نکاح کے لیے کفو کا معاملہ.

جاننا چاہیے کہ نکاح کے لیے کفو یعنی ہمسری (match) بنیادی چیز ہے. کفو صرف برادری کی برابری کا نام نہیں بلکہ مال و دولت، تعلیم، حسن اور ذاتی وجاہت، سیاسی و سماجی حیثیت، تربیت، صلاحیت کار اور زندگی گزارنے کے لیے ضروری مہارتوں کو بھی محیط ہے. نکاح کے لیے فریقین میں یہ اور ایسی سب چیزیں دیکھی جانچی جائیں گی.

ماں باپ یا ولی شرعاً کفو کے مطابق نکاح کرنے کا پابند نہیں ہے اور وہ آمدہ حالات اور تجربے کی روشنی میں اس کے برعکس بھی نکاح کر سکتا ہے. کفو میں رشتہ دستیاب نہ ہونے کی  صورت میں لڑکی یا لڑکے کی عمر کے مقابل معقول و معروف عمر کا ہو تو لیا جا سکتا ہے. کفو میں رشتہ ہو تو سہی لیکن شرعی عیوب میں غرق ہو تو اس وجہ سے کہ برادری تھو تھو کرے گی یا کسی اور مجبوری سے رشتہ کرنا شدید غلطی ہے. اس رشتے کا نتیجہ اگلی نسل کو بھی بھگتنا پڑتا ہے اور معاشرتی طور پر بھی نسل اور خاندان برباد ہوجاتا ہے.

ماں باپ کا ان فیصلوں میں اہم ہونا اس لیے ہے کہ وہ شادی کے معاملات میں بالعموم جہاندیدہ، تجربہ کار اور راست باز اور اولاد کے حقیقی خیر خواہ مانے گئے ہیں. اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ ان کا فیصلہ و انتخاب کبھی غلط ثابت ہو، یا وہ برادری کی کسی غیر مستحکم پوزیشن پر ہونے کی وجہ سے مجبور ہوں، یا انتہائی کم امکان ہے کہ وہ اناپسند اور ضدی اور خود غرض ہوں. لڑکی یا لڑکا اگر شدید واہیات انسان کو پسند کر بیٹھے ہیں اس صورت میں بھی ماں باپ کو خیر خواہ مانا جاتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

راستی کی بات یہ ہے کہ اگر عورت بغیر اجازت کفو میں نکاح کرے تو اسے مانا جائے، اور اس کے خلاف ہو تو ماں باپ جہاں تک ممکن ہو روکیں تاکہ اولاد کو مستقبل کی ممکنہ مشکلات سے بچایا جا سکے اور نسل کو اچھی تربیت دی جا سکے. اگر یہ چیک اینڈ بیلینس نہیں ہے تو پھر ماں باپ یا اولاد کو نکاح کے تکلفات سے گزارنا ہی بے سود ہے، کہ صرف نسل تو جانور بھی بڑھا لیتے ہیں.

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply