنوں میں ادا کر رہے ہیں ؟ اگر نہیں تو اس سے دنیا میں کیا خرابیاں جنم لیتی ہیں اور آخرت میں اسکا جواب کیسے لیا جائے گا ؟

استاذ جنابِ غامدی کے فہمِ دین کا قائل اس لیے ہوں کہ وہ اخلاقیات کو دینِ اسلام کا منبع قرار دیتے ہیں۔ وہ خدا کی اس اسکیم کی جو تفہیم و تشریح بیان کرتے ہیں وہ طالبعلم کی نگاہ میں اسلام کی روح کے عین مطابق ہے کہ خدا کی اسکیم یہ ہے کہ نکاح کے اعلان کے ساتھ مردوزن گھر نامی ایک ادارے کی بنیاد رکھتے ہیں جہاں وہ خدا کی اسکیم برائے انسانی تخلیق و نشونما میں ماں اور باپ کے اہم ترین انسانی مناصب پر فائض ہوتے ہوئے سماج کے معمار بنتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے والدین کو اس فکر کا عملی نمونہ پائے یا کم ازکم اپنی شادی کے وقت اس تفہیم سے روشناس ہو۔ ماں باپ بننے کی کائنات کی اہم ترین زمہ داری اور منصب کے فرائض پورے کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اسکے لیے ذہنی ، جسمانی ، فکری ، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے تیار ہو۔ تاکہ خدا کی اس اسکیم میں اپنا مطلوبہ کردار بخوبی انجام دے سکے لیکن ہم پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اس کا فقدان دیکھتے ہیں تو غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے کیا گلہ۔
لیکن ہم گود سے گور تک علم حاصل کرنے کو فریضہ قرار دیتی ایک آئیڈیالوجی کے پیروکار ہیں۔ اور شکر اس علیم و بصیر خدا کا کہ جس نے اپنی مخلوق میں اہل علم و بصیرت پیدا کیے۔ انہیں انکی ریاضتوں کے عوض اخلاصِ نیت کا ثمر بخشا۔ دردِ دل انکو اسی اخلاص نے بخشا۔ اپنی فطرت میں موجود خرد کو جنہوں نے علم و دانش کے لیے یوں وقف کیا کہ انہیں وہ قلم عطا ہوا جسے اپنی کتاب میں خدا نے انسان کو علم سکھانے کا ذریعہ قرار دیا۔ وہ قلم جب صاحبِ عرفان ، عرفان صاحب کو ملا تو انہوں نے اس سے خدا کی اس اسکیم میں شامل ہونے کا علم ہمیں سکھانے کے لیے “اپنی شخصیت کی تلاش میں گم ہمارے بچے” جیسی شاہکار کتاب تخلیق کر دی۔

اگر آپ خدا کی اس اسکیم میں شامل ہو چکے اور اہم ترین انسانی عہدوں “ماں اور باپ “پر براجمان ہیں تو یہ کتاب آپ ہی کے لیے ہے۔ اس کتاب میں ان حساس اور اہم ترین موضوعات کو بڑے مدلل مگر عام فہم انداز میں موضوعِ بحث بنایا گیا ہے جنکے بارے خصوصا سوشل میڈیا کے توسط سے ہمارے ذہنوں میں سوالات تو ہیں جوابات نہیں۔

عہدِ حاضر کے ایک بڑے مفکر جناب ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب کی شخصیت کا ایک خاصہ یہ ہے کہ آپ ان سے فیس ٹو فیس گفتگو کر رہے ہوں ،فیس بک پر انکی کوئی تحریر پڑھ رہے ہوں یا انکی کتاب “اپنی شخصیت کی تلاش میں گم ہمارے بچے” کا مطالعہ کر رہے ہوں یہ اپنےانتہائی تہزیب یافتہ نرم خو انداز میں کڑی سے کڑی حقیقت بیان کرتے پائے جاتے ہیں۔

“اپنی شخصیت کی تلاش میں گم ہمارے بچے” سے یقینی طور پر آپ بھی میری طرح سیکھیں گے کہ۔

٭ بچوں میں اوائل عمری میں تصورِ خدا کو کیسے پروان چڑھایا جائے۔

٭ بچوں کی تعلیم سے متعلق کسطرح سے سوچنا چاہیے۔۔

٭اگر بچے پڑھائی میں کمزور ہوں تو کیا کیا کرنا چاہیے ؟

٭بچوں کی تربیت سے متعلق بنیادی اصول اور اصلوب کیا ہیں۔

٭ مختلف گھریلو معاملات میں بچوں کی نفسیات کیا تقاضا کرتی ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں ؟

٭ بچوں کی فراغت ، تعلیم ، تفریح ، سزا ، شخصیت سازی ، خوراک ، چند عمومی و خصوصی رجحانات سے متعلق ہمارے ہاں رائج کیا ہے اور ہونا کیا چاہیے ؟

٭ حدود سے متجاوز شرم و حیا کے کیا نقصانات ہیں ؟

٭باقاعدہ پندو نصائح اور وعظ کی بجائے کیا کیا جائے ؟

٭مثالی والدین بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟

٭ آپ یقین کیجیے والدینیت کے باب میں ڈاکٹر صاحب نے گویا پاکستانی والدین کے رویے کا فارنزک ٹیسٹ ہی کر چھوڑا۔ والدینیت کے زعم میں رائج کچھ انتہائی مہلک روایات کا کہیں آپ بھی شکار تو نہیں ۔ ان سے کیسے اور کیوں بچنا چاہیے؟

٭ ہمارے ہاں بہت بڑے اور قابلِ مزمت ترین سماجی ناسور “بچوں سے جنسی زیادتی ” کے موضوع کا جس ہمہ جہتی سے اس چھوٹے سے کتابچے میں احاطہ کیا گیا ہے وہ خیرہ کن ہے۔ سماجی / معاشرتی ، نفسیاتی ، ادارہ جاتی ، (اور تو اور ) ثقافتی اور دینی و دنیاوی تناظر میں اس قضیے کا باکمال علمی جائزہ لینے سے تدارک /حل کے لیے ہر منسلک کو تجاویز دینے تک بلا شبہ ڈاکٹر صاحب کی یہ عظیم انسانی و سماجی خدمت ہے۔ اسے پڑھ کر آ پ بحیثیت والدین اس بارے لازمی علم حاصل کر پائیں گے۔

٭ویسے تو اس کتاب کا ایک ایک موضوع ہی گویا والدین کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن مختلف شادی شدہ احباب سے پچھلی ایک دہائی پر مبنی گفتگو کے نتیجے میں طالب علم یہ کہہ سکتا ہے ک والدینیت کے باب میں ” خاندانی منصوبہ بندی” سے متعلق حقیقت اور فسانے کو اپنی نوکِ قلم سے الگ الگ کرنا ڈاکٹر صاحب کا ایک اور کارنامہ ہے ۔

٭ایک ماہرِ تعلیم ہونے کے ناطے کچھ عمومی اور کچھ خصوصی تعلیم ہر انکے مشاہدات جیسے نابیناؤں کی تعلیم انکے مسائل اور ان کا حل۔۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جناب ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب جیسی شخصیات کے علم و تحقیق کو سماجیات کے متعلقہ ادارے پالیسی سازی کے عمل میں شامل کر کے پاکستانی لوگوں کو ایک بہتر قوم اور اس سر زمین کو ایک بہتر انسانی معاشرہ بنانے میں بروئے کار لائیں لیکن یہاں بہت کچھ “چاہیے” کے لفظ کے قفس سے آزاد نہیں ہوتا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرحال عالی مقام عرفان صاحب کو عالم خدا اپنا اور علم و عرفان عطا فرمائے۔ یہ اپنی شخصیت کی تلاش میں گم ہمارے بچوں کے محسن ہیں۔ خدا انکے بچوں کا محسن ہو۔
انشاللہ ہمارے بچے اپنی شخصیت اور کردار سے اسطرح کی علمی کاوشوں کا عملی ثمر ہونگے۔۔۔۔اگر ہم والدین یہ کتاب دل کی آنکھوں سے پڑھیں۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply