گوری ذرا راستہ بتانا ۔۔۔۔طارق احمد

ھم جب نئے نئے برطانیہ وارد ھوئے۔ تو اکثر کہیں آتے جاتے راستہ بھول جاتے۔ یوں تو ملک انگلیشیا بہت پرانا تھا ۔ لیکن ھمارے لیے نیا تھا ۔ بلکہ نیا نکور تھا۔ اور اس نئے نویلے ملک میں ھم راستہ بھول جاتے تھے۔ اور راستہ بھولنے کا مطلب یہ ھوا کہ ھم اپنی منزل بھول جاتے تھے۔ اور ادھر ادھر بھٹک جاتے تھے۔ یہ ھمارا روز کا معمول تھا۔ ایک دن ھم ایسے ھی اپنے گھر کا راستہ بھول گئے۔ یہ ایک چوراھا تھا ۔ اور ھم اس چوراھے میں ھونقوں کی مانند کھڑے تھے۔ اور گواچی گاں کی مانند گردن اٹھا کر اور گھما گھما کر ادھر ادھر دیکھ رھے تھے۔ کہ اب جانا کدھر ھے۔ ھمارے چہرے پر کھدی ابدی حماقت دیکھ کر ایک گوری ھمارے پاس رک گئ۔ اور انتہائی محبت سے مسکرا کر نرم لہجے میں پوچھا ۔ کیا میں تمہاری کوئ مدد کر سکتی ھوں۔ اس گوری کو اپنے پاس رکتے دیکھ کر ، اور پھر مسکراتے دیکھ کر اور پھر ھم سے ھمکلام ھوتے دیکھ کر ھمارے حماقت زدہ چہرے پر مزید حماقت کا اضافہ ھو گیا تھا۔ جسم پر حواس باختگی طاری ھو چکی تھی۔ ھم نے چندھائ ھوئ آنکھوں سے گوری کو دیکھا ۔ وہ محض گوری نہیں تھی۔ کچھ زیادہ ھی گوری تھی۔ اس کی نیلی آنکھیں تھیں ۔ اور گہری نیلی تھیں ۔ اس کے بال سنہرے تھے۔ اور سنہرے چمک دار اور روشن تھے۔ اور اس نے یہ بال کندھوں پر کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ ھوا چلتی تو سنہری لہریں اڑنے لگتیں اور قوس قزح کے رنگ پھیل جاتے۔ اس نے اوپر سے نیچے تک ایک کھلا گھگرا پہن رکھا تھا۔ جو اس کے جسمانی پیچ و خم سے الجھ رھا تھا۔ جبکہ چاک گریبان اور دامن چاک کے درمیان کچھ ایسا معاملہ تھا۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگ
گویا ھماری بربادی کے مشورے تھے آسمانوں میں ۔ آپ اندازہ کریں ۔ گورا رنگ ھماری کمزوری ھے۔ بلکہ ایک معاشرتی کمزوری ھے۔ نیلی آنکھیں ایک تاریخی کمزوری ھے۔ اور گھگرا ایک جغرافیائی کمزوری ھے۔ جبکہ سب سے بڑی کمزوری اس گوری کی انگریزی تھی۔ انگریزی ھماری ذاتی کمزوری ھے۔ سرکاری کمزوری ھے اور افسرانہ کمزوری ھے۔ جونہی کوئ گوری ھمارے ساتھ انگریزی بولتی ھے۔ ھماری بولتی بند ھو جاتی ھے۔ اور ھم ھکلانہ شروع کر دیتے ہیں ۔ اگرچہ ھم انگریزی کے پروفیسر ھیں ۔ لیکن یہ وہ حساس مقام ھے جہاں ھمارے انگریزی کے پر جلنا شروع ھو جاتے ھیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ گوری ھمیں مسکرا کر ھماری مدد کرنے کا پوچھ رھی تھی۔ یعنی نئے ملک میں مسکراتی ھوئ گوری مدد ۔ گویا ھماری قسمت میں جتنی بھی کمزوریاں لکھی تھیں ۔ اس وقت وھاں اس ایک گوری میں اکھٹی ھو چکی تھیں ۔ صرف ایک کمزوری بچی تھی۔ جس کا ذکر جی ٹی روڈ کے دونوں جانب دیواروں پر اشتہاری شکل میں لکھا ملتا ھے۔ یعنی اگر آپ بچپن کی بد اعمالیوں کی وجہ سے جوانی کی خوشیوں سے محروم ھو چکے ھیں ۔ ھم نے تتلاتے ھوئے گوری سے کہا۔ ھم راستہ بھول چکے ھیں ۔ اور ھم نے ساوتھ گاسورتھ جانا ھے۔ اس قاتل حسینہ نے مسکراتے ھوئے کہا۔ آپ جناب سرکار اس وقت ساوتھ گاسورتھ میں ھی کھڑے ھیں ۔ یہ سن کر خجالت اور شرمندگی سے ھمارے ماتھے پر مزید پسینہ چمکنے لگا بلکہ بہنے لگا۔ اب وہ گوری پھر ھم سے ھمکلام ھوئ۔ اللہ اللہ ۔ آپ نے جانا کہاں ھے۔ ھم نے اس بار کچھ زیادہ ھی تتلاتے ھوئے کہا۔ جانا تو اپنے گھر ھی ھے۔ یہ سنتے ھی گوری ھنسنے لگی۔ اوھ ! تو صاحب اپنے ھی گھر کا راستہ بھول گئے ہیں ۔ وہ ھمارا چیزہ لے رھی تھی۔ اور ھم بھی چس لے رھے تھے۔ اس نے ھمارے گھر کا پتہ پوچھا ۔ ھم نے یہ سوچ کر خوشی خوشی بتا دیا۔ وہ ابھی ھمارا بازو تھامے گی۔ اور خراماں خراماں ھمیں ھمارے گھر تک چھوڑ آئے گی۔ کم از کم ھمارے اپنے وطن میں تو یہی رواج ھے۔ اپنے گھر کا پتہ بتانے والا یہ کہہ دیتا ھے۔ فلاں محلے میں آ کر میرا پوچھ لینا۔ کوئ نہ کوئ تمہیں میرے گھر پہنچا دے گا۔ وہ آ کر پوچھتا ھے۔ اور پورا محلہ اپنے کام کاج چھوڑ کر گھر ڈھونڈنے میں لگ جاتا ھے۔ جی ھاں، ھم کچھ اتنے ھی ویلے اور با مروت ھیں ۔ اور پھر ساری زندگی شکووں میں گزار دیتے ہیں ۔ ھماری مروت اور ھماری وفاوں کا صلہ نہیں ملا۔ لیکن وہ گوری اتنی با مروت تھی۔ نہ اتنی ویلی تھی۔ کہ ھمارا ھاتھ تھام لیتی۔ اگرچہ ھم نے اپنا ھاتھ پہلے ھی احتیاطا اس کی جانب بڑھا دیا تھا۔ اس نے ایک نظر ھمارے بڑھے ھوئے ھاتھ کو دیکھا۔ ایک نظر سے ھماری اندرونی کمینگی جانچنے کی کوشش کی۔ لیکن وھاں تو صرف معصومیت تھی۔ اور پھر اٹھلا کر بولی۔ صاحب! میں ذرا جلدی میں ھوں ۔ شائد کوئ دوسرا تمہاری مدد کر دے۔
ھمیں راستہ بھول جانے کی عادت ھو چکی ھے۔ کئ بار ایسے ھی چلتے چلتے یا گاڑی چلاتے اچھا بھلا سیدھا راستہ چھوڑ کر ادھر ادھر مڑ جاتا ھوں ۔ یہ سوچتا ھوں ۔ تجربہ کرنے میں کیا حرج ھے۔ شائد کوئ اچھا نیا قریب کا راستہ مل جاے اور جلدی منزل پر پہنچ جاوں ۔ نئے راستوں پر چلنے کا تجسس بھی آڑے آ جاتا ھے۔ لیکن آج تک یہ تجربہ یا تجسس کامیاب نہیں ھوا۔ نہ صرف راستہ بھول جاتا ھوں ۔ منزل بھی دور ھو جاتی ھے۔ لیکن ھماری عادت اب پک گئ ھے۔ تجربوں سے باز آتے ھیں ۔ نہ راستہ بھولنے سے باز آتے ھیں ۔ پھر ھونقوں کی طرح کسی چوراھے میں کھڑے ھو جاتے ھیں ۔ منہ اٹھا اٹھا کر آتے جاتے لوگوں کی جانب دیکھتے ھیں ۔ شائد کوئ مدد کر دے۔ اور ھمیں ھمارا کھویا ھوا راستہ مل جائے۔ لیکن وھی ھوتا ھے۔ جو ھمیشہ ھوتا آیا ھے۔ ایک آدھ گوری یا گورے سے کچھ دیر مختصر سی گفتگو ھوتی ھے۔ مدد لینے دینے کے امکانات روشن ھوتے ھیں ۔ ھم گڈ ول میں ھاتھ بھی آگے بڑھا دیتے ھیں ۔ لیکن راہ گیر اپنی منزلوں کی جانب نکل جاتے ھیں ۔ کئ بار سوچا ھے۔ ھم اسی راستے پر کیوں نہیں چلتے۔ جس پر ساری دنیا چل رھی ھے۔ جو آزمودہ ھے۔ اور جو بہتر نتائج دے رھا ھے۔ یعنی منزل پر جلدی پہنچا دیتا ھے۔ لیکن ھم اپنی عادت اپنی فطرت سے مجبور ھیں ۔ تجربہ کرنے سے رہ نہیں سکتے ۔ کئ بار اپنی تحلیل نفسی کی ھے۔ یوں محسوس ہوتا ھے۔ ھمیں مدد مانگنے کی عادت پڑ چکی ھے۔ اسی لیے جان بوجھ کر راستہ بھول جاتے ھیں ۔ جبکہ ھمارے ایک کمینے دوست کا خیال ھے۔ ھمیں گوریوں اور گوروں سے اس بہانے بول چال کرنے اور اپنی ٹھرک پورا کرنے کا موقع مل جاتا ھے۔ ھم اپنی ٹھرک کے اسیر ھو چکے ھیں ۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply