غیر اعلانیہ۔۔سلیم مرزا

جن دنوں کا یہ قصہ ہے ان دنوں محبت واقعی اندھی اور اندھا دھند ہوتی تھی ۔آج کل تو سترہ افئیرز اور اٹھرہ جگہ سے خوار ہوکے لڑکوں کو پتہ چلتا ہے کہ
“اوہو، نو نمبر کے منہ والی عندلیب ہی میری زندگی تھی “۔۔
رہی سہی کسر کمیونیکیشن نے نکال دی ہے ۔ہمارے زمانوں میں جہاں سوچ کی بھی رسائی نہیں تھی وہاں تک کیمرہ جارہا ہے ۔
لڑکے واٹس اپ پہ دوستوں کو شئیر کرکے بتا رہے ہوتے ہیں
“یار منصور، قسمیں یقین کر یہ تل گال کا نہیں ہے ”

باقی ستیاناس لائیو چیٹ نے کردیا ہے ۔دیکھ کر ڈیلیٹ کرنے کی بات تواب احمقوں کا قصہ لگتی ہے،کم سے کم شریف آدمی وہ ہے جو وائرل نہیں کرتا۔
لتھی چڑھی اب کسی کو بھی نہیں۔۔

ہمارے زمانوں میں بس لڑکی ہونی چاہیے تھی، اور اسکے سینے میں ایک دل، آجکل دل کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا ۔
صابر کو بھی اپنی پڑوسن اللہ رکھی سے عشق ہوگیا،
اللہ رکھی کا وزن یہی کوئی نوے سو کے اڑوس تھا ،
مگر پڑوس میں وزن کون دیکھتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

بھلے وقتوں عشق بھی زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوتا تھا کہ زور سے جپھی لگا کے “کڑاکا “نکال لیا،
چنانچہ کڑاکے کی سردی میں صابر کے ساتھ ملاقات کا وقت بمطابق لوڈشیڈنگ رات گیارہ بجے کا طے ہوگیا،
ہائے کیسی کیسی قدریں تھیں، رات گیارہ بجے کہا ہے تو گیارہ بجے ہی لائٹ جاتی تھی، آجکل چور اور عاشق واپڈا کے ہاتھوں غیر اعلانیہ ذلیل ہوتے ہیں ۔
صابر کا آبائی گھر متنازعہ تھا، ایک کمرے میں ٹوٹا پھوٹا سامان رکھ کے، موٹا تالا لگا کے، چچازاد نے قبضہ کیا ہوا تھا ۔
دوسرے کمرے میں صابر نے ایک چارپائی اور دو کرسیاں رکھ کر اپنا ہی بنی گالہ بنایا ہوا تھا ۔
بڑے سے صحن میں سے سیڑھیاں چھت پہ جاتی تھیں جن کے نیچے باتھ روم تھا ۔
باتھ کا درووازہ اتنا فرینڈلی تھا کہ اندر جاکے پتہ چلتا
“اوہو ۔بھائی جی آپ ہو “؟
سکھوں کے وقت کا مکان اتنا خستہ تھا کہ اس کے بارہ بج چکے تھے ۔
اللہ رکھی کا ابا باہر تھا ۔اس کا مکان دومنزلہ تھا ۔بچپن ہی سے ایک اینٹ چھوڑ کر نکلی دراڑوں سےاتر کر وہ صابر کی نیچی چھت پہ کھیلی کودی اور موٹی ہوئی تھی ۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق اللہ رکھی نے رات گیارہ بجے نکلی اینٹوں سے لٹک کر چھت پہ اتر نا تھا ۔
پھر صابر کے کمرےمیں شامل تفتیش ہوکر نیب کا بول بالا کرنا تھا ۔
ٹھیک ساڑھے دس بجے مہینوال کمرے میں واک مین لگا کر انتظار میں گانے سن رہا تھا ۔اور سوھنی ٹھیک گیارہ بجے اینٹوں سے بنی “دراڑوں “پہ پاؤں رکھتی نیچے اترنے لگی ۔جوانی کا جوش تھا یا موٹاپے کی زیادتی ۔برسوں کا تجربہ ہار گیا ۔اللہ رکھی ٹھاہ سے گری ۔دیمک زدہ بے وفا چھت بھی محبت کا بوجھ نہ سہار سکی ۔
اور سکائی لیب چھت توڑتی کمرے کے فرش پہ کریش لینڈنگ کرگئی ۔صابر کو دھماکے کا احساس تو ہوا ۔مگر یہ سوچ کر بیٹھا ریا کہ شاید کوئی ٹریکٹر ٹرالی سڑک پر سے گذری ھے
اللہ رکھی کو اللہ نے ہاتھ دیکر بچا لیا ۔ٹوٹا تو کچھ نہیں ۔کچھ اندرونی چوٹیں اور ہلکی پھلکی خراشیں آئیں ۔
صابر کے چچیرے بھائی کے جہیز میں آئے سارے اثاثہ جات ملیا میٹ ہوگئے ۔
برسوں سے وہاں قیام پذیر چوہوں کے خاندانوں پہ قیامت ٹوٹ پڑی ۔ایسے لگ رہا تھا جیسے مہر آبادی پہ سی ڈی اے نے دھاوا بول دیا ہو ۔
اللہ رکھی کو پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہوا کیا ھے؟
اندھیرے میں پہلے پانچ منٹ تو وہ دھیمے سروں روتی رہی اور صابر کو پکارتی رہی۔ پھر جب چوہے بیوی بچوں کی تلاش میں اس کے اوپر سے کودنے لگے تو اندھیرے  کا خوف عزت پہ بھاری پڑنے لگا۔
اس نے زور زور سے چیخنا اور دروازہ بجانا شروع کردیا ۔
صابر کو بھی احساس ہوا کہ کہیں کوئی پرابلم ہے ۔
وہ اٹھا آواز کے تعاقب میں تالا لگے دروازے کے پاس جا پہنچا تو ساری صورتحال سمجھ آگئی ۔
اس نے اللہ رکھی کو تسلی دی مگر چوہے تھے کہ اینکروں کی طرح پھدک رہے تھے ۔اور اللہ رکھی حکومتی مشیروں کی طرح چیخے جارہی تھی ۔
اب مسئلہ تالے کا تھا ۔تالا اتنا بڑا تھا کہ اس کو توڑنے کیلئے بم مارکہ ہتھوڑا چاہیے تھا ۔
صابر کو اندھیرے میں تالا توڑنے کو اینٹ تک نہیں مل رہی تھی ۔اب مجھ سے مت پوچھیے گا کہ آگے کیا ہوا؟
ناجائز تعلق کی کہانی کا کوئی انجام نہیں ہوتا ۔بس تماشا ہوتا ہے ۔اور یہ سب آپ کے سامنے ہورہا ہے ۔
ہمارے اثاثے بھی تباہ ہوئے اور چھت بھی گئی ۔
دیکھنا صرف یہ ہے کہ لائٹ آنے سے پہلے اسٹیبلشمنٹ تالا کیسے توڑے گی؟
اللہ رکھی کا کیا بنے گا۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply