کوہِ ندا کی پکار۔۔۔۔۔۔مونا شہزاد

(دنیا میں گم مسافروں کے لئے ایک پیغام,ایک تمثیلی کہانی )

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے اس بوڑھی عورت کو خالی اسٹیشن پر اکیلے بیٹھے دیکھا، میں روز وہاں سے گزرتی اور روز اس کو تنہا بیٹھے دیکھتی، ایک روز میں اس کے پاس بیٹھ گئی اور بولی :
ماں کس کو ڈھونڈتی ہو؟
وہ لفظ “ماں ” سن کر چونکی اور بولی :
تم نے مجھے “ماں”کہا ،کیا کوہ ندا نے ابھی تمھیں نہیں نگلا؟
میں رو پڑی اور بولی :
ہائے کوہ ندا نے مجھے کب کا نگل چکا ، اب تو میرے پیروں میں آکاس بیلیں اگ گئی ہیں، میرے ہونٹوں پر پتوں کے پہرے ہیں، میں اب پا بہ  زنجیر ہوں ۔میری روح چیختی ہے مگر میں کچھ کر نہیں سکتی۔”
وہ بوڑھی عورت ہنس پڑی اور بولی:
“ابھی تازہ تازہ کسی کو کھو کر آئی ہو اور کسی کے کھو جانے کے غم سے لرزاں ہو، کسی کی منتظر آنکھیں پیچھے چھوڑ آئی ہو، زندگی کی ریس میں دوڑنے والے اکثر آہستہ چلنے والوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ۔”
میں بے تحاشا  ہنسی ،میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔میں بولی۔۔۔
“میں نے تو اطاعت کی تسبیح پڑھی ہے ،ہائے مجھے “عشق ” نے مارا ، اس کے عشق نے ایسا دیوانہ بنایا کہ ہوش نہیں رہا ، مگر میں نے اس کے توسط سے “رب “کو پا لیا، میں تو ریس میں بھاگ ہی نہیں سکی، مجھے تو “احساس” نے دیوانہ بنا دیا ہے، “آگاہی ” کا کوڑا مجھے دن رات زخمی کر رہا ہے، میں ننگے پیر سلگتے کوئلوں پر چل رہی ہوں۔ کوہ ندا تو بالکل معصوم ہے ایک بچے جیسا، یہ تو کسی کو دعوت نہیں دیتا،اس کی ندا تو ایک تنبیہہ ہے کہ
ابن آدم سوچ سمجھ کر مجھ میں قدم رکھنا۔۔۔
یہ تو ابن آدم ہے جو دیوانہ وار اس کی ندا پر لبیک کہتا آتا ہے۔”
وہ حیرت سے بولی:
“کوہ ندا کے باسی تو احساس سے عاری ہوجاتے ہیں، اسی لئے تو خوش رہتے ہیں، اپنے پیروں میں گرنے والوں کو مسلتے، کچلتے بس آگے کی طرف سفر کرتے ہیں ۔تو ان شیشہ گروں کے بیچ کیا کررہی ہے؟
میں بے اختیار تڑپ تڑپ کر روئی اور بولی:
“پتا ہے کوہ ندا کے اختتام پر کیا ہے؟
وہ اداسی سے سر ہلا کر بولی :
“پتا نہیں کیا ہے؟ میرے بچے گئے تو پھر لوٹے نہیں ۔”
میں نے آہستہ سے کہا :
کوہ ندا پھر” بند” ہے ایک پتھریلے موڑ کے بعد آگے کچھ نہیں ہے۔”
بوڑھی عورت کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا،وہ بے تابی سے بولی:۔
“تجھے کیسے پتا ہے؟ کیا تو ساحرہ ہے ؟
میں ہنسی اور بولی:
“کوہ ندا صرف دور دیسوں میں نہیں ہوتے ،یہ ہر جگہ،ہر زمانے میں موجود ہیں ۔جب لوگوں کے احساسات ٹھٹھر جائیں، ان کو تہمتیں لگانے کی عادت ہوجائے،جب رشتے بوجھ بن جائیں، جب آنکھوں میں محبتوں کے بجائے نفرت کے شرارے کوندنے لگیں تو پھر ایسے لوگ کوہ ندا کے باسی ہوجاتے ہیں۔کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو الفت کے تقاضے نبھاتے نبھاتے اس کے مکین ہوجاتے ہیں، یہاں ہر قسم کا انسان ہے مردم گزیدہ، محبت گزیدہ یہاں چارہ گر بھی رہتے ہیں ۔یہاں عشق نبھانے والے بھی ہیں اور عشق کو طوق سمجھنے والے بھی ہیں ۔یہاں چیخنے والے بھی ہیں اور لبوں کو قفل لگائے ،خاموشی کی چادر اوڑھنے والے بھی ہیں ۔کوہ ندا کے باسیوں میں بہت نیرنگی ہے۔”
میں نے اس بوڑھی عورت کا ہاتھ پکڑا اور کہا:
“کوہ ندا کے اندر کا حال کچھ ایسا ہے جیسا میری دادی مجھے بچپن میں ایک کہانی سناتی تھیں کہ شہزادہ ایک انمول رتن لینے ایک جادوگری میں گیا، وہاں طرح طرح کی آوازوں کا شور تھا، مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہوجاتا ،وہاں بے شمار پتھروں کے مجسمے تھے ،مگر شہزادہ صرف شہزادی کے بارے میں سوچتا چلتا گیا اور انمول رتن لے کر پلٹا ،تو جادو نگری کا جادو ٹوٹ چکا تھا اور تمام پتھروں کے مجسمے گوشت پوست کے انسان بن چکے تھے۔”
میں سانس لینے کو رکی اور بولئ:
“ماں ! میں وہ انمول رتن ڈھونڈنے والوں میں سے ہوں،اس سفر میں اگر میرے پیروں پر آکاس بیلیں اگ آئیں ہیں اور لبوں پر پتوں کا پہرہ ہے تب بھی انمول رتن تو میں ڈھونڈ کر رہونگی۔”
بوڑھی عورت کی آنکھوں میں روشنی آگئی، اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی:
“سدا سہاگن رہو ،سکھی رہو۔”
بوڑھی عورت اپنے گھر کی طرف چل پڑئی اب میں تنہا اسٹیشن پر بیٹھی تھی۔دور ٹرین کی گڑگڑاہٹ گونج رہی تھی، شاید میری ٹرین آنے والی تھی

Facebook Comments

Munnaza S
میرا نام مونا شہزاد ہے، میں کالج کے زمانے سے لکھتی تھی،1994 میں بی اے کے دوران قومی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا،جو گاہے بگاہے چلتا رہا۔2001 میں شادی کے بعد کینیڈا آنے سے سلسلہ رک گیا۔میں زندگی کی مصروفیات میں گم ہوگئی،زینب کے سانحے نے مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کیامیں نے قلم سے رشتہ استوار کیا۔اب میری تحریریں تمام بڑے آن لائن پلیٹ فارمز،آن لائن رسالوں، دیگر رسالوں اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply