منٹو فلم پہ کچھ تاثرات۔۔۔۔اسد الرحمن

منٹو فلم کو دیکھ کر مایوسی ہوئی، ایک نہایت اہم موقع ضائع کر دیا گیا۔ باوپک فلم بناتے وقت کچھ کچھ چنیدہ امور جیسے ۱) تاریخ اور فکشن کا ملاپ ۲) کردار اور تاریخی واقعات دونوں میں سے کس پہ زور دینا چاہیے یا کب کسکو فوقیت دینی چاہیئے اور ۳) کردار کی ذاتی و عوامی زندگی کو آپس میں کیسے جوڑا جائے۔ اگر چند ایک اچھی باوپک(Biopic) پہ نظر دوڑائی جائے تو ہالی وڈ سے چند مثالیں جیسے ’ Lion of the Desert‘ Lawrence of Arabia وغیرہ کی مثال لی جا سکتی ہے جس میں تاریخ اور کردار دونوں کی باہمی جڑت اور ایک دوسرے پہ اثر کو بخوبی بنھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم اس فلم میں منٹو جیسے دائروں ، شناختوں اور سانچوں کے باغی کو ایک سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ تاریخی اعتبار سے غلط اور فکشن کے حوالے سے بھی متاثر کن نہیں رہا۔
منٹو فلم میں اگر سب سے پہلے اچھی چیزوں کی بات کریں تو نواز دین کی پرفارمنس اس فلم کا سب سے جاندار حصہ رہی اپنی محدودیت میں رہتے ہوئے بہرحال انہوں نے کردار پہ کافی محنت کی جسکی وجہ سے انکی اداکاری کچھ جمی نہیں۔فلم کا سکرپٹ نہایت کمزور تھا اور منٹو کے کردار میں آنے والی Transitions بھی نہایت سطحی تھیں ۔ جیسے منٹو کا ہندوستان سے پاکستان آنے کا فیصلہ کمزور سکرپٹ کے باعث ایک عجلت میں کیا گیا فیصلہ دکھائی دیا۔ حالانکہ اسکی وجہ کوئی ایک آدھ واقعہ نہیں تھا بلکہ کئی واقعات تھے جن میں سے فیصلہ کن بہرحال اشوک کمار (بمبئی ٹاکیز کے مالک) کا منٹو کے فلم سکرپٹ پہ کسی اور کو فوقیت دینا تھا ( غالبا اسکا نام آٹھ دن تھا)۔ منٹو جیسے انا پرست اور سیلف ریسپکٹ کے بارے میں حساس انسان کئلئے اشوک کا یہ فیصلہ ناقابلِ قبول تھا اور اسی وجہ سے اس نے لاہور کی جانب مراجعت کی۔ شیام کے کمنٹ سے جوڑ کر دراصل فلم کو اس وقت تقسیم کے ساتھ جوڑ کر منٹو کی حساسیت کی یک طرفہ تشریح کی گئی ہے۔
اسی طرح سے منٹو کے افسانوں کا فلم کے اندر استعمال بھی کہانی کو آگے نہیں بڑھاتا بلکہ کہانی کے تسلسل کو توڑتا ہے۔ مثلا طوائف کا دلال کا سر پوڑھنا اس سین سے مطابقت ہی نہیں رکھتا ۔ اسی طرح ٹھنڈا گوشت بھی یکدم آنا فانا آتا ہے ۔ شاید فلم کو عالمی منڈی کیلئے قابلِ قبول بنانے کیلئے فلم کا دورانیہ تھوڑا رکھا گئی لیکن اسکی وجہ سے فلم کا فلو متاثر ہوا ۔ منٹو کی افسانہ نویسی، ترقی پسندوں سے اسکے مسائل اور ایک انسان کی حیثیت سے اسکا زندگی اور حالات کا تجزیہ تنیوں ہی تھیم کو اتنی چھوٹے دورانیہ کی فلم میں سمونا ممکن نہیں تھا اس لیے بہتر ہوتا اگر انہیں چھیڑا بھی نہ جاتا اور اگر چھیڑ لیا تھا تو پھر اسے نبھایا جاتا۔ اس سلسلے میں Allen Ginsberg امریکی شاعر کہ جس پہ منٹو کی طرح مقدمات چلے اس کی زندگی پہ مبنی فلم The Howl کی سٹریجی کو مد نظر رکھا جاتا تو فلم میں واقعات کی رفتار اور سین سکیوئنس پہ قابو رکھا جا سکتا تھا ۔ اس فلم میں فلیش بیک تیکنیک کا بہت جاندار استعمال فلم کی کہانی کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں فلم مقدمے سے شروع ہو کر مقدمے پہ ہی ختم ہوتی ہے تاہم بیچ میں فلیش بیک کے ذریعے کردار کی ذاتی زندگی اور شاعری کی آپسی جڑت اور ارتقا کو قاری کیلئے واضح کیا جاتا ہے۔ نندیتا داس اس معاملے میں بالکل ناکام رہی۔ نہ ہی منٹو کا فن کھل کر سامنے آ پایا نہ اسکی ذاتی ذندگی اور نہ ہی اسکی ادبی سیاست اور بہ حیثیت لکھاری اسکا مرتبہ۔
یہ فلم شاید ہندوستان کی تقسیم سے جڑی عالمی سیاست میں الجھنے کے باعث اپنے موضوع سے جا بجا ہٹتی دکھائی دی اور یہی اس فلم کا وہ پہلو ہے جو کہ اس پراجیکٹ پہ منفی طور پہ ہر پہلو سے اثر انداز ہوا۔ جس آڈئینس کو ذہن میں رکھ کر یہ فلم بنائی گئی ہے انکے لئے منٹو نہیں بلکہ ہندوستان اور تقسیم شاید زیادہ اہم ہے جس کے باعث اس فلم میں بھی منٹو کو اور اسکے کردار کے ۳۵ سال نہیں دکھائے گئے بلکہ آخری دہائی کا منٹو دکھایا گیا ہے کیونکہ منٹو اور اسکے فن سے زیادہ اس عہد کو دکھانا ضروری تھا۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر اسکا نام منٹو کیوں رکھا ؟ یہ فلم بہرحال منٹو کے ساتھ انصاف نہیں کر سکی اور یہ نندیتا داس کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اسی وجہ سے ابھی بھی گنجائیش موجود ہے کہ منٹو پہ ایک بڑی فلم بنائی جائے۔

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply