شہادت حضرت علی(رض)

“بہ کعبہ ولادت بامسجدشہادت”۔۔امام علی بروز جمعہ 13رجب عام الفیل کے تیئس ویں سال مکہ میں کعبہ کے اندر دنیا میں تشریف لائے۔یہ شرف خاص نہ آپ سے پہلے کسی کو ملانہ آپ کے بعد کسی کو حاصل ہوگا۔حضرت علی تین سال تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر (ﷺ) نے آپ کی کفالت کا ذمہ لیااور حضرت علی براہ راست حضرت محمدمصطفےٰﷺ کی زیرنگرانی پرورش پانے لگے۔آپﷺ نے انتہائی محبت وشفقت سے آپ کی علمی اوراخلاقی تربیت کی ۔کچھ توحضرت علی کے جوہراور اس پر رسول اکرمﷺ جیسے بلند مرتبہ مربیّ کا فیض وتربیت کہ حضرت علی دس برس میں اتنی بلندی پرپہنچ گئے کہ پیغمبر اکرمﷺ کی رسالت کی تصدیق کی۔جوخودآغازِعلم ہو جو مدینتہ العلم کامصداق ہو۔ وہ جس کی تربیت کرے تووہ باب العلم سے کم کیونکر ہوگا۔جس پرخدا اور اس کے ملائکہ درود وسلام بھیجیں تو اس کی آغوش میں تربیت پانے والے علی (رض )کی طرف دیکھنا اور اس کا ذکرعبادت سے کم نہ ہوگا۔

ابن ابی الحدیدلکھتے ہیں:
’’میں کیاکہوں اس مرد کے بارے میں جس کے دشمن اس کے فضائل کے قائل تھے اور نہ تو اس کے فضائل چھپاسکے اورنہ ہی انکار کرسکے‘‘۔’’آپ میدانِ شجاعت کے وہ ہمالیہ ہیں جنہوں نے گزرنے والوں کوبھلوادیا اور آنے والوں کو اپنے وجود میں فنا کیا، وہ مرد دلاور جوکبھی فرار نہیں ہوتے اوردشمن کی کثرت سے مرعوب نہیں ہوتے اورکسی سے دست وگریبان نہیں ہوئے اورکبھی ایسا وار نہ کیا کہ دوسرے وار کی ضرورت پڑے‘‘۔حضرت علیؓ نے زندگی کے ہرپہلو کی تشریح کی چاہے وہ جنگ کا میدان ہویا علم ، معاشرتی پہلو یا سیاسی باریک بینی، عبادت وتقویٰ ہوکہ سماجی تعلقات آپ ہرمعاملے میں اپنی مثال آپ ہیں۔جب تک آپ لوگوں کی دینی ودنیاوی خدمت کافرض ادا نہ کرتے اس وقت تک مطمئن نہ ہوتے۔رات کے وقت کھانے کی چیزیں پشت پراٹھاتے اورغربا ومساکین کے گھروں میں پہنچاتے، انہیں آپ معلوم نہ ہونے دیتے کہ رات کے وقت ا ن کی دست گیری کرنے والا کون ہے؟

لوگوں کونمازپڑھاتے اوراپنے قول وعلم سے ان کوتعلیم دیتے، تہجدکی نمازاداکرتے اور رات زیادہ ہوجانے پر آرام فرماتے۔پھرصبح اندھیرے ہی مسجد میں چلے آتے۔آپ جب خلافت کے منصب پرفائز ہوئے تو کوفہ کے دارالامارہ میں قیام نہیں کیا۔بلکہ ایک کچے مکان میں رہائش اختیارکی۔دارالامارہ میں غربا کو رہائش دی۔آپ نے کپڑے اور غذا خریدنے کے لئے کئی مرتبہ اپنی تلوار فروخت کی تھی۔عقبہ بن علقمہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہواتو میں نے انہیں خشک روٹی کا ٹکڑا کھاتے ہوئے دیکھا۔میں نے کہا امیرالمومنین آپ روٹی کے خشک ٹکڑے کھارہے ہیں؟۔۔۔آپ نے فرمایا: ابوالجنوب رسو ل خداﷺ اس سے بھی زیادہ سوکھی روٹی کھایا کرتے تھے اور میرے کپڑوں کی بہ نسبت زیادہ کھردرے کپڑے پہنا کرتے تھے اور اگر میں نے حضورﷺ کے طریقے کو چھوڑ دیا تو مجھے ڈرہے کہ میں ان سے بچھڑ جاؤں گا۔

سائل کودیتے وقت مساوات کاہمیشہ خیال رکھا۔ایک دفعہ دوعورتیں آئیں اور اپنی محتاجی کا اظہارکیا۔آپ نے مستحق جان کر ان کو کچھ کپڑا اورکھانا خرید کر دینے کا حکم دیااور کچھ مال عنایت کیا۔لیکن ان میں سے ایک نے کہا کہ اس کوکچھ زیادہ عطاکیاجائے کہ وہ عرب ہے اوراس کی ساتھی غیرعرب۔آپ نے تھوڑی سی مٹی ہاتھ میں لی اوراسے دیکھ کرفرمایا۔”مجھے نہیں معلوم کہ اطاعت اور تقویٰ کے علاوہ کسی اوروجہ سے بھی اللہ نے کسی کوکسی پرفوقیت دی ہے۔‘‘
حضرت علی نے تمام زندگی اسلام اورمسلمین کی خدمت کرتے ہوئے تکالیف برداشت کیں۔چاہے وہ زمانہ پیغمبر اسلام کے ساتھ جنگوں میں شامل ہوکر شمشیرزنی کا ہویا زمانِ خلافت صحابہ ہو یا اپنی خلافت کا زمانہ، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ علی (رض ) نے سب سے زیادہ تکالیف اپنی خلافت اور امامت کے دور میں اٹھائیں کیونکہ آپ عدل وانصاف کانمونہ تھے۔اس کی وجہ سے مسلمانوں کے کئی گروہ آپ کے برخلاف ہوئے اورجنگ پر آمادہ ہوتے اورلوگوں کاایک گروہ جو خارجی کہلائے آپ کے مقابلے میں جنگ نہروان میں شکست خوردہ ہوکر واپس پلٹ گیا۔40ھ میں جنگ نہروان کے چند بچے خوارج نے مکہ میں جمع ہوکر حضرت علی کو قتل کرنے کے منصوبے پراتفاق کیا اور اس کے لئے عبدالرحمٰن ابن ملجم کا انتخاب کیا۔ وہ آخرماہِ شعبان میں کوفہ آیا اورمحلہ بنی کندہ میں خوارج کے ہاں قیام کیا۔مگرکسی کو اپنے ارادے سے آگاہ نہ کیا ۔

انیسویں رمضان کی شب کو حضرت علی اپنی دختر جناب اُم کلثوم کے ہاں تشریف فرماتھے۔انہوں نے جوکی دو روٹیاں ایک پیالہ دودھ کااورایک طشتری میں نمک رکھ کردیا۔آپ نے کھانے کودیکھ کر فرمایا:کہ میں نے رسول اللہﷺ کی پیروی میں کبھی یہ گوارہ نہیں کیا کہ ایک وقت میں دسترخوان میں دوقسم کی چیزیں ہوں۔اے بیٹی دنیا کے حلال میں حساب اورحرام میں عذاب ہے۔کیا تم چاہتی ہو کہ تمہارا باپ دیرتک موقع حساب میں کھڑا رہے۔ان دوچیزوں میں سے ایک اٹھالو۔جنابہ ام کلثوم نے دودھ کا پیالہ اٹھالیا۔آپ نے چند لقمے نمک کے ساتھ تناول فرمائے اور مسجد جانے کے ارادے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔جب صحن خانہ میں تشریف لائے تو گھرمیں پلی بطخیں پھڑپھڑانے اور چیخنے لگیں۔کسی نے بطخوں کو ہٹانا چاہا توفرمایا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔اور حضرت ام کلثوم سے فرمایا۔بیٹی یہ بے زبان جانور ہیں ان کے آب ودانہ کاخیال رکھنا، اگر نہ رکھ سکو توآزاد کردینا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ محراب مسجد میں تشریف لے آئے اور صبح کی پہلی رکعت سے سراٹھایا کہ ابن ملجم نے زہرمیں بجھی تلوار آپ کے سراقدس پرماری اورآپ نے بے ساختہ فرمایا۔’’  رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا‘‘۔اور پھر سورۃ طہٰ کی آیت تلاوت فرمائی:
’’منھا خلقنا کم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری‘‘۔’’ہم نے تم کو خاک سے پیداکیاہے اور اسی خاک میں واپسی پلٹ دیں گے،اورپھر اسی خاک میں تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے‘‘۔
ضرب کے بعدطبیب کوبلایاگیا۔طبیب نے زخم دیکھنے کے بعد کہا جتنا ہوسکے امام علی کودودھ پلایا جائے۔تاریخ میں ہے جب یہ خبر کوفے میں پھیلی توہر بچے کے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ تھا۔جو امام علی کو پکاررہے تھے۔یاعلی۔۔۔یاعلی۔۔۔یاعلی یہ دودھ ہمارے مولا کو دیں اورہم یتیم ہونے سے بچ جائیں۔اوربالآخر اکیسویں رات کا دوتہائی حصہ گزرا تو جان ،جان آفرین کے سپردکی!

Facebook Comments

مظفر عباس نقوی
سیاست ادب مزاح آذادمنش زبان دراز

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply