معذور افراد بوجھ نہیں اثاثہ ہیں ۔۔۔ مہرساجدشاد

معذور افراد کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہےکہ ہمارے اس کرہ ارض پر اس وقت تقریباً چھ سو 600 ملین افراد معذور ہیں یعنی ہر دس میں سے ایک فرد معذور ہے، جبکہ پاکستان میں پچاس 50 لاکھ سے زائد افراد معذور ہیں۔ اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق وہ افراد جنہیں طویل المیعاد جسمانی و ذہنی کمزوری کا سامنا ہو۔ جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا مناسب کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو، ایسے افراد کو معذور کہا جا سکتا ہے۔

عام طور پر انسانی جسم کے کسی بھی عضو یا جسمانی صحت کے بنیادی اصولوں سے محرومی کے حامل افراد کو معذور تصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق ہر وہ شخص جس کے لیے عارضی یا مستقل بنیادوں پر کاروبار حیات میں حصہ لینا محدود ہوجائے یا انسانی بدن کو ایسے عارضے لاحق ہو جائیں جن سے ان کا مزاج اور اعتدال بگڑ جائے اور انسان کی کارکردگی متاثر ہو اس کو معذوری کہتے ہیں۔

معذوری کی کئی اقسام ہیں عام طور پر اس کو دو بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ذہنی اور  جسمانی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معذوری پیدائشی قدرتی بھی ہو سکتی ہے اور حادثاتی بھی۔ پیدائشی معذور وہ افراد ہیں جو قدرتی طور پر نابینا، گونگے، بہرے،جسمانی معذور، مخبوط الحواس اور ذہنی معذوری کا شکار ہوں۔ جبکہ ذندگی میں مختلف حادثات مثلاً دھماکوں، سڑک کے حادثات، صنعتی حادثات، قدرتی حادثات سیلاب زلزلہ وغیرہ کے نتیجے میں لوگ معذور ہو جاتے ہیں۔ معذور افراد کیساتھ ہمارا عمومی رویہ ترس کھانے والا رویہ ہوتا ہے جبکہ معذور افراد ترس کی بجائے ہمدردی معاونت اور حوصلہ افزائی چاہتے ہیں۔ اگر ہم ان کو سہولتیں مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تو یہ اپنے کاموں میں اپنے روزگار میں اپنی ذندگی کے سفر میں پروقار طریقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ معذور افراد ہماری عدم توجہ عدم تعاون اور عدم سہولت کے باعث بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں۔ آئیے ہم اپنے معاشرے کی اس ذہنی معذوری کو دور کریں جس نے ان معذور افراد جو قابل ترس بنا کر بوجھ بنا رکھا ہے، یہ بہترین صلاحیتوں کے مالک کئی امور اور کاموں میں ماہر لوگ ہمارا اثاثہ ہیں، تحیہ کریں اور انہیں معاشرے کا کارآمد اور قیمتی جزو بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply