محبت اور بیاہ (2)۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

( اپنی تحقیقی کتاب ” محبت ۔۔۔ تصور اور حقیقت ” سے اقتباس )
محبت کے میدان میں عورت کا کام دوہری حیثیت کا حامل ہے۔ آدمی ڈھونڈنا اور پھر اس کو رکھنا۔ صرف آدمی پا لینا تو درحقیقت اس کی ناکامی ہے، چاہے وہ اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ اکثر عورتوں میں یہ وہم جاگزیں ہے کہ آدمی پر یہ ظاہر کرنا کہ وہ اس کا بہت خیال کرتی ہے، غلط ہے۔ یہ اصل میں ایک شعوری یا لاشعوری خوف ہوتا ہے کہ اگر آدمی پر یہ واضح ہو جائے گا تو وہ اسے چھوڑ جائے گا۔ خود پہ اس قسم کے شبہات اور تنقید ہی، اپنی شکست کا اعتراف کرنے میں بالآخر مددگار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ کیفیات عموما” شعوری ہوتی ہیں لیکن وہ ان کے سامنے عیاں نہیں ہوتیں اور تحلیل نفسی سے ثابت ہوا ہے کہ خود اذیتی یعنی Masochistic رویے، اپنے آپ کو خود سے کمتر کرنے کے غماز ہوتے ہیں۔ وہ آدمی کے لیے اپنی محبت پر شبہ کرنے لگتی ہیں اور سوچ میں پڑ جاتی ہیں ۔ آیا اسی مرد کے ساتھ بیاہ کرکے وہ خوش بھی رہ پائیں گی۔ اکثر اوقات اپنے تعلق کے غیر یقینی پن کو آزمانے کے حیلے کرکے وہ مرد کو ذہنی اذیت پہنچانے کا موجب بنتی ہیں۔ عورت کے اپنے ارادے بارے اس قسم کے شکوک و شبہات بعض اوقات اس قدر سنجیدہ نوعیت اختیار کر جاتے ہیں کہ جس سے عورت آدمی کے تعلقات خطرے میں پڑ جاتے ہیں جو بالآخر شکست اور مایوسی کو جنم دیتے ہیں۔ بات بات پہ بحث ہونے لگتی ہے۔ لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔ آدمی عورت کو چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن عورت ایسی فضا بنا دیتی ہے کہ علیحدگی ہو جاتی ہے جس کا الزام عورتیں عموما” مردوں پر عائد کرتی ہیں۔
عورت اور مرد دونوں کا شادی کے بارے میں رویہ مختلف ہوتا ہے جس کی وجوہ سماجی سے زیادہ نفسیاتی ہیں۔ جب لڑکا اور لڑکی اکٹھے جینے اور مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں تو کیا انہوں نے اس پہ غور کیا ہوتا ہے کہ آیا ان کے خیالات یکساں ہیں، آیا وہ کھلی آنکھوں سے ایک ہی طرح کے خواب دیکھتے ہیں اور آیا انہوں نے اپنے خیالوں میں بیاہ کے بعد کی زندگی کو دیکھا ہے؟ شادی اور بالخصوص محبت کی شادی کا انجام ارتباط باہمی پر مبنی ہوتا ہے۔
بیاہ کا تصور عورت کے لیے فطری نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔ بیاہ اس کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے مچھلی کے لیے پانی یا مرغابی کے لیے تالاب۔ مرد کے لیے شادی ایسے ہے جیسے مرغ کے لیے تالاب یا چمگادڑ کے لیے پانی۔ مرد تو اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ عورتوں کو اپنے بیج سے بارآور کرنے کا خواہاں ہے اور بیاہ کے لیے گھٹنے تب ہی ٹیکتا ہے جب اس کے پاس کوئی متبادل راہ نہیں ہوتی اور پھر ساری عمر حیران پریشان رہتا ہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا؟ عمومی طور پر مرد جھوٹ ہی جھوٹ بولتا ہے، بچھ جاتا ہے، منت زاری کرتا ہے، صرف اس لیے کہ عورت جال میں پھنس جائے اور جب محبت کے عمل کی تکمیل ہو جاتی ہے تو وہ اگلی محبوبہ کی کھوج میں نکل پڑتا ہے۔ مرد کو اس بات کا احساس دلانا یا اس سلسلے میں برا بھلا کہنا ایسے ہی ہے جیسے پھولوں سے کہا جائے کہ وہ کھلتے کیوں ہیں اور بھنوروں سے پوچھا جائے کہ وہ ان پہ منڈلاتے کیوں ہیں۔ عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ مرد جلد از جلد اس کے ساتھ بیاہ کے بندھن میں بندھ جائے اور مرد کی کوشش ہوتی ہے کہ بیاہ سے جتنی دیر بچ سکتا ہے، بچا رہے۔ شادی مردوں کے لیے عموما” روح کی موت، مردانگی کی شکست اور ہار ہوتی ہے۔ شادی شدہ مرد ماضی بن جاتا ہے جبکہ مستقبل تو ہوتا ہی کنوارے مرد کا ہے۔ لگتا ہے کوئی ناقابل مدافعت قوت آدمی کو یہ پھندہ گلے میں ڈالنے پر مجبور کر رہی ہوتی ہے کیونکہ جنسی خواہش کا شادی سے کوئی بھی نامیاتی تعلق نہیں ہے۔ شادی تمدن کا پہنایا ہوا جوا ہے جو کچھ مظاہر کے تحت انسانی سماج کے ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ ایسے معاشرے جہاں عفت کے کوئی معانی نہیں ہوتے تھے وہاں بیاہ کا تصور تک نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ شادی بنیادی طور پر مرد کی جبلت کے خلاف عمل ہے اور اس کے لیے آدمی کو اپنے اندر بہت لڑنا پڑتا ہے۔ قدیم معاشروں میں باقی سماجی اور قانونی نکات کی طرح بیاہ کو بھی مرد نے ہی رائج کیا تھا مگر اپنی فطرت میں مرد شادی سے گھبراتا ہے بلکہ ڈرتا ہے۔
آدمی جب تک جوان ہوتا ہے وہ آزاد رہنا چاہتا ہے۔ وہ ایک جگہ ٹک کر نہیں رہنا چاہتا، وہ کسی کام کے ساتھ بندھنا نہیں چاہتا۔ نہ ہی اسے کنبے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اسے رازق ہونے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ دنیا میں گھومنا چاہتا ہے، زندگی اور عورتوں دونوں ہی کو فتح کرنا چاہتا ہے۔ وہ بے چین ہوتا ہے اور اس کے لیے خوشی کا مطلب بھی یہ ہوتا ہے کہ وہ نئی نئی چیزیں دیکھے، نئے نئے ملکوں میں جائے اور نئی نئی عورتوں سے متمتع ہو۔ اگر وہ بیوی بچوں کا جھنجھٹ سہیڑ لے تو وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔ مہم جو، سیاح، فوجی ، سبھی وہ لوگ جو ہمت حوصلے والے کام کرتے ہیں، انہوں نے اپنے جوش اور جنوں سے بیاہ کیا ہوتا ہے۔ بیوی بچوں والا شخص مہم جو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر اسے کچھ ہو گیا تو بیوی بچوں کا کیا بنے گا؟ بیاہ کا مطلب ہے اپنی خوشیوں سے منہ موڑ لینا۔ بیاہ مرد کے لیے “محبوبہ ” کا حصول بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ فرائض اور ذمہ داریاں، مشقت اور مجبوریاں سبھی بندھی ہوئی ہوتی ہیں۔ شادی کے بعد اسے اپنے علاوہ باقی کنبے کے لیے بھی کمانا پڑتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اسے مزید محنت، مزید عیاری اور مزید شاطر رویہ اپنانا ہوگا اور مزید خطرات مول لینے پڑیں گے کیونکہ اس کی پوری کی پوری پرورش اس کی فطرت کے برعکس اسے سکھاتی ہے کہ فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ہونا چاہیے۔ پس جب لڑکیاں شادی کا تصور کرتی ہیں تو وہ خوف زدہ نہیں ہوتیں کیونکہ وہ اس کو اپنی منزل سمجھتی ہیں مگر مرد ڈرا ہوتا ہے۔ بادی النظر میں یہ خوف بے بنیاد اور بے معنی سا لگتا ہے۔ اس طرح جس طرح عورت کا چوہیا سے خوف کھانا بے بنیاد ہوتا ہے۔ آدمی صرف شادی سے ہی نہیں ڈرتا بلکہ پولیس والے کی تعظیم بھی اس کے خوف کی ایک کڑی ہے اور انکم ٹیکس والوں کے بھی رعب کا ڈر جو عورتوں کو عجیب لگتا ہے کہ شادی اور سرکاری اہل کاروں سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ پولیس والا آدمی کے ذہن میں قانون کی تجسیم ہوتا ہے مگر عورت کے لیے وہ محض باوردی شخص، جو اس کی ایک مسکراہٹ سے خوش ہو سکتا ہے۔ چیزوں کے بارے میں اسی طرح مردوں اور عورتوں کے رویے مختلف ہوتے ہیں۔ عورت کے لیے بیاہ ایک حق کے مترادف ہوتا ہے جو اسے معاشرے اور رسوم و رواج نے تفویض کیا ہوا ہے۔ مرد کے لیے شادی ذمہ داری ، فرض اور مجبوری سے بندھی ہے۔ یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ عورت کے لیے فرض کا مطلب ہے ایسا فعل یا عمل جو سماج نے آپ پر عائد کیا ہوا ہے اور مرد کے لیے فرض بنت حوا کا فرمان اور مطالبات۔ عورتیں فریضے کی ادائیگی اس لیے کرتی ہیں کہ وہ یہ کرنا چاہتی ہیں اور مرد فرض کو سماجی دباؤ کے تحت سرانجام دیتا ہے یا اس طرح کہہ لیں کہ مرد اپنے فرائض گھر کے بااختیار شخص ہونے کے ناطے پورے کرتا ہے اور عورت اس لیے اپنے فریضے سرانجام دیتی ہے کہ انہیں پورا کرنے کی اسے خواہش ہوتی ہے۔ ذمہ داری کا شدید احساس یا شادی کے بعد کے مسائل کا پیشگی علم اسے شادی سے خوف زدہ کرتا ہے۔ فتح کی ہوس، مہم جوئی کا جذبہ، آزادی سے پیار اور جنسی عدم استحکام مرد کو شادی سے جی چرانے کی راہ سجھاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ احساس انتہائی ذمہ دار مردوں میں ہی ہوتا ہو بلکہ بیکار اور نکھٹو مرد بھی اس احساس سے بچ نہیں پاتے۔ ہمارا نہیں خیال کہ عورت مرد کے احساس ذمہ داری کا صحیح اندازہ کر پاتی ہو، وگرنہ اسے مرد کا بیاہ سے جی چرانا اچنبھا نہ لگتا۔ اگر مرد اپنی خود غرضی، انانیت پسندی یا عدم سنجیدگی کی بنیاد پر شادی نہیں کرنا چاہتا تو اسے مورد الزام ٹھہرانا قدرے سہل ٹھہرتا ہے۔ شادی کے جھنجھٹ سے آزاد رہنے والے مردوں کے تکبر میں بھی اس خوف اور پریشانی کا پرتو ہوتا ہے جو وہ غیر مجرد زندگی کی ذمہ داریوں کو نہ اٹھانے کی پاداش میں بھگت رہے ہوتے ہیں۔ وہ مرد جو عورت پر ہر طرح کی تنقید کرتے ہیں اور انہیں گمان ہوتا ہے کہ وہ عورت کے نقائص سے باخبر ہیں، اس پہلی لڑکی کا شکار ہو جاتے ہیں جو اپنے اڑائے گئے ٹھٹھے کو درخور اعتنا نہیں سمجھتی کیونکہ وہ لڑکی جانتی ہے کہ ایسا مرد باوجود اپنے اس نوع کے تصورات کے اس کا پورا خیال رکھ سکے گا۔ اس کے برعکس عورت کے بعد عورت کے پیچھے بھاگنے والا شخص بھی ایک خاص عورت ملنے کی امید پر ہی ایسا کر رہا ہوتا ہے جو اس کی تمام خواہشات پر پوری اتر سکے۔ اس مرد کو یوں لگتا ہے کہ وہ مہم جو ہے، کھلاڑی ہے اور اسے عیش پسند ہے مگر اس کی اصل خواہش ہوتی ہے کہ آرزوئیں پوری ہوں، اس کی تلملاہٹ دور ہو اور اسے سکون میسر ہو۔ جو وہ کہتا ہے وہ اہم نہیں ہوتا بلکہ جو وہ نہیں کہتا یا کہہ نہیں پاتا، وہی زیادہ اہم ہوتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply