• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • مریخ پر انسانی ہاتھ ، مریخ کی الجھنیں، مسئلے کیا ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔وہارا امباکر

مریخ پر انسانی ہاتھ ، مریخ کی الجھنیں، مسئلے کیا ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔وہارا امباکر

آج تک کسی انسان نے مریخ کو نہیں چھوا۔ کیا ہم یہ کام بھی کر لیں گے؟ اس انتہائی مشکل کام کو کرنے پر یورپی سپیس ایجنسی اور ناسا اس کام کو مل کر طور پر سرانجام دینے کے بارے میں اس سال اپریل میں ایک میمورنڈم پر دستخط کئے۔ یہ کام تین مشن مل کر کریں گے۔ اگر یہ پلان کے مطابق ہو جاتا ہے تو اکتیس ڈبوں میں مریخ کی مٹی کے سیمپل زمین پر لائے جائیں گے تا کہ ان کا زمینی لیبارٹریوں میں تجزیہ کیا جا سکے۔ (اس پر نیچے دئے گئے لنک سے تفصیل۔

اگر ہم اس سے آگے سوچیں تو کیا اگلے بیس برس میں ہم مریخ پر آبادی بنا سکیں گے؟ اگر ہاں، تو اس سے کئی قسم کے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ رہائش ایک نیا معاشرہ، ایک نئی تہذیب ہو گی۔ یہاں پر کیا قوانین ہوں گے؟ گھڑیاں اور کیلنڈر کیسے ہوں گے؟ مریخ پر جانے سے انسانوں کو کیا حاصل ہو گا؟

ان سوالوں کو ایک ایک کر کے۔ زمین پر ہم ممالک میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ قوانین اور سرحدوں کے۔ جھنڈوں کے۔ مریخ کا جھنڈا کیسا ہو گا؟ خلا پر ہونے والے عالمی معاہدہ کسی بھی فلکیاتی جسم کو کسی قوم کے قبضے کے کنٹرول سے روکنتا ہے۔ نجی ادارے اس معاہدے کا حصہ نہیں۔ مریخ پر سفر کرنے میں کئی ماہ لگتے ہیں، زمین پر ہونے والے معاہدوں اور قوانین کا نفاذ مریخ پر کیسے کروایا جائے گا؟ کون کروائے گا؟ اگر مریخ پر رہنے والے انسانوں نے ایسے کام کرنا شروع کر دئے جو زمین پر رہنے والوں کو پسند نہ آئے تو وہ کیا کر سکیں گے؟ مجرموں کو سزا کیسے دی جائے گی؟ اس پر ایک خیال خلائی آزادی کا ہے۔ یعنی دوسرے سیاروں پر جانے والے اپنا طرزِ زندگی بنانے میں مکمل آزاد ہوں گے۔ کسی کی شہریت جن قوانین کی پابندی پر مجبور کرتی ہے، وہ پابندی مریخ پر نہیں رہے گی۔ مریخی شہری اپنے مرضی کے قوانین خود بنا سکیں گے (اس پر تین کانفرنسز بھی ہو چکی ہیں۔ اس آزادی کے خیال پر مضمون نیچے دئے گئے لنک سے۔)

مریخ اور زمین کے وقت کا آپس نیں کوئی تال میل نہیں۔ مریخ پر زمین کی بنائی گھڑی بیکار ہے۔ مریخ کا دن چوبیس گھنٹے کا نہیں، زمین سے ۳۷ منٹ لمبا ہے۔ مریخ پر رہنے والے وقت کا حساب کیسے کریں گے۔ کیا پیمانہ استعمال کریں گے؟ کیا ایک سیکنڈ کی تعریف بدل دیں گے: (مریخ کے مشن پر کام کرنے والے اس وقت دو گھڑیاں پہنتے ہیں، ایک مریخ کے وقت کی اور ایک زمین کے وقت کی۔ یہ ٹیم اپنے کام کے اوقات مریخ کے وقت کے مطابق رکھتی ہے جس کا مطلب روزانہ ان کے لئے زمین کے مطابق نئے اوقات ہیں)۔ اگر مریخ پر رہنے والے زمین پر کوئی ایونٹ دیکھنا چاہیں گے تو کیسے زمین کے وقت کا پتہ لگائیں گے؟ سال کا حساب کیسے رکھا جائے گا۔ مریخ ایک چکر ۶۸۷ دن میں مکمل کرتا ہے۔ کیا وہاں پر زمینی کیلنڈر استعمال ہو گا؟ اگر ہو گا تو وہ مریخ کے موسموں سے کوئی مطابقت نہیں رکھے گا۔ اگر نہیں تو پھر کونسا کیلںڈر ہو گا؟ مہینوں کے نام اور دنوں کی تعداد کیا ہو گی؟ اس پر کئی کیلنڈر کی تجویز کئے جا چکے ہیں۔

جب اپالو ۱۱ مشن واپس پر اترا تو ان خلابازوں کو تین ہفتے الگ تھلگ رکھا گیا۔ اس خوف سے کہ کہیں وہ کوئی ایسا جراثیم چاند سے نہ لے آئے ہوں جس کے خلاف زمین پر مزاحمت نہ ہو اور وہ زمینی زندگی کو ختم کر دے ایسا چاند پر لینڈ کرنے والے پہلے تینوں مشنز کے ساتھ کیا گیا، جب تک کہ ہمیں پتہ نہ لگ گیا کہ چاند محفوظ ہے۔ کیا مریخ پر زندگی ہے؟ بڑی تو نہیں لیکن خورد بینی ہو سکتی ہے۔ اس لئے سائنسدانوں کا ایک گروپ مریخ سے کسی قسم کے پتھر اور مٹی زمین پر لانے کی مخالفت کرتا ہے کہ اس سے کہیں کوئی انتہائی مہلک جراثیم نہ آ جائیں۔ ایک دوسرا خطرہ یہ ہے کہ کہیں زمین سے جراثیم مریخ پر نہ چلے جائیں۔ ہمارے بھیجنے گئے مشن میں ایسے جراثیم تو وہاں نہ چلے جائیں گے جو وہاں کی ممکنہ خوردبینی زندگی کو ختم کر دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں پتہ لگے کہ جو مشن زمین سے چند سال پہلے گیا تھا، اس کے لے جانے والے جراثیم نے وہاں کی زندگی کو ختم کر دیا ہے۔ یا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم زندگی کی تلاش کرتے ہوئے زندگی تلاش کر لیں لیکن وہ زمین سے لے جائے گئے جراثیم ہوں۔ اس دونوں خطرارت کے بارے میں ہر ممکنہ احتیاط کی جاتی ہے۔ آفس آف پلینیٹری پروٹیکٹشن کا کام بھیجےہ ہوئے مشنز میں اس خطرے کو ممکنہ حد تک کم کرنا ہے۔ اس حوالے سے دوسرے سیاروں کی حفاظت کیلئے عالمی معاہدے اور اقدامات کیلئے نیچے دیا گیا لنک۔

مریخ سے قدرتی طور پر زمین تک پتھر پہنچ چکے ہیں۔ جب کوئی بڑا شہابیہ مریخ کی سطح سے ٹکراتا ہے تو اس تصادم کے نتیجے میں اڑنے والے ذرات اگر اس تیز رفتاری سے اڑیں کہ ایسکیپ ولاسٹی سے زیادہ رفتار ہو جائے تو وہ مریخ کی کششِ ثقل سے آزاد ہو کر خلا میں بھٹکنا شروع کر دیں گے۔ (مریخ کی مہین فضا اور مقابلتا کم گریویٹی لی وجہ سے ایسا ہونا زمین کی نسبت زیادہ ہے)۔ اینٹارٹیکا میں گرے شہابئے ڈھونڈنے کے پروگرام اینسمیٹ نے اس طرح کا انتہائی دلچسپ پتھر ایلن ہلز کے مقام سے ملا۔ دو کلوگرام وزنی یہ پتھر سترہ ملین سال پہلے یہ ایک تصادم کے نتیجے میں مریخ سے الگ ہوا تھا۔ خلا میں بھٹکتا ہوا یہ تیرہ ہزار سال پہلے زمین کی گریویٹی کے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اور اینٹارٹیکا میں جا کر گرا تھا۔ اس پر لگے دلچسپ نشانوں سے شک گزرا تھا کہ کہیں یہ مائیکروفوسلز نہ ہوں۔ یہ درست نہیں نکلا۔ لیکن یہ دریافت اتنی سنسنی خیز تھی کہ امریکی صدر نے اس کا ذکر کیا تھا اور اس دلچسپی نے آسٹروبائیولوجی کے شعبے کو جنم دیا تھا۔ اب تک ہم زمین پر مریخ سے آئے دو سو سے زیادہ پتھر دریافت کر چکے ہیں۔ مریخ پر کیوروسٹی مشن سے یہ تصدیق ہونے میں مدد ملی تھی کہ یہ پتھر واقعی مریخ سے تھے۔ اس کا پتہ آرگون کے تجزیے سے لگتا ہے۔ ان میں سے سب سے پرانا پتھر مراکش میں صحرا سے ملا تھا۔ ان سے ہمیں مریخ کی تاریخ جاننے میں مدد ملی ہے کہ اس کا موسم کیسے تبدیل ہوتا رہا ہے اور مریخ کی تاریخ کے بڑے ادوار کیا رہے ہیں۔ ان پتھروں کی اپنی تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے

جو شخص مریخ پر جا کر مریخ کو پہلی بار ہاتھ لگائے گا، تاریخ میں اس کا نام بھی نیل آرمسٹرانگ کی طرح لکھا جائے گا۔ ایک بڑا سوال یہ کہ کیا ہمیں مریخ پر جانا بھی چاہیے؟ کیا ہمیں مریخ کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے؟ کیا ہم بیرونی دنیا سے آئے ہوئے قابضین ہوں گے؟ اس کے جواب کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کائنات میں اپنا مقصد کیا سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انسان سب کچھ خراب کر دیتا ہے۔ قدرتی نظام میں خلل ڈالتا ہے۔ اس نے زمین کو خراب کر دیا ہے تو مریخ کو بھی خراب کر دے گا۔ ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ مریخ کو بدلیں۔ وہاں پر اپنے لئے آبادی بنانے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں نینوبیکٹیریا ہوں۔ مریخ پر رہنا ان کا حق ہے۔

ایک اور رائے یہ ہے کہ اگر مریخ پر نینوبیکٹریا ہیں بھی تو زندہ رہنے کے لئے مشکلات کا شکار ہوں گے۔ ہم ان کو بھی بچا سکتے ہیں۔ اپنی ٹیکنالوجی سے، اپنی ذہانت سے، اپنے شعور سے ان کے لئے بھی موافق ماحول بنا سکتے ہیں، ان کی بھی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اس نظامِ شمسی میں (اور ممکن ہے کہ کائنات میں) صرف انسان ہی ہیں۔ اگر کہیں زندگی موجود ہے تو اس کی مدد بھی کرنا چاہیے۔ اگر زندگی نہیں ہے تو ہمیں زندگی کو کائنات سے متعارف کروانا چاہیے۔ شعور اس بے معنی کائنات کو معنی دیتا ہے۔ ایسا کر کے ہم خود اپنا مستقبل بھی محفوظ کر سکیں گے۔ چونکہ ہم ایسا کر سکتے ہیں تو ایسا کرنا ہمارا فرض ہے۔

یہ خالی فلسفیوں کے مسائل نہیں۔ ممکن ہے کہ بیس سال میں پہلا انسان مریخ پر قدم رکھے۔ اس لئے اس قسم کے سوالات کا ہمیں جلد جواب دینا ہے۔ کیا ہم نزندگی کو زمین سے باہر پھیلانا چاہتے ہیں؟ انسان سات ارب ہوں یا ستر ارب، مشتری کو فرق نہیں پڑتا۔ اس کے چاند پر آتش فشاں ویسے ہی لاوا اگلتے رہیں گے۔ ہم محبت کے بارے میں جتنی بھی نظمیں لکھیں، نیپچون کو اس میں دلچسپی نہیں۔ اگر دنیا سے انسان مٹ جائیں، کائنات کا نظام ویسے ہی چلتا رہے گا۔ کہکشائیں اپنا سفر جاری رکھیں گی، ویسے ہی جیسا کہ ہمیشہ سے کرتی آئی ہیں۔ کائنات کو اس زندگی کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن شاید ہم اس کائنات کی سے سے بڑی اور واحد امید ہیں، خود اس کائنات کو جاننے کے لئے۔

کائنات کی تاریخ میں ایک ناقابلِ ذکر کونے میں اربوں سال کے سفر کے بعد پہلی بار ایک بے چین شعور ابھرا ہے، اس کے ذریعے اس کائنات نے پہلی بار خود کو دیکھنا شروع کیا ہے۔ یہ سب سوال اس کے سوچنے کے لئے ہیں۔ ابھی تک یہ کرنے میں ٹیکنالوجی کے کئی انتہائی مشکل مسائل ہیں جن کو حل کئے جانا ہے لیکن یہ سوال کہ یہ سب کرنا بھی چاہیے، اس سے الگ ہے۔

جو لوگ خلائی مشنز کو جعلی سمجھتے ہیں، اس کے پیچھے بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ان سوالوں کے جواب اپنے آپ کو پہلے ہی دے چکے ہیں کیونکہ یہ سوال آسان نہیں۔

مریخ سے پتھر واپس لانے کے مشن پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Mars_sample-return_mission

خلائی آزادی پر
https://www.researchgate.net/…/258317782_An_Essay_on_Extrat…

دوسرے سیاروں کی حفاظت پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Planetary_protection

مریخ سے زمین پر آنے والے پتھر
https://en.wikipedia.org/wiki/Martian_meteorite

اس کا زیادہ مواد اس ویڈیو سے
https://youtu.be/KUddy8RGwns

یہ تحریر  اس فیس بک گروپ  سے لی گئی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

https://web.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply