پاک بھارت جنگ ،بھٹو شہید بہت یاد آئے/ارشد بٹ

پاک بھارت چار روزہ جنگ میں انڈین فضائیہ پر پاکستانی فضائیہ کی برتری کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ آج پاکستان کے حکمران اور ریاستی ادارے بڑے فخر سے دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ایٹمی طاقت اور جدید میزائل سسٹم کی وجہ سے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر سیسہ پلائی دیور بن چکا ہے۔ اس موقعہ پر فوجی جنرل ضیاء کے ہاتھوں پھانسی چڑھائے گئے اور ایٹمی پروگرام کے خالق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی کے زمرے میں آئے گا۔ اس تحریر میں مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ آج پاکستان کا مضبوط دفاع اور قومی سلامتی بھٹو شہید کی پالیسیوں اور عملی اقدامات کے مرہون منت ہیں۔

پاک بھارت ۱۹۷۱ کی جنگ اور پاکستان کے مشرقی حصے کا ایک آزاد اور خودمختار ملک بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بچے کھچے پاکستان کا اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا گیا۔ ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہی بھٹو کو تاریخی چیلنجوں اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھارت کی قید میں نوے ہزار سے زیادہ سول اور فوجی قیدیوں کی وطن واپسی، پاک بھارت جنگ کے نتیجہ میں انڈیا کے قبضہ سے پاکستانی علاقوں کی بازیابی، سر زمین بے آئین کے لئے جمہوری آئین کی تشکیل، شکست خوردہ ملک کے دفاعی مستقبل کا تحفظ، بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری اور تعلیمی پسماندگی جیسے بڑے بڑے مسائل تھے جو پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کو مخدوش بنا رہے تھے۔

آئین ۱۹۷۳۔

معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان کو ایک چوتھائی صدی تک متفقہ جمہوری آئین سے محروم رکھا گیا۔ کبھی سول افسر شاہی اور کبھی فوجی مارشل لاء جمہوری آئین مرتب اور نافذ کرنے کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے۔ تاریخ نے یہ کارنامہ بھٹو شہید کے نام لکھنا تھا۔ بھٹو شہید کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی یعنی آئین ساز اسمبلی میں آئین منظور کرانے کے لئے دوتہائی اکثریت حاصل تھی۔ وہ دیگر جماعتوں کی مدد و حمائت کے بغیر آئین ساز اسمبلی سے آئین منظور کرا سکتے تھے۔ مگر بھٹو نے سیاسی اتفاق رائے سے ایک متفقہ جمہوری وفاقی آئین مرتب کرانے کا راستہ اپنایا۔ مستقل مزاجی اور صبر آزما جمہوری ڈائیلاگ کے ذریعے تمام سیاسی جماعتوں کے اشتراک اور اتفاق رائے سے ۱۰۔ اپریل ۱۹۷۳ کو قومی اسمبلی سے آئین پاکستان منظور کرایا گیا۔ دس سال سے زیادہ جنرل ضیاء مارشل لاء اور نو سال کے قریب جنرل مشرف مارشل لاء کے آمرانہ جھٹکوں کو برداشت کرنے کے بعد بھی پاکستان کا آئین ایک زندہ دستاویز کی حثیت میں موجود ہے۔ ریاستی اداروں کی ماوراء آئین مداخلتوں کے باوجود ملک کی تمام سیاسی قوتیں اس آئین پر متفق ہیں اور اس پر عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔ مختلف مفادات کی حامل مین سٹریم بڑی سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں، چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتیں ہوں یا سیاست و حکومت پر اثر انداز ہونے والے خفیہ ہاتھ، سب کے سب ملک کو درپیش مسائل کا حل آئین پاکستان کے مطابق کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ آج ۱۹۷۳ کے آئین کو وفاقی یکجہتی، جمہوری بالادستی، صوبائی اور عوامی حقوق کا پاسدار سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی حقیقی جمہوری قوتیں سجھتی ہیں کہ آئین ملک کے استحکام، وفاق کی مضبوطی اور سول بالادستی کا علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کا بھی ضامن ہے۔

شملہ معاہدہ

ذوالفقار علی بھٹو سیاسی بصیرت اور تاریخی شعور رکھنے والے مدبرسیاستدان تھے۔ زمینی حالات کا ادراک کرتے ہوئے انہوں نے انڈیا کی طرف امن اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے انڈیا کے ساتھ جولائی ۱۹۷۲ کو شملہ امن معاہدہ پر دستخط کئے۔ جس کے نتیجہ میں انڈیا میں قید نوے ہزار سول اور فوجی پاکستانیوں کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ شملہ معاہدہ کی روشنی میں انڈین قبضہ سے پاکستانی سرزمین بازیاب ہوئی ۔ اس معاہدہ میں پاکستان اور انڈیا متفق ہوئے کہ دونوں ممالک تمام اختلافی مسائل بشمول مسئلہ کشمیر باہمی بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔ اسی معاہدہ کے تحت انڈین زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے درمیان ۱۹۴۹ سے برقرار فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ جسے دونوں ملکوں کے درمیان ڈی فیکٹو سرحد کا درجہ حاصل ہوا۔ ۱۹۹۹ میں جنرل مشرف کے کارگل ایڈونچر، مئی ۲۰۲۵ کو چار روزہ فضائی معرکہ آرا ئی اور متعد مواقعے پر کنٹرول لائن پر فائرنگ کے تبادلے کے باوجود دونوں ممالک شملہ معاہدہ منسوخ کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ نواز واجپائی ڈائیلاگ کے نتیجہ میں لاہور ڈیکلیریشن، مشرف واجپائی، مشرف من موہن سنگھ مذاکرات کے ساتھ ساتھ پاکستان انڈیا کے درمیان جامع مذاکرات وغیرہ شملہ معاہدہ کی طے شدہ شرائط کے تحت کئے جاتے رہے ہیں۔ سابقہ وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری متعد بار کہہ چکے ہیں کہ جامع مذاکرات اور اعلیٰ ترین سطح کے رابطوں کے نتیجہ میں دونوں ممالک مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کاتفصیلی ذکر خورشید محمود قصوری اپنی کتا ب ’’ نائدر اے ہاک، نار اے ڈوو’’ میں کر چکے ہیں۔ آج بھی شملہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان باہمی ڈائیلاگ شروع کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد۔

انڈیا نے ۱۹۷۴ میں پہلے ایٹمی ٹیسٹ دھماکا کیا تھا۔ انڈیا کے ایٹمی طاقت بننے سے علاقائی قوت کا توازن دھرم بھرم ہو گیا۔ہمسایہ ایٹمی اور فوجی طاقت نے پاکستان کی قومی سلامتی اور دفاع کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا تھا۔ بھٹو قائل ہو چکے تھے کہ اب خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا، انڈین بالادستی اور فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم بھٹو نے بلا تاخیر پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی ٹھان لی۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بعد انڈین جارحیت کا سدباب اور انڈین بالادستی کے عزائم کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔ ایٹمی پروگرام کے لئے مالی وسائل کی فراہمی، نیوکلئیر ماہرین کی تلاش اور نیوکلئیر ٹیکنالوجی کی برآمد کرنے کی کہانیاں کئی کتابوں میں بیان ہو چکی ہیں۔ بہت مختصر عرصہ میں ایٹمی پروگرام کا عملی شکل اختیار کر لینا بھٹو کی ذہانت، درست و بر وقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت، بین لااقوامی تعلقات میں مہارت کی وجہ سے ممکن ہوا۔ بھٹو کی مرہون منت آج پاکستان سات عالمی ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے خطے میں بڑی خطرناک جنگوں کا راستہ روک دیا ہے۔ ۱۹۹۹ میں کارگل جھڑپوں اور حالیہ چار روزہ فضائی جنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو انڈیا ، نہ ہی پاکستان اور نہ ہی عالمی طاقتیں دونوں ملکوں کے درمیان بڑی اور طویل جنگ برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے دونوں ہمسایہ ممالک کا ایٹمی اسلحہ سے لیس ہونا ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ پاکستان کا میزائل پروگرام بھی ایک دوسرے بھٹو یعنی بھٹو شہید کی دختر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کی سفارتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

پاک چین دوستی ۔

ذوالفقار علی بھٹو کو پاک چین دوستی اور سٹریٹجک پارٹنرشپ کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ بھٹوپاکستان کو مغربی فوجی معاہدوں اور معاشی تسلط سے باہر نکالنے کے حامی تھے ۔ وہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئےچین کے ساتھ فوجی اور اقتصادی اتحاد اور سٹرٹیجک شراکت کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے چین نے پاکستان کو جو دفاعی اور نیوکلئیر ٹیکنالوجی فراہم کی کسی اور ملک کو نہیں دی۔ بھٹو شہید نے چین کے ساتھ جس خصوصی اور طویل المدتی سٹریٹجک پارٹنرشپ کی بنیاد رکھی وہ آج پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے لئے سنگ میل کی حثیت رکھتی ہے۔

اوورسیز پالیسی، شناختی کارڈ کا اجراء۔

پاکستان میں ۱۹۷۳ سے قبل شہریوں کی شناخت کے لئےکوئی ٹھوس دستاویز نہیں تھی۔ بھٹو حکومت نے ۱۹۷۳ سے قومی شناختی کارڈ کا اجراء شروع کیا۔ شناختی کارڈ سسٹم نے قومی پاسپورٹ کی جلد فراہمی کو ممکن بنا دیا۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی آسانی سے دستیابی نے لوگوں کے لئے بیرون ملک سفر کرنا آسان کر دیا۔جو مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں لاکھوں پاکستانیوں کی معاشی ہجرت کا سبب بن گیا۔

بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا۔ لاہور میں ۱۹۷۴ کو منعقد ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس نے پاکستان کے عرب ممالک سے قریبی تعلقات قائم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ بھٹو حکومت کی پالیسیوں کی بدولت آج تک لاکھوں پاکستانی مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ممالک میں روزگار حاصل کر کے اپنے خاندانوں کی زندگیوں میں خوشحالی لا رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی خون پسنیے کی کمائی کی بدولت ریاست پاکستان کو سالانہ تیس ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ مل رہا ہے۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر پاکستانی معیشت کے لئے رھیڑ کی ہڈی کی حثیت رکھتی ہے۔

یہ سب بھٹو کی فہم و فراست سے ممکن ہوا۔

julia rana solicitors

کیا آئین پاکستان کے بغیر ملک کی وحدت، وفاق کی یکجہتی، جمہوری حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور ممکن ہو سکتا ہے۔ آئین پر اسکی روح کے مطابق عمل نہ کرنے سے آئین کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی۔ بلکہ آئین کی موجودگی جمہوری قوتوں کو آئین پر عملدرآمد کے لئے جدوجہد پر متحرک کرتی ہے۔ حقیقی جمہوری قوتیں غیر آئینی یا آئین سے ماوراء اقدامات کی مخالفت کرتی ہیں اور آئینی جمہوری نظام کی اصل شکل میں بحالی کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کا عہد کیا جاتا ہے۔ ایٹمی پروگرام ملک کے دفاع کی بنیاد ہے جبکہ پاک چین اسٹریٹجک اشتراک پاکستان کے دفاع اور سلامتی کا اہم ستون ہیں۔ شملہ معاہدہ آج بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان بات چیت کے دروازے کھولنے کا راستہ ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کے بغیر ملکی معاشی ترقی کا تصور محال ہے۔ یہ کہنا سچ ہو گا کہ یہ سب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی فہم و فراست سے ممکن ہوا۔ ملک کے دفاع اور قومی سلامتی کو ناقابل تسخیر اور معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے پاکستان اور عوام بھٹو شہید کے شکر گزار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply