• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • طلباء تنظیمیں اور یرغمال تعلیمی ادارے۔۔۔۔آصف محمود

طلباء تنظیمیں اور یرغمال تعلیمی ادارے۔۔۔۔آصف محمود

قائد اعظم یونیورسٹی میں متحارب گروپوں نے صلح کر لی ہے اور انتظامیہ نے کسی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یعنی اب اگلے تنازعے اور فساد تک سب ہنسی خوشی رہیں گے ۔ نفرت ، بغض اور تعصب کا یہ الائو جب چند ماہ بعد دوبارہ بھڑکے گا تو یونیورسٹی انتظامیہ کے اعلی حضرت رونی صورتیں بنا کر ایک بار پھر پریشان ہونے کی اداکاری کریں گے ۔یہاں تک کہ ایک بار پھر صلح ہو جائے گی اور اگلے فساد تک سب میں ہنسی خوشی رہنے پر اتفاق ہو جائے گا۔ طلباء کی نادانیوں کے ساتھ ان کا کیرئر اور والدین کے خواب بھی چمٹے ہوتے ہیں اس لیے کسی کارروائی کی بجائے اگر صرف نظر کر لیا گیا ہے تو اس میں ہر گز کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سوال سے مگر ہر گز صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ان طلباء تنظیموں نے ملک اور قوم کو کیا دیا اور نفرت اور تعصب کے یہ پرچم صرف ان تعلیمی اداروں میں ہی کیوں لہرائے جا رہے ہیں جہاں متوسط طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں؟یہ طوفان بد تمیزی اگر بہت ہی مبارک چیز ہے تو اس کا داخلہ ان تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں ہو پاتا جہاں بالادست طبقے کی اولاد تعلیم حاصل کرتی ہے؟ تعلیمی ادارے تہذیب نفس کا مرکز ہوتے ہیں۔یہاں تعلیم کے ساتھ طلباء کی تہذیب بھی ہوتی ہے اور انہیں مختلف تعصبات سے بالاتر ہو کر جینے کا ڈھنگ سکھایا جاتا ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جو حریت فکر کا درس دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ زبان ، رنگ ،نسل اور ثقافت کے سارے حوالے محبت کے حوالے ہیں ۔ایک حد تک یہ پہچان اور نسبت کے حوالے بھی ہیں لیکن انہیں نفرت ، بغض اور تعصب کا عنوان نہیں بننا چاہیے۔لیکن ہمارے تعلیمی اداروں میں کیا ہو رہا ہے؟کسی دن جائیے اور جا کر دیکھ لیجیے۔ یہاں جتھے بن چکے ہیں۔ جو پنجاب سے آئے ہیں وہ پنجاب کونسل کے عنوان سے تعصب اوڑھے پھرتے ہیں۔ جو پشتون ہیں انہوں نے پشتون کونسل بنا رکھی ہے۔سرائیکیوں کا اپنا ایک گروہ ہے۔ کچھ بلوچ طلباء آئے تو وہ بھی اسی تعصب کے عنوان تلے جمع ہو گئے۔ یہ گروہ اول بہت ہی خوبصورت آدرش لے کر کھڑے کیے جاتے ہیں پھر رفتہ رفتہ یہ نفرت اور تعصب کا عنوان بن جاتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے اسی نفرت کے الائو میں دہک رہے ہیں۔ملک کی ایک نمایاں یونیورسٹی اگر اپنے طلباء کی تہذیب نفس ہی نہ کر سکے اور انہیں یہ بھی نہ سمجھا سکے کہ زبان اور ثقافت نفرت کے نہیں محبت کے عنوان ہیں تو یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ کو بیٹھ کر کسی شام اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ وہ کیا کاشت کر رہے ہیں۔ اسی یونیورسٹی کے بعض پروفیسر حضرات قومی مسائل پر اس رعونت سے گفتگو کرتے ہیں گویا فضل و دانش تو بس ان کے ابا نے انہیں میراث میں عطا کی ہے۔کیا ہم یہ سمجھیں کہ ان کے شاگردوں نے ان سے یہی رویہ سیکھا ہے اور جو سیکھا ہے اب وہ اسی کا ابلاغ کر رہے ہیں؟ تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں کا کام ہی کیا ہے؟کوئی اسلام کا نام لے کر طلباء کا استحصال کر رہا ہے تو کوئی قومیت اور لسانیت کے نام پر۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے واردات ڈال دیتا ہے۔ اہل ہوس نے جتھے بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی مذہب کے نام پر منظم ہوا تو کوئی زبان اور علاقائیت کے نام پر۔ ان سب نے اپنے اپنے جتھے بنائے اور مل کر وہ گندا کھیل کھیلا کہ تعلیمی اداروں کا ماحول تباہ کر دیا۔ بجائے اس کے کہ ہمارے تعلیمی ادارے علم و تحقیق سے وابستہ ہوتے ان گروہوں نے ان اداروں کو اکھاڑہ بنا دیا۔ ڈھٹائی یہ ہے کہ اس واردات کو یہ شعور کا نام دیتے ہیں۔ یہ اگر شعور ہے اور یہ جدو جہد اگر اتنی ہی مقدس ہے اور یہ اصل میں ایک گھنائونی واردات نہیں ہے تو پھر ایک سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ طلباء تنظیمیں صرف انہی اداروں میںکیوں کام کر رہی ہیں جہاں متوسط طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ا س ملک میں کتنے ہی نجی تعلیمی ادارے ہیں ، جو لوگ سرکاری تعلیمی اداروں میں دادا گیری کرتے ہیں کیا ان میں سے کسی ایک میں بھی ہمت ہے کہ ان اداروں میں بھی جا کر وہی کھیل کھیلیں؟اسلامی جمعیت طلبہ نے پورے ملک کی جامعات پر فتح کا پرچم لہرانے کی کوشش کی لیکن دوہرے معیارات کا یہ عالم ہے کہ جب انہی میں سے کچھ لوگوں نے اپنے نجی تعلیمی ادارے قائم کیے تو وہاں حکم جاری فرما دیا کہ طلباء تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور بے شک پوری دنیا پر چھا جائو لیکن ہمارے نجی تعلیمی ادارے کا رخ نہ کرنا ۔وجہ؟ صاف ظاہر ہے۔ یہ ذاتی ادارے تھے اور کاروبار کو نقصان پہنچانا کوئی حکمت نہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی اور بات ہے وہاں کون سا ذاتی مفاد مجروح ہو رہا ہوتا ہے۔ وہاں ہڑتالیں ہوں یا لاشے گریں ان کی بلا سے۔ طلباء میں صحت مندانی سرگرمیوں کا رجحان ہونا چاہیے نہ کہ اس جہالت کا کہ وہ مختلف عنوانات کے تحت جتھے بنائیں اور باہم دست وگریبان ہو جائیں۔مذہب ، قومیت اور زبان کی بنیاد پر طلباء کا استحصال ہو رہا ہے۔ ہر گروہ کو طالب علموں کی صورت میں مفت کے رجاکار دستیاب ہیں جن کی آڑ میں سبھی اپنی اپنی واردات ڈالتے ہیں۔یہ اصل میں ریاست کا کام ہے کہ وہ طلباء کو اس واردات سے محفوظ رکھے۔ ریاست نے جان بوجھ کر اس سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کیونکہ طلباء کے فکری استحصال پر قریب قریب سب کا اتفاق ہے۔ مفت کی بیگار ہاتھ آئے تو کون اسے ٹھکرا سکتا ہے؟ چنانچہ عمران خان بھی جب جمعیت کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے تو انہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ میں تعلیمی اداروں کو طلباء سیاست سے آزاد کر دوں گا۔ ان کا فیصلہ یہ ہے کہ اب انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی میدان عمل میں ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کو نمل کالج میانوالی میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply