شاعروں سے ”مذاق“ کے ساتھ۔۔۔بتول

آپ نے یہ تو سنا ہی ہوگا کہ شاعر حضرات بہت اچھے ،پیارے اور حساس ہوتے ہیں۔ اب اس بات کو جاننے کا آسان سا طریقہ یہ ہے کسی شاعر کو آپ کو الٹا سیدھا کچھ بول کے دیکھیے آگے سے بجاۓ چھتر مارنے کے، وہ آپ کو کوئی  غم و الم سے لبریز شعر سنا ڈالیں گے ۔ یہ حساس طبع لوگ ہم جیسوں کی سمجھ میں  نہیں آتے۔ کبھی اتنا بولتے ہیں کہ بعض اوقات سننے والا بے اختیار اپنے گناہوں کی معافیاں مانگنے پہ مجبور ہوجاتا ہے ۔ آپ کسی شاعر سے ایک سادہ سا سوال پوچھیں ، شاعر صاحب موسم کیسا ہے آپ کے شہر کا؟ وہ جواب میں آپ کو داستان سنانے لگ جائیں گے ۔ارے کیا پوچھتے ہو موسم کی ! کبھی کالی گھٹاٶں کی ایسی دلنشین تہہ بن جاتی ہے کہ کسی دوشیزہ کی گھنیری زلفوں کا گماں ہوتا ہے اور کبھی ایسی سنہری دھوپ جیسے کسی نے آسمانوں سے زرد و زعفرانی رنگ نچھاور کردیے ہوں۔کبھی شاعر آپ کو اتنے کم گو نظرآئیں گے کہ آپ کی طویل ترین بات کے جواب میں ”تشکر ،شکراً “ ” محبت دوست“ ”سلامتی ہو  احباب“ اور ”سپاس گزار“ کہنے پہ اکتفا کریں گے ۔ اور آپ کو شدت سے احساس ہوگا کہ آپ پاگل ہیں اور اتنی دیر کسی دیوار سے بات کرتے رہے ہیں ۔ شاعروں کے بارے میں ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ کبھی کوئی  شاعر آپ کو سیدھی سادی اردو میں بات کرتا نظر نہیں آۓ گا اگر آجاۓ نظر تو سمجھ جائیے گا کہ وہ اپنے شعر کسی غربت کے مارے شاعر سے دیہاڑی پہ لکھواتا ہوگا ۔ کیوں کہ شاعر حضرات کی باتیں بھی ہمیشہ شاعرانہ ہوا کرتی ہیں ۔ اسی بات پہ ایک شاعر صاحب کی دکھی کتھا یاد آگئی  ۔ ہوا کچھ یوں
ایک شاعر کو اپنی پرانی محبوبہ سے دس بارہ سال بعد   ملنے کا اشتیاق ہوا بلآخر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکے گھر کا پتہ پوچھتے پوچھتے آن پہنچے ان کے گھر تک ۔محبوبہ نے بٹھایا پھر کہنے لگی کیسے آنا ہوا شاعر صاحب ؟
شاعر : چہرہِ چاند دیکھنے چلے آۓ۔۔
محبوبہ: اچھا اچھا ! چاند بیٹا ادھر آٶ دیکھو کون ملنے آیا ہے ۔۔
شاعرکھسیانے سے ہوکے۔۔ نہیں وہ بس من موہنی مسکان دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں تھیں۔
محبوبہ : اوہ اچھا ایک منٹ ۔۔ موہنی بیٹاااا ادھر آ اور اپنی مسکان آپی کو بھی بُلا کے لا پڑوس سے۔۔
شاعر صاحب کا گلا خشک ۔۔ وہ تو بس ہمارا دل بہت مضطر تھا اپنے گوہر نایاب کی یاد میں ۔۔
محبوبہ : مگر جی گوہر اور نایاب تو اپنی نانی کے گھر گۓ ہیں شام کو لوٹیں گے۔۔
شاعرصاحب کو چکر سا آیا مگر ہمت کر کہ اٹھے اور کہنے لگے ناچیز اب اجازت چاہے گا بس دیدارِ گلریز کے لیے آیا تھا۔۔
ارے شاعر صاحب کیا بتاٶں ۔ ناک میں دم کیا ہوا  ہے ۔۔ اب بھی گھر پہ نہیں ہیں ۔۔ سارا دن محلے کی خاک چھانتے ہیں یہ کمبخت دیدار اور گلریز ۔
شاعر صاحب دل تھام کر  کہنے لگے ہماری طبعیت   ذرا  بوجھل ہورہی ہے محترمہ کسی طبیب کو بلوا دیجیے ۔۔
محبوبہ :ارے او طبیب بیٹا بھاگ کے آ جلدی ماموں بلا رہے ہیں۔۔
سنا ہے کہ وہ شاعرصاحب اب کومہ میں ہیں ۔(احباب سے دعا کی التماس ہے۔)
عرض کرنے کا مقصد بس یہ تھا کہ شاعروں کی باتیں انہی  کو سمجھ آتی  ہیں جو ان کی اپنی برادری کا ہو ورنہ تو جن و ملاٸکہ کی بھی مجال نہیں ہم اور آپ کیا چیز ہیں؟ لیکن یہ باتیں اور شاعری کرنا یا سمجھنا خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ  ہو ۔ سننے میں بڑی دلچسپ ہوا کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کسی کی سمجھ آۓ یا نہ آۓ. شاعریا شاعرہ بننے کا خبط ہر نوجوان کے سر پہ سوار رہتا ہے۔ یہی خبط ہمیں بھی سوار ہوا۔ خوابوں میں خود کو شاعرہ مشرق کا خطاب لیتے اور مشاعرے پڑھتے بھی دیکھ لیا۔ مگر سوال یہ تھا کہ آخر شاعرہ بنا کیسے جاۓ ؟اس زمرے میں ہم نے اپنے طور پہ ایک ریسرچ بھی کر ڈالی۔ خدمت خلق کا خیال آتے ہی آپ سب سے اپنی معلومات بانٹنے کا ارادہ کیا ۔ (اللہ جزاۓ خیر عطا کرے).
ریسرچ سے جو پہلا طریقہ دریافت ہوا وہ یہ تھا آپ کی پیدائش نقوی خاندان میں ہوجاۓ ۔ ایک دوست کا کہنا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ شعرا۶ پیدا کرنے والا خاندان، سید خاندان ہے اور اس میں بھی نقوی خاندان سرِِِ  فہرست ہے ۔ مثلاً محسن نقوی ، فریحہ نقوی ، دانش نقوی وغیرہ وغیرہ کو ہی دیکھ لیجیے ۔ ہم سوچتے ہیں شاید یہ خاندان سب سے آگے کھڑا تھا جب خدا کی بارگاہ میں شاعری بٹ رہی تھی ۔ خیر اب اگر آپ ہماری طرح اس خاندان میں پیدا نہیں ہو پاۓ تو کوئی  بات نہیں  ۔ ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں “ دوسرا طریقہ یہ کہ عشق کرلیں ۔ آدھی سے زیادہ دنیا کا یہی خیال ہے آپ کو اچھا شاعر بننے کے لیے عشق کرنا لازم ہے ۔ اب مسئلہ یہ ہوا ہم سے ایک شاعر نے کہہ دیا کہ یہ فقط افواہ ہے کہ شاعر ہمیشہ عشق میں ناکامی ہونے کے بعد بنا کرتے ہیں خیر ہم نے وضاحت ان سے مانگی نہیں اور ان کی بات کا بس یہی سوچ کے یقین کرلیا کہ ایک تو شاعر ہیں دوسرا وہ پیدائشی شاعر ہیں یعنی کہ نقوی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ ان کی ذہانت پہ ہمیں کوئی  شک نہیں۔ مگراہم وجہ یہ تھی کہ ہم ڈرگۓ تھے کہ حضرت اپنی شاعرانہ باتیں نہ شروع کردیں ۔ اور ہمیں جان کے لالے پڑ جائیں ۔ ویسے بھی آج کل کے عشق کو عشق کہنا بھی نری حماقت ہے بلکہ غالب و میر وغیرہ آج زندہ ہوتے تو آج کے عشق کو عشق کی توہین کہتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک قدرے موثر طریقہ یہ ہے کہ آپ انجینرنگ کر لیں ۔ دیکھیں نوکری تو آپ کو ملنی نہیں چاہے  آپ انٹر فیل رہیں یا انجینر بن جائیں  تو ایسے میں انجینر  بننےکا فائدہ بس یہ ہوگا کہ کم سے کم اسی بہانے شاعر بن جائیں گے . اور یہ کوئی  ایسا مشکل کام بھی نہیں آس پاس نظر دوڑا کے دیکھیے ایک نہ  ایک” انجینر  کم شاعر “نظر نہ آجاۓ تو کہیے گا! سرحد پار کے  دو نوجوان شعرا انعام عظمی اور اشک الماس کو ہی دیکھ لیں۔ ہمارے تو اپنے گھر میں ایک انجینر بھائی نوکری کی تلاش میں ادھر سے ادھر بھٹکتے ہوۓ چھوٹے موٹے شاعر بن گۓ ۔ لیکن ہم جیسے انجینرنگ کی عمر سے آگے نکل جانے والوں کےلیے یہ طریقہ بھی کارگر نہیں ۔
تو آخر ہم اس نتیجے پہ پہنچے کہ بس شاعرہ بننے کا سپنا سپھل کرنے کے لیے شاعروں سے ہی مدد لی جاۓ ۔ تھا تو یہ کام جوۓ شیر لانے کے مترادف مگرشاعرہ بننے کا خبط سوار تھا سر پہ سو ”مرتا کیا نہ کرتا“ پہ عمل درآمد کرتے ہوۓ ایک شاعر سے گفتگو چھیڑ دی ۔ ہم نے کاغذ قلم سنبھالا تاکہ شاعر صاحب کی ہر بات لکھ لی جاۓ ۔ ہم نے کہا شعر یا غزل کیسے لکھے جاتے ہیں؟ (وہ الگ بات ہے ہم اب تک پچھتا رہےہیں اپنی اس گستاخانہ حرکت پر) وہ شاعر صاحب کچھ درشت لہجے میں یوں گویا ہوۓ۔۔ محترمہ پہلے تو یہ بات آپ ذہن نشین کر لیجیے کہ شعر و شاعری لکھی نہیں جاتی ۔ ہوتی ہے ۔اس کو ایسے سمجھیے کہ پس ایک کیفیت طاری ہوتی ہے شاعر پہ اور شعر ہوجاتا ہے۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ شعر کسی آکاش کی وسعتوں سے اتر کر شاعر کے  دل پہ تخت نشین ہو جاتا ہے اور شاعر بس اسے قلم کی سیاہی سے کاغذ کے دل پہ نقش کردیتا ہے۔۔ہمارے دل سے ایک آواز آئی  کہ شعر بھلا ہوتا کیوں اور کیسے ہے ؟ بڑی بوڑھیوں سے اب تک یہی سنا تھا کہ کھانسی بخار ،نزلہ زکام ہوجاتا ہے ۔ اب یہ نیا انکشاف ہماری چھوٹی سی عقل میں کہاں آنا تھا مگر ہم دل پہ جبر کر کے خاموش رہے ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ دیکھیے محترمہ شعرو شاعری میں وزن درست ہونا بے حد ضروری امر ہے۔ غزل کا بحر سے کلیتاً خارج ہونا لازم ہے ۔ اس سے آگے بھی وہ بہت کچھ کہتے رہے ہونگے مگر ہماری ننھی عقل میں بحر اور کلیتا ًًً یا شاید کلیسا میں کرتے رہے سارا وقت ، اس لیے کچھ اور سمجھ نہ آیا ۔ وزن کا البتہ ہمیں پتہ ہے ۔ ارے بھئی  یہی کہ کچھ شاعر حضرات اپنا آدھا وزن اپنی شعر و شاعری میں منتقل کر دیتے اور ہم جیسوں کی عقل پہ شعر کسی پہاڑ کی مانند گرپڑتے ہیں اور عقل چند انچ اور چھوٹی ہوجاتی ہے۔ کچھ شاعروں کو دیکھ کے  تو آپ کو معلوم ہوجاۓ گا کہ یہ اسی فیصدی وزن شاعری میں منتقل کرچکے ہیں بیس فیصد بس دنیا داری کی مروت میں اپنے پاس رکھا ہوا ہے ۔ آپ کو یقین نہ آۓ تو عبدالرشید عرف شاد مردانوی ، علی زریون ، عمار اقبال راز احتشام وغیرہ کو ہی دیکھ لیجیے ۔ قصہ مختصر کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ گوگل بھیا سے مدد لی جاۓ ۔ ۔ لکھائی تو ہمیں اپنی ہی سمجھ نہیں آتی مگر عقل بھی بس گزارے لائق  ملی ہے حصہ میں تو لکھے ہوۓ پہ ہی اکتفا کرنا تھا۔ مشکل الفاظ سرچ کرنے تھے ۔آخر یہ بحر کیا بلا ہے۔ بسم اللہ کہہ کر گوگل پہ لفظ ”بحر“ لکھا اور سرچ کا بٹن دبا دیا ۔ گوگل بھیا نے آن کی آن میں بحرِ اوقیانوس ، بحر الکاہل ، بحر ہند کی پوری  ہسٹری ہمارے سامنے پیش کردی۔ دیکھ کے ہماری ننھی عقل چند انچ اور کم ہوگئی ۔ اوسان کچھ  بحال  ہوۓ تو ہم نے بحر کو سرچ کرنے کا اردہ ترک کردیا۔ کاغذ پہ لکھے الفاظ میں سے ایک اور سرچ کیا ۔ بھلا ہو گوگل بھیا کا جنہوں نے ہمیں دنیا جہاں کے” کلیسا “زندگی میں پہلی بار دکھاۓ ۔اب ہمیں یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ بحر یعنی اس دنیا میں موجود سمندر اور کلیسا یعنی عیسائی  بھائیوں کی عبادت گاہ۔ باقی کا علم بھی بہت جلد سیکھ لیں گے۔ آپ بھی سیکھیے اور شاعر بن جائیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply