فیض انقلابی نہیں تھے۔۔۔ انعام رانا

پردیس کا اک المیہ ہے کہ کئی کتب جو کبھی ہاتھ بھر کی دوری پہ ہوتی تھیں، اب ایک یاد ہیں۔ والدہ نے، جو ہمیشہ ہی میری کتابوں کے انبار سے پریشان رہیں، میرے پاکستان سے نکلتے ہی فورا سب کتابیں خالد بھائی کے کواٹر میں منتقل کیں، چلئیے اتنا تو ہوا کہ اب خالد بھائی کو بھی پتہ ہے کہ فیض انقلابی تھے یا نہیں۔ خیر ایسے میں بس یادداشت کے سہارے کچھ لکھنا پڑتا ہے، کچھ واقعات جو فیض کے متعلق تھے۔

دو چھوٹی بچیوں کا باپ، ایک جوان بیوی کا شوہر رات گئے بستر سے اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر کئی برس زنداں میں یوں گزارتا ہے کہ ہر آہٹ پہ موت کی آہٹ کا گماں ہوتا ہے۔ پنڈی سازش کیس خواہ فسانہ تھا، مگر “شاعر” کی جوانی کھاتی ہوئی قید ایک حقیقت تھی۔ ہاں مگر وہ “شاعر” جیل کی سلاخوں سے بھی کالج کی لڑکیاں امپریس کرنے کے خواب نہیں دیکھتا، روشن صبحوں کی نوید دیکھتا تھا، مایوسی کے بجائے امید بھرے نغمے لکھتا تھا۔

سویت یونین کی ایک سرد شام میزبان “شاعر” سے کہتا ہے کہ کیا جانا ضروری ہے؟ فیض سگریٹ کا کش کھینچتے ہیں، اپنی روایتی کھوں کھوں کے ساتھ کہتے ہیں ہاں جانا تو ہو گا۔ میزبان کو فکر ہے کہ جان کا خطرہ ہے۔ فیض کا جواب ہے ہاں ایسا ہوا تو برا ہو گا، مگر جانا تو ہو گا، وہ میرا وطن ہے، میرے لوگ میرے منتظر ہیں۔

لیاقت سے لے کر ضیا تک کون تھا جو فیض سے خوش تھا۔ کبھی جیل، کبھی بیروزگاری تو کبھی ذہنی اذیت۔ جس کا جو بس چلا وہ فیض کی جھولی میں ڈالتا چلا گیا، وہ جھولی جو “فقط ایک شاعر” کی جھولی تھی۔ جو جھولیاں گل و گلزار، لب و رخسار کی باتیں کرتے ہوے حکمرانوں کے قصائید کہتے ہوے اٹھیں، ان میں تو جانے کیا آیا، مگر ایک “شاعر فیض” کی جھولی میں عوامی حقوق کی بات کرتے ہوے اذیت ہی آئی۔

فیض گزرے، گو زرا مایوس سے گزرے کہ دم آخر بھی صبح بے نوید اور داغ داغ سی تھی اور محفل میں ہاو ہو بھی سنائی نا دیتی تھی، مگر قبر میں یوں اترے کہ دلوں میں مکین ہو گئے۔ ہماری نسل جو فیض سے ملی نہیں بس انکو پڑھا، انکے آدرشوں کو انقلابی جان کر انھیں گنگناتے رہے۔ مگر “حریت و عوامی جدوجہد” کے شاعر محترم امجد اسلام امجد نے ہماری غلطی و غلط فہمی کی درستگی فرماتے ہوے انکشاف کیا کہ “فیض سوشلسٹ یا انقلابی نا تھے ، بس شاعر تھے اور اس وقت سوشلزم کا فیشن تھا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

فیض آج اقبال کی مانند ایک پراڈکٹ بن چکے۔ جو کبھی عوامی میلہ تھا وہ آج اپر مڈل کلاس کا “کارپوریٹ فیض میلہ “ بن چکا جہاں کامریڈ راشد رحمان اور کامریڈ تیمور رحمان کے بولنے پہ پابندی ہے۔ اب فیض کے نام پہ کارپوریٹ سرگرمی ہوتی ہے، فیض کے استاد اور ایلس فیض کی بہن کے بیٹے سلمان تاثیر کے قاتل کو ہیرو سمجھنے والے وزیر اطلاعات کو مہمان بنایا جاتا ہے اور امجد اسلام امجد ہمیں بتاتے ہیں کہ فیض انقلابی نہیں بلکہ “فیشنی شاعر” تھے۔ فیض کے جنازے والے دن اپنے اعزاز میں تقریب منعقد فرمانے والے احمد ندیم قاسمی کے خوشہ چیں امجد نے درست فرمایا، فیض انقلابی نا تھے بلکہ “سوشلزم کے وبائی فیشن” کا شکار ہو گئے۔ عنقریب حبیب جالب کے اس وبا کے شکار ہونے کا انکشاف شاید استاد گرامی عطا الحق قاسمی فرمائیں گے۔
فیض نے عمر کے آخری حصے میں اک نوجوان کے “فلاں مخالف نے آج اپ کی تعریف میں لکھا ہے” پہ تبصرہ  فرماتے ہوے کہا تھا “بھئی، آج کل ہماری تعریف زرا فیشن ہو گئی”۔ تو بھائی، آج کل فیض کی تحقیر بھی ایک فیشن ہو گئی ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply