اصلی وقدیمی مرض۔۔۔علی اختر

آپ نے کچھ حکیمی ادویات کے ساتھ ٫اصلی و قدیمی” لکھا دیکھا ہوگا۔ اس عبارت سے مراد یہ ہوتی ہے کہ  مارکیٹ میں موجود اس نام یا   ملتے جلتے ناموں کی ادویات جعلی ہیں اور محض یہی دوا اصلی ہے۔

اب جبکہ ادویات قدیمی ہوتی ہیں تو یقیناً امراض اس سے بھی قدیمی ہوتے ہونگے کیونکہ ظاہر سی بات ہے پہلے مرض وجود میں آتا ہے اور پھر دوا ۔

جیسے انسانوں کے قدیم امراض ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی قوموں کے بھی قدیم امراض ہوتے ہیں ۔آج میں پاکستانی قوم کو لاحق ایک اصلی و قدیمی مرض کی جانب قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

آپ یقینا ًًً یہ سوچ رہے ہونگے کہ اب میں وہی کرپشن، نا انصافی، اقربا پروری و طبقاتی تقسیم کی بات کرونگا ۔ نہیں جناب یہ مرض ان سب سے سوا ہے ۔ درج بالا مسائل ایک خاص طبقہ کی وجہ سے ہیں جن سے متاثر تو ساری قوم ہوتی ہے لیکن براہ راست ملوث کچھ افراد ہوتے ہیں۔ میں اس قدیمی مرض کی بات کر رہا ہوں جو ہر کچھ عرصہ بعد اس قوم میں کسی وبائی مرض کی طرح پھیلتا ہے۔ اس مرض سے انسانی اعصاب کچھ وقت کے لیئے شل ہو جاتے ہیں ۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل مفلوج ہو جاتی ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ  اس مرض کا وائرس قدرتی عمل کے یعنی مچھر ، چوہے ، پسو وغیرہ کے ذریعے وجود میں نہیں آیا بلکہ ہماری قوم کے ہی کچھ عقلمند افراد کی ریسرچ کا نچوڑ ہے ۔ وائرس کے موجد ان متاثرین وائرس کے دماغ کچھ عرصہ کے لیئے کنٹرول میں لے لیتے ہیں ۔ زمانہ قدیم میں کنٹرولنگ کے سگنلز بھیجنا کافی مشکل ہو گیا تھا ۔ اور وقت کے ساتھ ہونے والے آبادی کے اضافہ کی وجہ سے کم وبیش ناممکن نظر آتا تھا۔

لیکن پھر سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس قدیمی مرض کے وائرس کو ٹیلیویژن اور موبائل فون کے ذریعے پھیلانے اور کنٹرولنگ سگنلز بھیجنے کی بدولت   یہ کام اور بھی آسان ہو گیا۔

ویسے تو اس قدیمی مرض کا وائرس تمام قوم کو یکساں انفیکٹڈ کرنے کے لئے بنا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ  پندرہ سے پچیس سال کے درمیان کے افراد پر اس کا حملہ بہت شدید ہوتا ہے۔ اس عمر کے مریضوں پر اسکا حملہ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ  اگر کوئی  بھلا مانس انکا علاج کرنے کی کوشش کرے یا ہوش میں لانا چاہے تو یہ مریض مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اور گالیاں دینا شروع ہو جاتے ہیں

جیسا کہ  بیان کیا گیا کہ اس مرض کو پھیلانے پر بہت محنت ہوتی ہے تو وہیں اسکی روک تھام کی بھی بہت کوششیں کی گئی  ہیں ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ  اس مرض کے عروج کے وقت جبکہ مریض و مرض دونوں اپنے جوبن پر ہوتے ہیں کوئی  دوا اس مرض پر کارگر نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری جانب خوش آئندہ بات یہ بھی ہے کہ  یہ مرض جان لیوا نہیں ہے۔

ماہرین کے مطابق۔ ایک خاص وقت کے بعد اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور کچھ خاص قسم کے حالات وواقعات کے پیش نظر انسانی دماغ کے ٹشوز مضبوط ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ مریض شفایاب ہو جاتا ہے۔

اصل مسئلہ مریض کے شفایاب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے جب اکثر مریض شدید مایوسی کے سبب ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ نارمل بھی ہو جاتے ہیں اور پھر بعض مریض تو دوران مرض کی جانے والی حرکات پر ہنستے بھی پائے گئے ہیں ۔

ہاں کچھ حادثات ایسے بھی ہوتے ہیں جسکے نتیجے میں بہت سے مریض ایک ساتھ ہوش میں آجاتے ہیں اور بالکل نارمل حالت میں آجاتے ہیں ۔

ابھی حالیہ شفایابی کی لہر اس وقت دیکھنے میں آئی  جب بیان متعلق”یو ٹرن” سننے کو ملا ۔  مجھے یقین ہے کہ  ہوش میں آنے والے افراد یہ سوچ رہے ہونگے کہ وہ قوم جسکی “بیسک نیسیسٹی آف لائف ” کی قیمتیں اور “سیلز ٹیکس ” کی شرح بھی “آئی  ایم ایف” طے کرتی ہو ۔ جسکا بال بال قرضے میں جکڑا ہو ا ہو،اس ملک میں جب نعرے لگتے تھے ” میں ہاتھ نہیں پھیلاؤ نگا ” تو ہم یقین کرتے تھے اور تالیاں بجاتے تھے۔

“اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری” ۔ ” اور سیز پاکستانیوں کی جانب سے ملک واپس آجانا” ۔ ” کرپشن کا پیسہ اگلے ہی دن ڈیم فنڈ میں جمع ہو جانا ” “لاکھوں نوکریاں، بلکہ دوسرے ممالک کے لوگوں کا پاکستان میں جابز کے لیئے آجانا ” اور اس طرح کے اور بہت سے بیانات انہیں لطیفے لگنے شروع ہو گئے ہونگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں بہت سےافراد ابھی بھی اس اصلی و قدیمی مرض کا شکار ہیں لیکن امید ہے کہ  بہت جلد وہ سب بھی نارمل ہو جائیں گے اور امید پر تو دنیا قائم ہے سو ہم بھی اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply