کراچی آرٹس کونسل میں دو دن(دوسرا،آخری حصّہ) ۔۔جاویدخان

اس رعایت میں رضوان صاحب کاپوراپورا کردار تھا۔میں ایک تنہا ئی پسند شخص ہوں۔ورنہ سردار جنت صاحب جو برسوں سے کراچی کے ہوکررہ گئے ہیں۔کراچی ٹریڈ یونین کے کوآرڈی نیٹر ہیں۔میرے لیے رہائش کابندوبست کرچکے تھے۔علاوہ آزادکشمیر ضلع سدھنوتی کے ایک ڈاکٹر صاحب کو جب یہ معلوم ہواکہ انجمن ترقی پسند مصنفین نے اس بار راولاکوٹ کے ایک نوجوان کو ایو ارڈ دے رہی ہے تو انھوں اپنے گھر کے دروازے میر ے کھول دیے ۔ہمارے ہاں ایک پہاڑی ضرب المثل ہے۔‘‘چڑیا کانڈیر یے سکھ دا۔’’ مراد چڑیا کوکانٹوں جیسی چھبن والے گھونسلے میں ہی راحت ہوتی ہے۔کمرے میں پہنچاتو پہلے نہایا دھویا۔بقایا نمازیں پڑھیں اَورپھر جنت صاحب کو کراچی خریت سے پہنچ جانے کی اطلاع دی۔ ایسی ہی خیر خیریت بھائیوں ،ذہین اور ذوہیب صاحب کو دی ۔تقریب ایک دن بعد ہوناتھی۔رات کافی آگے آچکی تھی۔بستر پر دراز ہوا تو فوراً ہی نیند کی وادی میں جاپہنچا۔صبح اٹھا فروری میں کشمیر میں خصوصاً راولاکوٹ میں سخت سردی ہوتی ہے۔مگر کراچی کے اس ہوٹل میں میرا پنکھا تھکی تھکی چال سے ساری رات گھومتارہا۔صبح اٹھ کرشاور چلایا تو پانی گرم تھا۔جی بھر کرنہایا۔نماز پڑھی ناشتاکرنے باہر آیا تو معلوم ہوا۔اس صبح کراچی کے چاے خانوں پر غریب پروری رخصت ہو چکی ہے۔اس کی جگہ نئے پاکستان کی فضا نے پوری طرح قبضہ کر رکھاتھا۔معلوم نہیں یہ اَداء مہمان نوازی تھی یا نئے پاکستان کاکنکریٹ سے لدا،دُھول میں لتھڑا نیاکراچی ۔چائے کاایک کپ 45 روپے میں مل رہا تھا۔ناشتاکرکے ہوٹل واپس آیا تو کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔سفیدشلوار قمیض میں چہرے اَور حلیے میں ساری سادگیاں لیے ایک شخص اَندر داخل ہوا۔ میں حیرت اَور خوش آمدیدی رویوں کے درمیان ہی پھنسا تھاکہ خود بولے میں ہی سردار جنت ہوں۔جنت صاحب سے میرااتعارف بس فون پر تھا۔کراچی روانگی کے وقت سے وہ مسلسل رابطے میں تھے۔اَصل وہ کھائی گلہ (راولاکوٹ )کے رہنے والے ہیں۔مگر زندگی کابیشترحصہ کراچی میں گزاردیا۔گپ شپ ہوئی۔حال اَحوال ہوا۔پھر طے ہواکہ ہم دن ڈھلے ملیں گے۔اَور جتنا ممکن ہو اکراچی دیکھ لیتے ہیں۔کوئی ایک بجے ہم مقبرہ جناح پہنچے ۔اَب مہمان نوازی اَور میزبانی کاساراٹھیکہ جنت صاحب نے لے رکھاتھا۔جو میری واپسی تک جاری رہا۔ٹکٹ ،دَوران سفر کرایہ ،کھانا،چائے ۔۔۔۔جب بھی جیب میں ہاتھ ڈالتا جنت صاحب ہاتھ پکڑ لیتے۔مقبرہ جناح ایک خوب صورت مقام ہے۔یہ کسی بھی طرح کنکریٹ اوَر دُھول سے لھتڑے کراچی کاحصہ نہیں لگتا۔جنت صاحب خودگیٹ کے باہر رہے اَور مجھے اندر بھیج دیا۔میرے ہاتھ میں کتابوں کاایک بیگ تھا۔جو میں نے اُردو بازار سے خریدی تھیں۔جنت صاحب نے میرے ہاتھ سے وقتی طور پر وہ بھی لے لیں۔یوں میں آزاد ہاتھوں کے ساتھ حضرت باباجناح ؒ کے مزار اَور احاطے میں گھومتارہا۔جناح میوزیم میں تصاویر آویزاں ہیں جو آزادی برصغیر کی پوری تصویری تاریخ ہے۔یہی پر جناح صاحب کے زیراِستعمال کاریں بھی موجود ہیں۔جو باباصاحب کے عالی زو ق اَور صاحب ثروت ہونے کی نشان دہی کرتی ہیں۔واپس ہواتو ہم دونوں نے میری خواہش کے مطابق اُردُو بازار کارُخ کیا۔کراچی اُردُو بازار کے واحد کتب خانے ،جو تمام اُردو کتابوں کے ‘‘مرکز’’ ہونے کادعوے دار تھا۔سے حضرت اِبن عربی ؒکی دوکتابیں ‘‘فصوص الحکم ’’ اَور ‘‘فتوحات مکیہ’’خریدیں ۔یاں میری کتاب ‘‘عظیم ہمالیہ کے حضور ’’ اَبھی اَبھی ختم ہوئی تھی۔لہٰذامجھے اپنے لیے کوئی نسخہ نہ مل سکا۔جو تقریب مَیں کسی دوست کو پیش کرتا۔جنت صاحب نے مجھے اُردو بازار کے تمام پیبلیشروں سے متعارف کروایا۔
ان تعارفی ملاقاتوں کے دَوران مغرب قریب آنے لگی ۔ہم دونوں نے اُردو بازار چھوڑنے کافیصلہ کیا اَور سیدھے آرٹس کونسل کراچی کی عمارت میں جاپہنچے جہاں اَگلے دن تقریب ہوناتھی۔یہاں گہماگہمی تھی۔لوگ آجارہے تھے۔کونسل کی عمارت ،گورنر ہاوس سندھ کے بغل میں واقع ہے۔اس بغلی قربت کو ایک مصروف شاہرہ دُوری میں بدلنے کے لیے پوری طرح جدوجہد کرتی رہتی ہے۔اتنے میں جنت صاحب ایک اَور تنظیمی دوست عالم اَیوب صاحب پہنچ گئے۔عالم اَیوب صاحب مارواڑی ہیں۔عمارت گری آبائی پیشہ ہے ۔کہتے ہیں تاج محل اُن کے پرکھوں نے بنایاتھا۔آرٹس کونسل کے اَحاطے میں ہی ایک مصروف کنٹین ہے۔جہاں اَدیب اَدب اَور سیاسی ورکر سیاست چاے کی چسکیوں میں گھول گھول کر پیتے رہتے ہیں۔عشا کے بعد ایک بلند وبالاعمارت جو لب سڑک تھی کے سامنے جارُکے۔اس عمارت میں ‘‘ایرانی ہوٹل ’’تھا۔جو غالباًایران کے ثقافتی کھانے اپنے ہاں آنے والوں کوپیش کرتاہے۔کروناوباکی وجہ اس کے ہال بندتھے۔چناں چہ ہمیں آخری منزل کی چھت پر جاناپڑا۔ماحول خواب ناک تھا۔نیم اندھیرا،دھندلی دھندلی روشنی ،دبی دبی موسیقی ۔ہم تین لوگوں نے پُرتکلف کھاناتناول کیا۔کچھ دیر بیٹھے رہے۔پھر چائے کے لیے کسی چاے خانے کی تلاش میں اُتر آئے۔چائے اُس چائے خانے پرپیناتجویز ہوئی ۔جو ہوٹل ‘‘المصطفی ٰ ’’ کے نزدیک ہو۔تاکہ مجھے ہوٹل تک پہنچانے میں میز بانوں کو کوئی دقت نہ ہو۔چاے کے بعد چہل قدمی کرتے کرتے ہوٹل المصطفی ٰکے گیٹ پر آئے۔میزبان کمرے تک ساتھ جاناچاہتے تھے۔میں نے گیٹ پر ہی بااصرار الوداع کہا۔اس وعدے پر کہ کل ٹھیک نوبجے آرٹس کونسل میں ملاقات ہوگی۔اگلی صبح کیمرے اور ایک نوٹ بک کے ساتھ آرٹس کونسل کی طرف پید ل چل دیا۔پہنچاتو جنت صاحب اَور ان کے ساتھی میر اانتظار کررہے تھے۔آرٹس کونسل کے کئی ہال ہیں۔بڑے ہال کاایک صرف گھنٹے کاکرایہ ساٹھ ہزار ہے۔جنت صاحب کی راہ نمائی میں ہال میں داخل ہوئے۔میز بانوں کو بہ جائے زرق برق لباس کے سواے ایک آدھ، باقی سب سادہ کپڑوں ،شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔
پوچھاہمارے میز بانوں میں ڈاکٹر خادم منگی کدھر ملیں گے۔تب ایک درمیا نے قد اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک ،سادہ کپڑوں میں ملبوس پروفیسر ڈاکٹر خادم منگی بازو پھیلا ئے سامنے آ گئے۔بولے میں ہوں ڈاکٹر خادم منگی ۔۔۔ٰ!ڈاکٹر صاحب انجمن سندھ کے جنرل سیکریڑی ہیں ا؂؂؂؂؂؂؂؂؂ ور ِانتہائی متحرک ہیں۔ملنسار ،صاحب مطالعہ اَور طعبیت کے درویش ہیں۔اَپنے پیشے اَور کام کے ماہر ڈاکٹر خادم منگی کو دیکھ کر نہیں لگتاکے وہ شعبہ طب پروفیسر ڈاکٹر ہونے کے علاوہ ملک کے بڑے اَدب نواز حلقے کے کرتادھرتاہیں۔گفتگو پر کھلتے ہیں ۔ورنہ خاموش اور منکسرالمزاج رہتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے انجمن سندھ کے صدرمحترم ریاض شاہد دایو سے ملوایا۔اس کے بعد محترم راحت سعید صاحب سے ۔راحت سعید صاحب انجمن ترقی پسند مصنفین کے سابق صدر رہ چکے ہیں۔جناب راحت سعید صاحب ڈیل ڈول کے آدمی ہیں۔ہنس مکھ ہیں۔قہقہ لگائے بغیر نہیں رہ سکتے ۔مجھے خوش آمدیدکہتے ہوئے پوچھا۔جاویدیہ سفر نامہ مس از نے لکھا ہے یاخود آپ نے۔۔۔؟ اور قہقہ مارے ہوئے دھرے ہوگئے۔کہاحضرت ہمارے ہاں ایسی نیکیا ں کرنے کارواج کبھی نہیں رہا۔راحت صاحب نے پتلوں میں ہاتھ ڈالے ڈالے ہال کی چھت کی طرف دیکھا قہقہہ لگایااَور وہ اَداے خاص سے دھرے ہوگئے۔پھر بولے ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔پروگرام نو حصوں میں تقسیم تھا۔پہلاحصہ شاعربے بدل محترم فہمید ہ ریاض کی یاد میں مقالے پڑھے جانے تھے۔دُوسرا حصہ نوجوان سندھی ناول نگار منظور تھیہم کے ناول ‘‘منچھر ’’ پرمکالے پیش کیے جانے تھے۔پھر منچھر جھیل پر پانچ منٹ کی ڈاکومنٹری پیش کی گئی۔منچھر سندھ کی خوبصورت آب گاہ تھی۔کبھی یہ جھیل اُجلاپانی لیے سندھ دھرتی کے سینے پر معصوم بچے کی طرح اُجلی آبی کلکاریا ں کرتی تھی۔مچھیروں کے خاندان اس جھیل میں کشتیو ں پر ہی رہتے تھے۔یہ کشتیا ں ہی ان کاگھر تھیں۔یہ آب گاہ ان کاگھر بھی تھااَور روزی روٹی کی جا ہ بھی۔مشرف دَور میں آبادی کی نکاسی کے لیے گٹر پائپ لائن بچھانے کامنصوبہ سامنے آیاتو اس کاسروے سندھ کے جاگیر داروں کی زمین سے گزرتاتھا۔جاگیرداروں نے نقشہ گروں سے مل کر اس کارخ تبدیل کروادیا۔اَور یوں یہ گٹر لائن منچھر جھیل میں ڈال دی گئی۔ یہاں سے اس جھیل کے برے دن شروع ہوے۔یہ گدلی اَور ،میلی اَور پھر گندی ہوتی گئی۔پانی گٹر زدہ ہوگیا۔مچھلیا ں مرگئیں۔آبی پودے مرگئے۔مچھیروں کے خاندان بیمار ہو کرمرنے لگے۔نہ کسی ماحولیا تی تحفظ کی ذمہ دار تنظیم نے اس طرف توجہ کی نہ حکومت نے نہ ہی کسی عالمی نشریاتی ادارے نے اس طرف توجہ کی نہ حکومت نے اورنہ ہی کسی عالمی نشریاتی اَدارے نے۔یوں یہ جھیل قسطوں میں قتل ہوئی ۔منظور تھیہم کاناول یہی پس منظر لیے ہوئے ہے۔
تیسر اپروگرام 11:00بجے سے 12:00 تک تھا۔محترم نورالھدی ٰاور محترم شیام کمار کولائف اَچیو منٹ اَیوارڈ دیے گئے۔اسی دَوران فہمیدہ ریاض صاحبہ کی بیٹی ڈاکٹر ویرتااُجن کویادگاری شیلڈ دی گئی۔چوتھاحصہ کتابوں پر ایو ارڈ دیاجاناتھا۔سٹیج سکریٹری ڈاکٹر خادم منگی تھے۔اُنھوں نے کہاکل 100 کے قریب کتابیں مقابلے میں تھیں۔یہ ایوارڈ صرف اَول آنے والوں کو دیاجارہاہے۔دوم اَورسوم آنے والوں کو اس تقریب میں نہیں بلایاگیا۔سب سے آخر میں مجھے اَیو ارڈ دیاگیا۔مجھے گفتگو کے لیے پانچ منٹ دیے گے۔سٹیج پر بلانے سے قبل میراتعارف کرایاگیا۔کہ میں دُور ہمالہ سے آیاہوں۔ڈاکٹر خادم منگی اَور جناب ڈاکٹر اَویس قرنی (ڈین پشاور یونی ورسٹی )نے کہاکہ میں اِختصاراً بیان کروں کے میرے سفرنامے میں کیاکہاگیاہے۔؟چھٹے حصے میں محترمہ فہمید ہ ریاض صاحبہ پر مکالے پیش کیے گئے۔
ساتویں حصے میں بیرون ملک سے مقررین کاآئن لائن خطاب تھا۔جن میں ڈاکٹر ویرتااُجن صرف پاکستان سے تھیں۔محترمہ وی این راؤ نے بھارت سے آئن لائن خطاب کیا۔ڈاکٹر نور سجادظہیر آج کل لندن میں ہوتی ہیں۔اُن کاخطاب نہ ہوسکا۔ڈاکٹر ویرتانے کہاکہ ان کی ماں کو موجودہ پاکستانی حکومت نے اَیو ارڈ کے لیے نامزدکیا۔مگر اُنھوں نے لینے سے انکار کر دیا۔کیوں کہ انھیں ضیاء دَور میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔اَور وہ جان بچاکر بہ مشکل اِنڈیاپہنچ سکی تھیں۔سیمینار کے مہمانان میں محترم اِنیس ہارون،محترم مہتاب اَکبر راشدی ،محترم ڈاکٹر فاطمہ حسن ،محترم مجاہد بریلوی،محترم احمدشاہ (چیرمین آرٹس کونسل )محترم ڈاکٹر بدرجان چیرمین انجمن ترقی پسند مصنفین آل پاکستان تھے۔آئن لائن سپیکرز میں مزید محترم ڈاکٹر علی جاوید ،محترم جاوید نقوی اَور محترمہ فرحت رضوی شامل تھے۔وی این راو نے کہاکہ فہمیدہ ریاض کو پاکستان میں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ حق دار تھیں۔ڈاکٹر ویرتااُجن نے مزید بتایا کہ ان کی ماں کو باغٖیانہ فکر کے نتیجے میں کیا کیا مشکلات اٹھانا پڑی۔انھوں نے کبھی بھی اپنے نظریات اَپنی اَولاد پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔اَپنے اکلوتے بیٹے کی حادثاتی موت نے فہمیدہ ریاض جیسی حساس شاعرہ کو توڑ کر رکھ دیاتھا۔شاعرہ پر کچھ مقالہ نگار مقالہ پڑھتے ہوئے آب دیدہ ہوگئے۔یوں ماحول پر ایک افسردگی سی چھاگئی جو کافی دیر تک رہی۔
آٹھویں دَور میں کھانے کاوقفہ تھا۔کھانے میں چاول مرغ کاگوشت ،رائتہ ،سلاد اَور میٹھ اشامل تھا۔بل کہ یہ سارے لوازمات ایک ڈبے میں پیک شدہ ہر ایک کو تھمادیے گئے ۔ساتھ پانی کی ایک ایک چھوٹی بوتل بھی۔کونے میں ایک بڑی سٹیل کی ٹینکی میں گرم گرم چائے رکھی تھی۔ایک طرف کتابوں کااسٹال لگاتھا۔فکشن ہاوس پیبلیشر کی کراچی کی شاخ کاعملہ گوادر کتاب میلے میں گیاہواتھا۔ان کاوہاں اسٹال لگاتھا۔یوں میری کتاب اسٹال پرنہ تھی۔حاضرین میں میری کتاب کاعنوان زیر بحث رہا۔عنوان ‘‘عظیم ہمالیہ کے حضور ’’ کو پسند کیا گیا۔
میرے دوست مشتاق علی شان کے میگزین ‘‘یونین نیوز’’ کی وساطت سے میں ایکسپرس اخبار کے کالم نگار محترم زبیرالرحمن صاحب سے واقف تھا۔زبیر الرحمن صاحب کمال مہربانی سے پیش آے ۔جنت صاحب نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے متعارف کروایا۔زبیرالرحمن صاحب نے ایک بار میرے ایک مضمون کوپڑھ کرمجھے کال تھی اور حوصلہ افزائی بھی۔ساتھ کچھ تجاویز دیں تھیں۔سو یونین نیوز ،مشتاق ہمارے پرانے تعارف تھے۔
5:15 سے 6:00 تک نواں اَور آخری سیشن تھا۔ایک مختصر مشاعرہ تھا۔جس میں محترم اَنور شعور ،محترم رحمت پیرزادہ ،محترم اوسط جعفری ،محترم اَیازلطیف دایو کے علاوہ دُوسرے شعرا بھی تھے۔ہال کے ایک طرف اسٹال تھا تو دُوسری طرف بڑی سکرین لگی تھی۔جہاں سے آئن لائن مقررین کو حاضرین دیکھ رہے تھے ۔اَور کیمرے کی آنکھ سے وہ حاضرین کو۔نویں سیشن کے بعد مختلف ٹی ۔وی چینلز نے شعرا،مقالہ نگاروں اَور مصنفین سے انٹرویو کیے۔میڈیا کے علاوہ کرچی آرٹس کونسل کااپنا میڈیا سیل ہے۔اَپنی سائیٹ ہے اَوراَپنا رسالہ ہے۔آرٹس کونسل اَکثر اَہم پروگرامات کی تصاویر اَور ویڈیوز اَپنی سائٹ پر منتقل کرتی ہے۔ٹائم ٹی ۔وی کو انٹرویو دینے کے بعد منتظمین سے اجازت لی۔اُن کااِصرارتھاکہ کچھ دن ان کامہمان رہوں اَور کراچی کی اَہم اَور تاریخی جگہیں دیکھ کر جاوں۔مگر وقت کم تھا۔میں نے معذرت چاہی۔جنت صاحب کے ایک اَور دوست ریاض حسین بلوچ ہال میں مل چکے تھے۔جیالے ہیں اَور کراچی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو لاکالج کے پرنسپل ہیں۔ریاض صاحب آزادکشمیر راولاکوٹ کادَورہ کرچکے ہیں۔ ہمیں زبردستی اَپنی گاڑی میں ساتھ بٹھایاقافلہ روشن راہوں پر سفر کرتاہواکئی منزلہ عمارت کے سامنے جارکا۔یہ ایک مصروف جگہ تھی۔ضرورت کی ہر چیز یہا ں میسرہے۔عمارت اَندر سے کشادہ ہے۔اس کے اندر ایک دنیاآبادہے۔ایک شہر تھاجو کئی منزلوں پر مشتمل تھا۔ریاض حسین بلوچ صاحب کی راہ نمائی میں لفٹ ایک منزل پر جارُکی۔ہم ایک ہال میں داخل ہوئے۔یہ ایک کافی ہاوس تھا۔کروناکی وجہ سے کرسیا ں ایک دُوسرے پر دَھری تھیں۔یہاں چاے اَور کافی لوازمات کے ساتھ کھڑے ہو کر پیناپڑتی ہے۔یوں مشینوں نے گرم گرم کافی پیا لوں میں اُنڈیلی اَور ہم کھڑے کھڑے پینے لگے۔یاں کافی ،مشین بناتی ہے۔ایک مالک بس تھوڑی سی راہ نمائی کر دیتاہے۔شکر اتنی ،دُودھ اتنااَور پانی اتنا ،بس مشین کچھ منٹ میں بھاپ اُڑاتی کافی پیش کردیتی ہے۔ریاض حسین بلوچ صاحب کااصرار تھاکہ آج کی شام ان کے نام کروں ۔کھانا ان کے ساتھ کھاؤں اَور پھر صبح نکل جاؤں ۔صرف دو دن قبل انھیں اسٹینٹ پڑے تھے۔بڑے دل گردے والے اَورجی دار آدمی ہیں۔ایک الیکشن مں صرف چار سو ووٹوں کے فرق سے پیچھے رہے تھے۔اسی الیکشن میں مخالف تنظیم نے ان کو کلاشن کوف کابریسٹ ماراتھا۔یہ مشکل سے بحال ہوئے تھے۔کافی پینے کے بعد میں اَور جنت صاحب کمرے میں آے سامان پیک کیا اَور اَڈے کی طرف نکل آے۔اس بار ایک دُوسری کمپنی کاٹکٹ لیا۔آٹھ بجے گاڑی روانہ ہوئی ۔شام کے گھپ اَندھیرے میں سفر ویسا ہی رہا۔پوپھٹنے پر ہم اَبھی سندھ میں ہی تھے۔دیہات چھوٹے چھوٹے گھر اَور اِردگرد میلوں لمبے کھیت ان میں ہری ہری فصلیں کچھ اُگ رہی ،کچھ اُگ چکی اَور کچھ جوان ہوچکیں تھیں۔سندھ کے دیہاتوں میں زندگی الگ رنگ لیے ہوئے ہے۔آٹھ بجے سورج کافی اُوپر آچکا تھا ۔ایک جگہ چھوٹے چھوٹے گھروں سے بچیاں نکل کر ایک جگہ قرآن پاک پڑھنے کے لیے جمع ہورہی تھیں۔کھیتوں کے بیچ بس چند گھر ،اَور کہیں ایک آدھ چینی کے کارخانے کے آثار۔یہاں پنچاب کی طرح کوئی گھنیرابوڑھا برگد نہیں دکھا۔ہر دھرتی کااَپنا نمائندہ پیڑ ہے۔کشمیر کاچنار،ہمالیائی خطوں میں دیار حکومت کرتاہے۔یہاں نیم کے پودے کو اہمیت حاصل ہے۔یہ وافر آکسیجن دیتاہے۔اَور ٹھنڈاسایہ بھی۔سخت گرمیوں میں پرند چرند اس کی چھاوں تلے سستاتے ہیں۔
دیہات کی سادہ زندگی چلتی بس سے دیکھ رہاتھا۔اس مٹی لوگوں کو اپنے کلچر ،زبان اَور مٹی سے بے پناہ پیار ہے۔جو اِن کے اَنداز رہن سہن اَور اَطوا رسے نظر آتاہے۔اَپنے کلچر میں جینے والے لوگ خود اَعتماد ہوتے ہیں۔اَپنی مٹی کے رنگ میں بسنا رہنا خود اعتمادی کی علامت ہے۔میں نے یہاں یہ رنگ دیکھا تو سمندر پار برادر قمررحیم صاحب کو چلتی بس سے چندتصاویر کے ساتھ ایک آڈیو پیغام بھیجا ۔جواباً انھوں نے رَشک کااظہار کیا۔کہ کاش یہی پیار ہر جگہ ہو۔ہوکوئی اپنی مٹی سے اپنے کلچر سے ایسے ہی پیار کرے۔دُوسری شام مغرب کے وقت راول پنڈی پہنچا ۔رات فیض آباد کے ایک ہوٹل میں قیام کیا ۔مبارک بادوں کا سلسلہ شروع ہوچکاتھا۔برادر قمررحیم اَور میرے طلباء نے سوشل میڈیا پر ایوارڈ وصول کرنے کی تصاویر لگالیں تھیں۔صبح اٹھا نہایا دھویا ناشتا کیااَور پھر سو گیا۔شام کے قریب راولاکوٹ پہنچاتو کراچی کی گرم ہواہیں بھول چکاتھا۔ٹھنڈی ٹھار ہمالیائی ہواؤں نے گودے میں سرد نیزے چھبوتے ہوئے پوچھا ۔بیٹے ۔۔۔! ہمیں بھولے تو نہیں نا۔۔۔۔۔!

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply