بچت کی مختلف اقسام ہیں۔
اگر آخرت پر یقین رکھتے ہیں تو وہ مال و دولت جو دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کیا گیا وہ آپ کی اصل بچت ہے لیکن یاد رہے اس میں بھی میانہ روی کی تلقین ہے۔
بچت کرنے کے چند بہترین اصول درج ذیل ہیں:-
1۔ ضرورت و خواہش میں فرق کرنا سیکھ جائیں تو آپ امیر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ۔
2۔ گھریلو ضرورت کی اشیاء کپڑوں یا اشیاء خوردنی کی فہرست بنا کر شاپنگ کریں اور فہرست کے علاوہ کوئی چیز نہ خریدیں چاہے کتنی بڑی و پرکشش آفر کیوں نہ ہو اس پر۔
3۔ کوشش کیجئے کہ میعاری صحت بخش صاف ستھرا گھر کا بنا ہوا تازہ کھانا کھائیں تا کہ باہر کے کھانے پر صرف ہونے والے زائد پیسوں کی اور ساتھ کے ساتھ صحت کی بچت ہو اس طرح ڈاکٹر کی فیس اور ادویات پر خرچ ہونے والی رقم بھی بچے گی۔
4۔ سمارٹ سرمایہ کاری کی مختلف اقسام بھی آپ کو بچت کا سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ جیسے کے گنجائش ہو تو گھر کی ٹیوب لائٹس کی جگہ ایل ای ڈی بلب اور عام بجلی کی مصنوعات کو کم بجلی پر چلنے والی مصنوعات سے تبدیل کرنا اور اگر جیب اجازت دیتی ہو تو گھر کا برقی نظام شمسی توانائی / سولر انرجی پر منتقل کرنا جس سے زائد حاصل ہونے والی برقی توانائی اب واپڈا کو فروخت بھی کی جا سکتی ہے۔ یعنی بچت و منافع ساتھ ساتھ۔
5۔ ممکن ہو تو گندم، چاول اور چینی سیزن میں سال بھر کی ضرورت کے مطابق خرید کر رکھ لیجیے۔ سیزن میں یہ چیزیں سستی ہوتی ہیں اور اکٹھی لینے سے بچت کے ساتھ ساتھ برکت بھی ہوتی ہے اور ان چیزوں کے مصنوعی یا حقیقی بحران کی صورت میں پریشانی بھی نہیں ہوتی۔
6۔ انگریزی کا معروف جملہ ہے sharing is caring آپ بھی اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میرے پانچ دوستوں نے سالہا سال پہلے مل کر ایک لاء فرم بنائی۔ پانچوں کے پاس کاریں تھیں۔ وہ صبح آفس اپنی اپنی کار پر آتے اور پھر عام طور پر ایک یا دو کاریں دن بھر میں کہیں آنے جانے کے لئے استعمال ہوتیں اور باقی کھڑی رہتیں۔ انہوں نے مل کر سوچا کہ آفس کلرک تو موجود ہی ہے اور ہم بخوبی دو کاروں کے ساتھ مل جل کر دن بھر کی مصروفیات بھی سرانجام دے لیتے ہیں تو انہوں نے آفس کلرک کی تربیت کر کے لاء فرم کے ساتھ ہی رینٹ اے کار کا کام شروع کر دیا اس طرح تین گاڑیاں جو سارا دن بیکار کھڑی رہتی تھیں ان کے کرایہ پر چلنے سے نہ صرف پانچوں گاڑیوں کی دیکھ بھال اور پٹرول کا خرچ نکلنے لگا بلکہ اضافی آمدنی کی صورت میں اتنی بچت ہوئی کہ دو سال میں انہوں نے رینٹ اے کار کے کام کی بچت سے تین مزید گاڑیاں بھی خرید کر کام میں شامل کر لی تھیں۔
7۔ دوسروں کے کام آنا بھی بچت کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک فیملی کے بچے دو مختلف سکولوں میں پڑھتے تھے۔ دو بچے اسی سکول میں تھے جس میں ہمارا بیٹا پڑھ رہا تھا۔ تو میری بیگم بیٹے کو سکول چھوڑنے جاتیں تو ان دو بچوں کو بھی ساتھ لے جاتیں اور واپس لے آتیں جس پر ہمارا کوئی خرچہ نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کسی ایمرجنسی کی وجہ سے ہمیں کہیں جانا پڑتا تو اس فیملی کو فون پر ہی اطلاع کر دینے سے وہ ہمارے بچے کو بھی اپنے بچوں ساتھ اسکول سے واپس لے آتے، اسے کھانا وغیرہ کھلاتے اس کا خیال رکھتے اور جو ایمرجنسی بھاگ دوڑ بچے کے سکول کی چھٹی کی صورت میں ہمیں رکشوں وغیرہ پر (پڑوس کی اس فیملی کے نہ ہونے کی صورت میں) کرنا پڑتی اس کی بچت ہو جاتی۔
8۔ اپنا پہناوا سادہ لیکن پر وقار رکھیں۔ خوشبو بندے کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ شاید ارسطو سے منسوب ہے کہ قیمتی پوشاک میں ایک نوجوان کو دیکھ کر اسے کہا کہ میاں کچھ بولو تو تمھاری شخصیت کا پتا لگے۔
9۔ گھر کے استعمال کی چیزیں پائیدار خریدیں۔ پرانا محاورہ ہے “مہنگا روئے ایک بار، سستا روئے بار بار”۔ گھر کی چیزیں روز روز نہیں بنتیں۔ صلاح مشورے اور مارکیٹ کے سروے کے بعد پائیدار چیز خریدیں۔ “اونچی دکان پھیکا پکوان” سے بھی بچیں۔
10۔ صدقہ باقاعدگی سے دیتے رہنا بہت بڑی بچت ہے۔ میرے چیمبر میں ایل ایل ایم کرنے والی ایک بیٹیا عدالتی نظام کی سدھ بدھ لینے یا یوں کہہ لیجئے قانون کا عملی کام سیکھنے کے لئے آیا کرتی تھیں۔ میں وضو کر کے نماز کے لئے جائے نماز بچھانے لگا تو میری جیب سے میری عینک نکل کر گری اور ٹوٹ گئی۔ اس بیٹی نے بہت پیاری بات کہی، “بھائی جان! عینک ٹوٹنے کا ملال نہ کیجئے گا، اللہ کریم نے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ہو گا”۔ اسی طرح صدقہ بڑے نقصانات، آفات و بلیات و بیماریوں کے خلاف ڈھال ہے اور ہماری “بچت” کا ایک اہم ستون بھی۔
سلامتیاں، ڈھیروں پیار اور محبت بھری پرخلوص دعائیں۔
دعا گو، طالب دعا شاہد محمود ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں