شخصیت پرستی ۔۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

ایسے موجودات کی تعداد چار ہے، جن کے ساتھ انسان باہمی تعلق کا شغف رکھتا ہے، وجودِ خدا، کائناتی وجود، وجودِ معاشرہ اور وجودِ ذاتی (یعنی کہ اپنی ذات )، ان چاروں کے ساتھ انسان کے تعلقات کی بنیاد دو پہلوؤں سے ممکن ہے، عقلی اور جذباتی۔
عقلی پہلو سے تعلق میں مثبت بات یہ ہے کہ انسان کائنات اور معاشرے میں اپنے حقوق و فرائض، اپنا مقام جاننے اور بنانے کے علاوہ ، دوسرے انسانوں کے حقوق و فرائض، ان کی حدود، احتمالات، قابلیت ،اہمیت و دیگر خصوصیات کا جائزہ لینے کی اہلیت رکھتا ہے,اس طرح اپنے حقوق کے استحصال سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ مختلف تعمیراتی سرگرمیوں کا متحمل ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر تعلق کی بنیاد جذباتی ہے تو انسان کا اپنی ذات پر اعتماد نہیں بن پاتا، کیونکہ اعتماد نام ہے قدرت کی طرف سے اس پہ ڈالے گئے احساسِ ذمہ داری کو سمجھنے اور اس کی تکمیل کا، انسان شعوری آنکھ کی بیداری کی سعی ترک کرتے ہوئے اپنا مقام، اپنے حقوق و فرائض اور اپنی قسمت کے فیصلے کا اختیار دوسروں کے سپرد کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے، یہیں سے شخصیت پرستی کے نفسیاتی اسباب جنم لیتے ہیں۔
شخصیت پرستی کی تاریخ، بت پرستی سے بھی زیادہ قدیم ہے، سادہ سی بات ہے کہ پہلے ایک شخص کی پرستش کا سلسلہ اس کی زندگی میں شروع ہوا، اس شخصیت کی موت کے بعد پھر اس کا بت بنایا گیا، اور بت پرستی کی رسم ڈالی گئی۔
شخصیت پرستی شرک کی ایک قبیح شاخ ہے، جس کی دریافت (یا ایجاد ) کا سہرا زیادہ تر سیاسی، سماجی و مذہبی پیشواؤں کے سر جاتا ہے، ان نام نہاد پیشواؤں نے انسانوں کے جوہرِ شعور کا استحصال کرتے ہوئے انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے جانوروں کی طرح استعمال کیا، کچھ خاص تعلیمات، خوف و تعصبات اور فلسفہ ہائے زندگی کے ذریعے انسان کے تخیّل کو قابو میں کر لینا اور پھر اس سمت پہ ڈالنا جس سے اپنے لئے زیادہ فوائد کشید کئے جانے کے امکانات ہوں، ان فرعونوں کا طریقۂ واردات رہا ہے۔
اوائل میں کسی گروہ کے سردار یا بادشاہ کا تصور سامنے آیا، جس نے خود کو دیوتاؤں کا نمائندہ ظاہر کرتے ہوئے یہ باور کرایا کہ اس ہجوم کی دنیوی و اخروی بھلائی صرف اس سردارکی خدمت سے ہی ممکن ہے، کسی قبیلے کا سردار شروع میں قبیلے کے افراد کی خوراک کے بندوبست کا ذمہ دار مانا جاتا تھا، مگر زراعت کے فروغ نے سردار کی اس اہمیت کو کم کر دیا، اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے، سردار نے قبیلے کی جان و مال کی حفاظت اور اخروی کامیابی کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر لیتے ہوئے سادہ لوح انسانوں کو غلام بنائے رکھنے کی رسم کو مذید بھیانک بنا ڈالا۔
سردار کی شخصیت نے اپنے گرد احترام ، پاکیزگی و عظمت کا ایک ہالہ کھینچتے ہوئے لوگوں کو اپنے آگے جھکنے پر مجبور کیا، بلکہ لوگوں نے سردار کو واقعتاً اپنی بھلائی کا منبع اور نجات دہندہ تصور کرتے ہوئے اپنے فہم و شعور، خود داری و عزتِ نفس اور جسم و جاں کو سردار کے قدموں میں گروی رکھ دیا۔
اسی اصول کو بعد میں آنے والے سیاست و مذہب کے رہنماؤں نے اپنے حق میں استعمال کیا، اور آج معاشرے میں اس کی عملی تصویر روزمرہ بنیادوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔
آخر اس کی حقیقی وجوہات کیا ہیں؟ کون لوگ یا لوگوں کے گروہ ہیں جو اپنا شخصی استحصال کروانا پسند کرتے ہیں ؟
سماجی سطح پر انسان کی زندگی کے مختلف ادوار ہیں جو اس کی نئی معاشرتی ذمہ داریوں کا باب کہلائے جا سکتے ہیں، ان ادوار کی تکمیل میں اندرونی یا بیرونی خلل ہی اس عارضے کی حقیقی وجہ ہے، جیسا کہ کسی نئے سکول یا مدرسے میں داخلہ، سکول یا مدرسے سے فارغ التحصیلی کے ایام، کسی یونیورسٹی یا الجامعہ میں داخلہ یا فراغت، کسی نوکری کی شروعات، شادی یا بچوں کی پیدائش کا زمانہ وغیرہ اپنی نوعیت کے حساس ترین ادوار ہیں۔(اگرچہ عمر کے مختلف ادوار میں طبی نکتۂ نگاہ سے، ہارمومز کا انسان کے رویہ پر ایک دلچسپ اور گہرا اثر دیکھنے میں آتا ہے، مگر یہ ایک علیحدہ موضوع ہےجو کہ ایک مکمل مضمون کا متقاضی ہے )-
ان تمام ادوار میں انسان نئی ذمہ داریوں سے روشناس ہوتا ہے، ان ذمہ داریوں کے ایک سطح سے دوسری سطح میں انتقال کے وقت اگر کوئی دیرپا سماجی یا نفسیاتی الجھن دامن گیر ہوئی تو فرد اپنی ذات کو کسی سردار، سیاستدان، کسی مداری، مولوی یا پیر فقیر کے پاس گروی رکھنے کو تیار ہو جائے گا، کیونکہ یہ عمر شعوری پرورش کا دور کہلائی جا سکتی ہے، اس دوران کوئی سنجیدہ سماجی یا نفسیاتی پیچیدگی انسان کے شعور و فہم کی پرورش پر اثرانداز ہوتے ہوئے اس کے رویہ جات کو منفی سمت میں دھکیل سکتی ہے، جس سے پہلی چوٹ اعتمادِ شخصی پہ پڑتی ہے، نتیجتاً انسان ایک انجانے خوف کا شکار نظر آتا ہے، اور چاروں طرف ناکامی و مایوسی کا منتظر رہتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے مقاصد کی تکمیل میں کسی بیرونی ہاتھ کا متلاشی دکھائی دیتا ہے، اور یہی وہ مقام ہے، جہاں پر یہ فرعون صفت شکاری تاک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، اور ورغلانے کے ہر حربے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ مخصوص خوشبوئیں، نشست و محفل کا ایک خاص ماحول، لباس و وضع قطع، گاہے بڑے بڑے گھر، گاڑیاں، مسلح سیکیورٹی گارڈ وغیرہ، یہ سب حرکات کچھ ہیبت و دبدبہ پیدا کرتے ہوئے، عام فرد کو نفسیاتی طور پر مفلوج کردیتی ہیں اور انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسی ہستیوں کو مافوق الفطرت یا بااثر تصور کرتے ہوئے اس ہستی کو مشکل کشا مانے اور گھٹنے ٹیک دے۔ رہی سہی کسر اس ” عظیم شخصیت ” کے مرید، پیروکار اور خوشامدی نکال دیتے ہیں کہ موصوف اگر پیر ہیں تو حضرت صاحب کی ایسی ایسی کرامات بتائیں گے کہ عصائے موسی شرما جائے، اور اگر کوئی سیاسی شخصیت ہے تو اس کے مداح کراچی سے پشاور تک ان کے تعلقات اور اثرورسوخ کی وہ رام کہانیاں سنائیں گے کہ ایک ذی شعور انسان کے کانوں سے دھواں نکلنے لگے۔
شخصیت پرستی کی دو ضمنی وجوہات اور بھی ہیں، ایک وجہ جینیاتی ہے، یعنی کہ اگر پچھلی نسل میں بزرگ اس غلامانہ ذہن کے مالک رہے ہوں تو ممکن ہے کہ فرد کے کردار میں اس کی جھلک نطر آئے، یعنی کہ یہ لعنت جاتے جاتے جائے گی، دوسری وجہ بچوں کی جسمانی و ذہنی پرورش کے دوران ضروری خوراک کی کمی ہے، درست اور پوری خوراک کے نہ ملنے سے انسانی ذہن کی صحیح پرورش نہیں ہو پاتی، نتیجتاً شعور و فہم کی تعمیر ناقص رہتی ہے اور انسان شخصی اعتماد کے فقدان کا شکار نظر آتا ہے، ایسے افراد کو آسانی سے سیاسی و مذہبی تماشہ گر اپنا نشانہ بناتے ہیں۔
یہ کسی بھی معاشرے کا ایک خطرناک ترین رجحان ہے، سب سے پہلے متآثرہ افراد اپنی شخصیت کو مکمل طور پر کھو بیٹھتے ہیں، ان کی کسی بھی قسم کی فعالیت ” رضاکارانہ مجبور ” یا ” مجبور رضاکارانہ ” کہلائی جا سکتی ہے، ایسے افراد ہر قسم کی منفی تنظیموں کے ہاتھوں کھلونا ثابت ہوتے ہیں، اگر ایک فرد اپنی شعوری شخصیت سے ہاتھ دھو بیٹھے تو نتیجے میں خاندان کی بنیادیں کھوکھلی واقع ہونگی، اور ہم جانتے ہیں کہ معاشرے کی اکائی خاندان ہے، ایسے معاشرے کے اقدار و مقاصد انتہائی سطحی و ناپائیدار ہوں گے۔
اس لعنت کا شکار فرد خیروشر اور حق و باطل میں تمیز کھو بیٹھتا ہے، کیونکہ ایسا شخص صرف اسی قول و فعل کو حق و خیر تصور کرے گا جس کی منظوری آنحضرت کی ذاتِ اقدس سے آئے گی۔
اس لیے اپنی ذات اور اپنے اقارب کے رویہ جات کا نئے سرے سے جائزہ لیجئے، اپنے بچوں کی خوراک و ان کی نفسیاتی تعمیر پر توجہ دیجئے، معاشرے کی مثبت سمت کا تعین آپ کے ہاتھ میں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply