عاشق۔۔۔۔۔مرزا مدثر نواز/تیسری ،آخری قسط

زید بن سعنہ جس زمانہ میں یہودی تھے‘ لین دین کا کاروبار کرتے تھے‘ آپﷺ نے ان سے کچھ قرض لیا‘ میعاد ادامیں ابھی کچھ دن باقی تھے‘ تقاضے کو آئے‘ آپ کی چادر پکڑ کر کھینچی اور سخت سست کہہ کربولے ’’ عبد المطلب کے خاندان والو! تم ہمیشہ یوں ہی حیلے حوالے کیا کرتے ہو‘‘۔ حضرت عمرؓ غصہ سے بیتاب ہو گئے‘ اس کی طرف مخاطب ہو کر کہا ’’او دشمن ِ خدا! تو رسول اللہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے‘‘۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا’’ عمرؓ! مجھ کو تم سے اور کچھ امید تھی‘ اس کو سمجھانا چاہیے تھا کہ نرمی سے تقاضا کرے اور مجھ سے کہنا چاہیے تھا کہ میں اس کا قرض ادا کر دوں‘‘ یہ فرما کر حضرت عمرؓ کو ارشاد فرمایا کہ قرضہ ادا کر کے بیس صاع کھجور کے اور زیادہ دے دو۔ایک دفعہ آپ کے پاس صرف ایک جوڑا کپڑا رہ گیا تھا اور وہ بھی موٹا اور گندہ تھا‘ پسینہ آتا تو اور بھی بوجھل ہو جاتا‘ اتفاق سے ایک یہودی کے یہاں شام سے کپڑے آئے‘ حضرت عائشہؓ نے عرض کی کہ ایک جوڑا اس سے قرض منگوا لیجئے‘ آپ نے یہودی کے پاس آدمی بھیجا‘ اس گستاخ نے کہا ’’ میں سمجھا مطلب یہ ہے کہ میرا مال یوں ہی اڑا لیں اور دام نہ دیں‘‘ آپ نے یہ ناگوار جملے سن کر صرف اس قدر فرمایاکہ ’’ وہ خوب جانتا ہے کہ میں سب سے زیادہ محتاط اور سب سے زیادہ امانت کا ادا کرنے والا ہوں‘‘۔غزوہ حنین میں آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا تو ایک انصاری نے کہا ’’ یہ تقسیم خدا کی رضامندی کے لیے نہیں ہے‘‘ آپ نے سنا تو فرمایا ’’خدا موسیٰ پر رحم کرے‘ ان کو لوگوں نے اس سے بھی زیادہ ستایا تھا‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عاشق۔۔۔۔۔مرزا مدثر نواز/قسط2
قریش (نعوذباللہ) آپﷺ کو گالیاں دیتے تھے‘ برا بھلا کہتے تھے‘ ضد سے آپ کو محمد (تعریف کیا گیا) نہیں کہتے تھے‘ بلکہ مذمم (مذمت کیا گیا) کہتے تھے‘ لیکن آپ اس کے جواب میں اپنے دوستوں کو خطاب کر کے صرف اسی قدر فرمایا کرتے کہ ’’ تمہیں تعجب نہیں آتا کہ اللہ تعٰالیٰ قریش کی گالیوں کو مجھ سے کیونکرپھیرتا ہے وہ مذمم کو گالیاں دیتے اور مذمم پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمدﷺ ہوں‘‘۔ حضرت اسماءؓ بیان کرتی ہیں کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں ان کی ماں جو مشرکہ تھیں‘ اعانت خواہ مدینہ حضرت اسماء کے پاس آئیں‘ ان کو خیال ہوا کہ اہل شرک کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے‘ آپ کے پاس آ کر دریافت کیا‘ آپ نے فرمایا’’ ان کے ساتھ نیکی کرو‘‘۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی ماں کافرہ تھیں اور بیٹے کے ساتھ مدینہ میں رہتی تھیں‘ جہالت سے آپ کو گالیاں دیتی تھیں‘ ابو ہریرہ نے خدمت اقدس میں عرض کی‘ آپ نے بجائے غیظ و غضب کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔جنگِ احد میں عبد اللہ بن ابی عین لڑائی کے پیش آنے کے وقت تین سو آدمیوں کے ساتھ واپس چلا آیاجس سے مسلمانوں کی قوت کو سخت صدمہ پہنچا‘ تاہم آپ نے درگذر فرمایا اور وہ جب مرا تو اس احسان کے معاوضہ میں کہ حضرت عباسؓ کو اس نے اپنا کرتہ دیا تھا‘ مسلمانوں کی ناراضی کے باوجود آپ نے اپنی قمیض مبارک اس کو پہنا کر دفن کیا۔
خلق عمیم میں کافر و مسلم‘ دوست دشمن‘ عزیز و بیگانہ کی تمیز نہ تھی‘ ابر رحمت دشت و چمن پر یکساں برستا تھا۔ یہود کو آپ سے جس شدت کی عداوت تھی اس کی شہادت غزوہ خیبر تک کے ایک ایک واقعہ سے ملتی ہے لیکن آپ کا طرز عمل مدت تک یہ رہا کہ جن امور کی نسبت مستقل حکم نازل نہ ہوتا ‘آپ ان میں انہیں کی تقلید فرماتے۔ ایک دفعہ ایک یہودی نے بر سر بازار کہا’’قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰؑ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی‘‘ ایک صحابیؓ یہ کھڑے سن رہے تھے‘ ان سے رہا نہ گیا‘ انہوں نے پوچھا کہ ’’ کیا محمدﷺ پر بھی؟‘‘ اس نے کہا ’’ ہاں‘‘ انہوں نے غصہ میں ایک تھپڑ اس کے مار دیا‘ آپ کے عدل اور اخلاق پر دشمنوں کو بھی اس درجہ اعتبار تھا کہ وہ یہودی سیدھا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ عرض کیا‘ آپ نے ان صحابیؓ پر برہمی ظاہر فرمائی۔ ایک دفعہ چند یہودی آپ کی خدمت میں آئے اور شرارت سے السلام علیکم کی بجائے السام علیکم (تم پر موت) کہا‘ حضرت عائشہؓ نے غصہ میں آ کر ان کو بھی سخت جواب دیا‘ لیکن آپ نے روکا اور فرمایا ’’ عائشہ بد زبان نہ بنو‘ نرمی کرو‘ اللہ تعٰلیٰ ہر بات میں نرمی پسند کرتا ہے‘‘۔
عشق رسول کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے میں آپﷺ کی تعلیمات کی پیروی کی جائے تا کہ دنیوی و اخروی کامیابی حاصل ہو سکے۔ نبی کا سچا عاشق ‘جھوٹا‘ بد دیانت‘ بد زبان‘ مغلظات سنانے والا‘ غیر اللہ کا مانگت‘ متعصب‘ دوسروں کا حق مارنے والا‘ راستے بند کرکے عوام الناس کو تکلیف میں مبتلا کرنے والا‘ زانی‘ شرابی‘نبی کے امتیوں پر کفر و گستاخی کے فتوے لگانے والاکسی صورت نہیں ہو سکتا۔ رب کی رحمتیں سمیٹنے کے لیے محمدکی غلامی شرط ہے اور محمد کا سچا غلام بننے کے لیے ایک اللہ کی پوجا ضروری ہے۔ پر وردگار سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے محبوب کا سچا عاشق بنا دے‘ آمین۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply