تعلیم ایک زیور

تعلیم کو انسانی تہذیب و تمدن میں کیا مقام حاصل ہے اس کی کھوج کرنے والے اسکی تاریخ سے واقف ہیں۔کیسے اس تعلیم اور علم و عمل کے ذخیروں پر اس دنیا کا ماضی, حال اور مستقبل کھڑا ہے۔اس پر جتنی تحقیق کرنا چاہیں اور جتنا چاہیں لکھ سکتے ہیں۔لیکن مدعا اس وقت یہ نہیں بلکہ ایک ایسی خبر ہے جو دراصل ایک بھیانک سازش کا تسلسل ہے۔اس کی تفصیل بعد میں، ذرا پہلے نصاب تعلیم کی اہمیت اور پس منظر کو سمجھ لیں۔

نصاب تعلیم ہی وہ پہلی سیڑھی ہے جو قوم کے ننھے منے نونہالوں اور پھر بعد کے نوجوانوں کو علم و عمل کی معراج تک رہنمائی کرتی ہے۔یہ نصاب تعلیم ہی ہوتا ہے جو قوم کی نئی نسل کو قوم کا ماضی,حال اور مستقبل کی خبر اور فکر دیتا ہے۔یہ نصاب تعلیم ہی ہوتا ہے جو نئی نسل کو اس کے ہیروز, اس کی  کامیابیوں, اس کی ناکامیوں غرض ہر پہلو سے واقف کراتا ہے بلکہ گھٹی میں بٹھا دیتا ہے۔نصاب تعلیم ہی وہ بنیادی ذریعہ ہے جو مثبت نظریہ کو پروان چڑھاتا ہے۔یہ نصاب تعلیم ہی ہوتا ہے جو عقائد اور شرع کی بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے۔

یہ نصاب تعلیم ہی ہے جو قوم کی نئی نسل کو سوچ و فکر اور ذہانت کا سفر طے کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔اگر ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ, استاد روحانی ماں باپ ہیں تو نصاب تعلیم قوم ,امت اور ملت کے مستقبل کے دروازے کی وہ سنہری کنجی ہے جس کا حصول موت و زندگی کی کشمکمش ہے۔نصاب تعلیم اگر مثبت, متحرک اور حقیقت پر مبنی ہو تو وہ سب مقاصد جو قوم کی تشکیل کرتے ہیں, امت کو مضبوط کرتے ہیں سو فیصد پورے ہوتے ہیں۔نصاب تعلیم سے نظریہ اور عقائد کی بنیادیں پکی ہوتی ہیں۔اس سے قوم کو پہچان ملتی ہے اور حوصلہ بھی کہ وہ زندہ قوم ہے۔

اس سے حب الوطنی اور حب اﷲ و حب رسول اﷲ کی ایک مضبوط دیوار دل کے گرد قائم ہوجاتی ہے جو زمانے کے باطل و طاغوتی نظریات کو دل میں اترنے نہیں دیتی۔لیکن اگر کسی قوم کی پہچان اور حوصلہ بمعہ نظریہ و عقائد اس کی روحوں تک سےنچوڑ کر باہر کرنا مقصد ہو تو بس اس قوم کی نئی نسل کا نصاب تعلیم منفی پروپیگنڈے اور جھوٹ سے بھر دیا جائے۔اس کی تاریخ مسخ کردی جائے۔اس کے مذہبی و قومی ہیروز کا تذکرہ و شان دبادی جائے۔اس کے سامنے دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنادیا جائے۔اس کو مذہب سے بیزار اور ملک کی محبت سے بیگانہ  کردیا جائے۔یہ سب بس نصاب تعلیم میں معصومانہ انداز اپنا کر تبدیلی سے ممکن ہے۔

مشرف دور حکومت سے نصاب تعلیم کو پاکستان میں باقاعدہ تختہ مشق بنایا گیا کبھی آغا خان ایجوکیشن سسٹم کے جھنڈے تلے تو کبھی سویڈن این جی اوزکے ذریعے۔لیکن شدید ردعمل سے معاملات ہلکے انداز میں چلائے جانے لگے۔پاکستان کا نظام تعلیم پہلے ہی نو آبادیاتی دور میں تشکیل کردہ لارڈ میکالے کا دیا ہوا ہے۔جو صرف کلرک ذہنیت کے افراد کی پیدوار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔لیکن اب اس نظام کے تحت جو اﷲ اﷲ کرکے نصاب تھوڑا بہت نظریہ پر کھڑا تھا اس کو بھی غیر ملکی اور غیر مذہبی مواد سے پر کیا جارہا ہے۔پہلے خیبر پختون خوا سے اس قسم کی خبریں برآمد ہوئیں اب پنجاب سے بھی یہ خبر سننے کو مل گئی کہ اول تا پنجم جماعت کے نصاب میں غیر ضروری ترمیم اور تبدیلی کی گئی ہے جس میں ہدف ہیروز اور ان کی تاریخ بنی

۔خاص کر وہ تاریخ اور ہیروز جن کا تعلق افواج پاکستان یا اسلامی عسکری تاریخ سے تھا کو حذف کردیا گیا ہے اور ان کی جگہ مغربی غیر مانوس تاریخ اور امریکی ہیروز شامل کردیے گئے ہیں۔کیا ہے یہ سب؟کیا ہم پھر سے کالونیل ازم کی طرف گامزن ہیں؟کیا بغیر جنگ و جدل پاکستان کو امریکی ریاست بنانے کا کوئی خفیہ معاہدہ ہو چکا ہے جس سے عوام بے خبر ہیں۔ایک طرف لارڈ میکالے کا فرسودہ نظام تعلیم اور نصابی پالیسیاں ہیں۔دوسری طرف فرسودہ سرکاری تعلیمی پالیسی ہے۔کیا بے حسی اور بد قسمتی ہے اس قوم کی کہ ستر سال میں اس کے حکمران اس قوم کی نئی نسل کو نیا بلخصوص اسلامی نظام تعلیم اور دور جدید و قدیم سےہم آہنگ نصاب تعلیم بھی نہیں دے سکے۔کیا یہ قوم اور اس کی نئی نسل پاکستان کے قیام کا تاوان چکانے کو ہی رہ گئی ہے اس ملک اور دنیا میں؟

کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خواب اور اس کے لیے قربانیوں کا انبار اس لیےدیکھا اور لگایا گیاتھا کہ یہ بعد میں کفریہ نظام اور تعلیم سے آراستہ ہوکر نہ مسلمان رہیں اور نہ ہی قابل انسان؟کیوں یہ ظلم ان ننھی جانوں پر اس طرح سرعام اور ڈھٹائی سے کیا جارہا ہے کہ وہ کبھی جان ہی نہ پائیں کہ وہ کون ہیں؟کیوں ہیں؟کیسے ہیں؟کس لیے ہیں؟کہاں ہیں؟اور کن کے لیے ہیں؟نہ کرو ظالمو نہ کرو یہ ظلم اس نسل سے کہ جس کی تین سے چار نسلوں نے ان کی خاطر ستر سال میں مشکلات اور مصائب جھیلے کہ یہ نسل پاکستان کو وہ بنائےگی جس کا خواب مسلمانان بر صغیر پاک و ہند نے ستر سال قبل دیکھا تھا۔

مت چھینو ان سے ان کی پہچان اور آزادی سے جینے کا حق۔مت قید کرو ان کے ننھے دماغوں کو طاغوت کے قفس میں۔خدا کے لیے ان کو ان کی پہچان اور حوصلہ واپس لوٹادو۔واپس شامل کردو ان کے اسلاف کی تاریخ اور کارناموں کو۔ان کو وہی بننے کا موقع دو جو ان کے اسلاف تھے۔پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں سے پر زور اپیل ہے کہ اپنے انقلابی سفر کو جاری رکھیں لیکن نظریہ اور قومیت و وطن پرستی پر سنگین حملے بند کردیں۔آپ کا انقلاب اور ترقی نئی نسل کی تعلیم اور نصاب پر خطرناک تجربوں کے بغیر بھی ممکن ہیں۔تعلیم ایک زیور ہے ۔لہٰذا اس کو زیور ہی رہنے دیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر اس کو بیڑیاں مت بنائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply