سرتاجِ کائنات۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

سرتاجِ انسانیتﷺ۔
تاریخِ انسانی میں غیرمعمولی شخصیات کی تعداد زیادہ نہیں، عموماً ایسی شخصیات کی کسی ایک شعبے سے وابستگی ہی ان کی وجۂ شہرت و عقیدت ہوا کرتی ہے، دنیاوی و سیاسی فتوحات اور تاریخی و زمانی کامرانیاں ایک انتہا ہیں،( اور اس شعبے سے متعلقہ افراد کی فہرست، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے طلباء کو ازبر یاد ہے) تو روحانی انقلابات و اخلاقی تعلیمات دوسری انتہا ہیں، بہت کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی ایک ہی شخصیت ان دونوں (دینی و دنیوی) شعبہ جات میں کامیابی کو سمیٹ پائی ہو، بجز خاتم النبینﷺ کے، جو نہ صرف مذکورہ کامیابیوں کے واحد حامل قرار پائے ہیں، بلکہ انﷺ کی ذاتِ اقدس ان تمام تعلیمات و اخلاقیات کا منبع واقع ہوئی ہے۔
روحانیت کی بابت ذہنِ انسانی کبھی حقائق پر اکتفا نہیں کیا کرتا، بلکہ اسے اساطیری رنگ دیتے ہوئے ناممکنات سے جا ہمکنار کرتا ہے، بیشتر مقلّدین اپنے اپنے امامِ روحانیت کو خدائے کائنات کے قریب تر پیش کرتے ہوئے، اس کے حقیقی کمالات و شخصی مہارت کو پسِ پشت ڈال دیا کرتے ہیں، اس کی بد ترین مثال مذہبِ عیسائیت کے ماننے والوں میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں بہترین اذہان، سیدنا مسیح علیہ السلام کے روحانی پہلو کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی کوششوں میں حقائق سے اس قدر فرار اختیار کر چکے ہیں کہ نہ صرف مذہب وہاں ایک ثانوی و غیر ضروری حیثیت اختیار کر چکا ہے، بلکہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی خوبصورت شخصیت ان من گھڑت کہانیوں کے سائے میں دھندلا چکی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟، اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جب بھی انسان اپنے سے بلندتر روحانی شخصیت کے روحانی مقام کا تعیّن کرنے کی کوشش کرے گا تو یقینا ٹھوکر کھائے گا، اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے طرح طرح کے قصّے اپنے نبی و روحانی پیشوا کی شان میں گھڑنے سے اجتناب نہ کرے گا، اور نتیجتاً ، نہ صرف ایک مسخ شدہ روحانیت کی داغ بیل ڈلے گی، بلکہ اس روحانی پیشوا کی حقیقی تعلیمات سے دوری کے نفسیاتی عذر بھی میسّر آئیں گے۔
یہ ایک توجہ طلب نکتہ ہے کہ آنحضورﷺ کی ذات اقدس پر سنجیدہ تنقید کسی سیکولر یا ملحد طبقے کی طرف سے نہیں، بلکہ مختلف مذاہب کے علماء و محققین کی طرف سے دیکھنے میں آتی ہے، راقم الحروف کے نزدیک اس کی سب سے پہلی وجہ یہی ہے کہ مذکورہ ناقدین ، پیغمبرِ خدا کی شخصیت کو تمام بشری تقاضا جات سے مکمل مبرّا تصوّر کرتے ہوئے ایک افسانوی کردار میں ڈھلا دیکھنے کے خواہشمند ہیں، جیسا کہ وہ مختلف انبیاء کے روحانی ہیولے بناتے آئے ہیں، مگر آنحضورﷺ کا کمال یہی ہے کہ تمام معاشرتی و سماجی تقاضا جات کو بحیثیتِ انسان، احسن ترین طریقے سے نبھاتے دکھائی دیتے ہیں، یہ مقامِ افسوس ہے کہ ناقدین کی تنقید کے جواب میں فرزندانِ اسلام گاہے دیوارِ حق سے پھسلتے نظر آتے ہیں، اور حضورﷺ کی شخصیت کو ناقدین کے ان افسانوی پیمانوں پر ڈھالنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس میں گلدستۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے ہمیں ان کے روحانی مقام کے تعیّن کی قطعاً سعی نہ کرنی چاہیئے کہ یہ ہماری اوقات سے بڑھ کر چھلانگ لگانے والی حرکت ہوگی، بلکہ ہمیں انﷺ کے اسوہ کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے اعمال کی درستگی و اصلاح پہ توجہ دینی چاہیے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں فرمایا،

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا۔
(یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالی کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے، اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے)۔

آپﷺ کا اتباع و اطاعت ہی درحقیقت دنیوی و اخروی کامیابی کی ضمانت ہے، انسان اپنی پوری زندگی کے معاملات میں، آپﷺ کی زندگی سے مثال لے سکتا ہے کہ آنحضورﷺ نے کسی پہلؤ زندگی کو تاریک نہیں چھوڑا، مگر اولین شرط یہی ہے کہ انہیںﷺ بنی نوعِ انسان میں سے ہی چُنا ہوا پیغمبر تصوّر کیا جائے ، تب ہی نہ صرف ان کے اتباع کی خواہش جاگے گی، بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے، مقلّد پر آنحضورﷺ کی حقیقی انسانی عظمت بھی آشکار ہوگی کہ راہِ حق میں کیا کیا قربانی نہ دی گئی، کسی بھی مشکل کے جواب میں کبھی شکوہ زبان پر نہ لایا گیا، آسودگی میں شکر اور فقر میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا گیا۔
دلچسپ نکتہ ہے کہ دنیا کے تمام معروف فلاسفہ و افکار، آپﷺ کی بعثت سے پہلے منظرِ عام پہ آچکے تھے، گویا کہ انسانیت اپنی بلوغتِ شعوری میں قدم رکھ چکی تھی، اس ذہنی پختگی کے عروج پر ہی وہ الہامی پیغام بذریعہ رسول عربیﷺ تمام انسانوں تک پہنچانے کی شروعات ہوئی، جو حاصلِ تخلیقِ کائنات تھا، اور ہے۔ اسی لیے جب مشرکین آپﷺ سے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ، اور اللہ کے کسی ایسے معجزے یا کرامت کے رَد کرنے کے پیچھے یہی فلسفہ کارفرما تھا کہ انسانی ذہن اب اپنی بلوغت و پختگی کو پا چکا، اب حیران کن، یا عقل کو عاجز کر دینے والے معجزات کی ضرورت نہیں، اب تم اتنا فہم رکھتے ہو کہ بیرونی دنیا میں “کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ “، یا پھر دنیائے باطن کی بابت ” ڈوب کر اپنے من میں پا جا سراغِ زبدگی”، کی بنیاد پر ہی بآسانی حق تک پہنچ سکتے ہو، بشرطیکہ تم اس کے خواہاں ہو ، مشرکین کو واضح یہ بتلایا گیا کہ ان کی اپنی زبان میں سنایا جانے والا قرآن ہی سب سے بڑا معجزہ ہے کہ اس جیسے کلام کی قدرت تم میں سے کسی کو نہیں، اور صرف قرآن ہی نہیں، مشرکینِ مکّہ کے سامنے اسی قرآن کا انسانی پیکر بنفسِ نفیس موجود ہے، جس کی موجودگی میں کسی دوسرے معجزے کی ضرورت نہیں، اس ضمن میں ہمیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی وہ حدیث نہ بھولنی چاہیے، جب کچھ تابعین آپ سے آنحضورﷺ کے اخلاق و عادات سے متعلق دریافت کرتے ہیں، تو آپ رضی اللہ عنہا، ان کے اس سوال کا جواب، سوال کی صورت میں دیتی ہیں کہ، “تم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ؟”
آنحضورﷺ کا اخلاق و کردار پورے کا پورا قرآن ہے، قرآن و حضورﷺ کی روحانی، فکری و اخلاقی بلندیوں کے علاوہ، جو قدر مشترک ہے، وہ بہترین زبان ،نفیس کلام اور اکمل ترین طرزِ خطاب ہے،

Advertisements
julia rana solicitors

۔عربی زبان جاننے و سمحھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن مجید جیسا کلام نہ تھا نہ ہے، دوسری طرف حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جوامع الکلم سے نوازا گیا ہے۔ (صحیح بخاری) جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺچھوٹی سی عبارت میں بڑے وسیع معانی کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے تھے، اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ، میں عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہوں۔ یہ احادیث ایک کھلا پیغام دے رہی ہیں، ہم جانتے ہیں کہ اپنی مدح سرائی، آپﷺ کی طبیعت و کردار کا خاصہ نہ تھا، درحقیقت یہاں خوبصورت و نفیس گفتگو، اور اچھی و فصیح زبان کی ضرورت و استعمال کی اہمیت واضح کی جا رہی ہے، جو ہر اس شخص کیلئے ضروری ہے جو داعی ہو اور عشقِ رسولﷺ کا دعویدار ہو، افسوس کہ ایسے باریک مگر اہم ترین نکات امت کی اقدار میں شامل نہیں، اب ہم ہیں اور خادم حسین رضوی صاحب ہیں،،،اور ایک تماشائے ناتمام ہے۔ جبکہ صفائی کی اہمیت، عہدوپیمان کی پابندی، ملاوٹ و ناپ تول میں کمی کی سختی سے ممانعت اور ہمسایہ کے ساتھ نیک سلوک والی تعلیمات سے عملی طور پر ہمارا کچھ لینا دینا نہیں، اس کی اولین وجہ یہی ہے کہ امتیوں کی ایک بڑی تعداد حضورﷺ کی ذات کو ایک فردِ سماج کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کسی آسمانی و اساطیری ہستی سے تعبیر کرتے ہیں، اسی لیے ایسے اُمتیّوں کے نزدیک معاشرتی لوازمات و فرائض ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، تحت الشعور میں ایک احساس براحمان ہے کہ خطا کے پُتلے انسان کیلئے یہ سب کہاں ممکن ہے۔ حضورﷺ کا اسوۂ تو دشمنوں کے ساتھ بھی بھلائی کی ترغیب دیتا ہے، فتحِ مکہ کے موقع پر کون بھلا ایسے لوگوں کو معاف کر سکتا تھا، جن کی ساری کی ساری زندگیاں، آپﷺ اور آپ کے اقارب کو دکھ پہنچاتے، گایے شہید کرتے، گزریں۔ مکّہ کے مشرکین کا تکلیف دہ رویہ ہو، طائف کی وادی میں ظلم و ستم ڈھانے کا واقعہ ہو، غریب الوطنی ہو، معاشی و سماجی مقاطعہ ہو، عزیز ترین افراد کی لاشیں اٹھانے جیسا معاملہ ہو، آنحضورﷺ کی سیرۂ مبارکہ میں مشکل سے مشکل ترین واقعات ملتے ہیں، مگر اس آسمان نے ہر موقع پر آپﷺ کو صابر و حلیم پایا، دوسری طرف سُکھ بھرے لمحات اور دورِ خوشحالی میں ، بدترین دشمنوں نے بھی آپﷺ کو شاکر و سخی لکھا اور بتایا، اور یہی انﷺ کا اسوہ و اخلاق ہے، جس نے انسانیت کو حقیقی بلندئ اقدار بخشی۔ ہمارے معاشرے میں ختمِ نبوّت کے موضوع کو جو اہمیت حاصل ہے، اور بجا ہے، اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی، مگر آنحضورﷺ کا حقیقی رتبہ ختمِ نبوّت نہیں، بلکہ تکمیلِ رسالت ہے، نبوت (جو اللہ اور پیغمبر کے درمیان رابطہ ہے) کا اختتام پذیر ہونا یقینا ایک غیر معمولی واقعہ و اعزاز ہے، مگر رسالت (جو پیغمبر اور مخلوقِ خدا کے درمیان رابطہ ہے) کا تکمیل کو پہنچنا اعزازِ افضل ہے، اور بحیثیتِ پیغمبر، آنحضورﷺ کا یہ بلند ترین رتبہ ہے، افسوس کہ علماء کی اکثریت اس پہلو کو اجاگر کرنے میں زیادہ متحرک نہیں۔ آنحضورﷺ کے انسانیت کو دئیے گئے بلند اخلاقی و روحانی اقدار اپنی مثال میں یکتا ییں، ان کے احسانات کا بدلہ کسی صورت نہیں چکایا جا سکتا، مگر انﷺ کے اخلاق کی پیروی کی کوشش کرنا ہم سب کے ہاتھ میں ہے۔ “إِنَّ اللهَ وَ مَلائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَى النَّبِیِّ یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلیما”۔ (بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی آپﷺ پر درود و سلام بھیجو)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply