تو کیا یہ طے ہے کہ ہمیں کسی حال میں سکون نہیں ۔۔۔فرحان شبیر

یعنی صدر کے علاقے کی تجاوزات کو پچاس سالوں سے کوئی نہیں ہٹا سکا اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا مضبوط مافیا تھا اور ابھی بھی ہوگا جسکے سامنے مشرف کے دور کا طاقتور ناظم بھی کچھ نہیں کرسکا ۔ کتنے آئے کتنے گئے لیکن یہ تجاوزات اپنی جگہ رہیں ۔ صدر کی قدیم تاریخی ، خوبصورت ، گرینائٹ پتھروں سے بنی عمارتیں ، ہورڈنگز ، اسٹالوں، آگے بڑھا کر بنائی گئی دکانوں سے چھپتی چلی گئیں ۔ تین لین کی سڑکوں کا ٹریفک ایک لین پر آگیا ۔ سڑکوں پر پیدل چلنا تک دشوار ہو کر رہ گیا ۔

شہریوں کا راستے کا حق عرصے دراز سے مارا جارہا تھا اور کوئی شہریوں کا انکا حق دلانے کی کوشش کرنے کی سوچتا تک نا تھا ۔ بھتے اور منتھلی کی پوری ایک زنجیر تھی جس میں تھانیدار سے لیکر ، صدر کے علاقے کا ہر سرکاری عہدیدار اور وہاں سے منتخب اسمبلی ارکان بندھے ہوئے تھے ۔ جب ہی تو اس کو مافیا کہتے ہیں ۔ قبضہ مافیا ۔ اب اگر چیف جسٹس کے حکم سے ہی سہی ، اس مافیا پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے اور تجاوزات ہٹ ہی رہیں ہیں تو بجائے اسکی تحسین کرنے کے اس میں بھی کیڑے نکالے جارہے ہیں ۔

ان تجاوزات نے سالوں سے کراچی کا نقشہ اسکا حسن بگاڑ کر رکھ دیا تھا ۔ صدر کے علاقے سے گزرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا ۔ اور کبھی یہ ماضی میں اپنی مثال آپ تھا ۔ گرینائٹ پتھروں سے بنی انگریز دور کی عمارتیں اور انکا بہترین آرٹیکچر نگاہوں کو کھینچتا تھا ۔ زیب النساء اسٹریٹ اور اطراف کی شاہراہیں پیرس اور لندن کی گلیوں کی شاہراہوں سے کم نظارہ نہیں پیش کرتی تھی ۔ ان شاہراہوں پر فارنرز کا مٹر گشتی کرنا ، لیدر اور گارمنٹس شاپس سے خریداریاں کرنا معمول کی بات تھا ۔ 90 تک ان گنہگار آنکھوں نے بھی صدر ، ایمپریس مارکیٹ، زینب مارکیٹ میں گوروں اور گوریوں کو گھومتے دیکھا ہے ۔
پھر جہاں ہر چیز پر زوال آیا تو قبضہ مافیا ، تجاوزات مافیا ، بے شرم اور بے حس مافیاز نے ان عمارتوں کے گرد واقع جگہوں کو اپنے پنچہ خون آشامی کا نشانہ بنایا ۔ ٹیڑھی میڑھی، ان چاہی ، من چاہی ، بھائی لوگوں کی چاہی تجاوزات اور چائنا کٹنگ نے پورے شہر کے حسن پر چیچک کے داغ بٹھا دیا ۔ کراچی کو بد صورت بنا کر رکھ دیا ۔

صدر کے علاقے میں تجاوزات کے اٹھنے ، ناجائز دکانوں کے ٹوٹنے پر   دکانداروں کے حقوق میں افسردہ ہونے والوں سے گذارش ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر ان تجاوزات کی بنا پر کراچی کے 2 کروڑ سے زائد شہریوں کے ہزاروں ورکنگ آورز ضائع ہوتے ہیں ۔ کراچی کی ورکنگ کلاس کے آدھے لوگوں کو صدر سے گزرنا لڑتا ہی ہے اور اس مقصد کے لئیے پیک آورز میں صدر کا علاقہ آپکا ایک گھنٹہ بڑے آرام سے کھا جاتا ہے ۔ جنہیں سرجانی سے آئی آئی چند دیگر روڈ آنا جانا پڑتا ہے کبھی ان سے ان تجاوزات کا درد پوچھیں کیسے سرجانی یا ملیر سے صدر آنا ایک طرف پھر صدر سے آئی آئی چندریگر روڈ کا سفر ایک طرف ۔ حضور ، ان ہزاروں شہریوں کا بھی کوئی حق ہے کہ نہیں۔ آدھی آدھی شاہراہ پر اسٹالز اور گاڑیوں کی پارکنگ کا عذاب ۔ سارا سفر کوفت اور موبائل اسنیچنگ کے خوف میں کٹتا ہے ۔ ایک دن صدر کا چکر لگانا پڑجائے بندہ چڑچڑا ہو کر رہ جاتا ہے ۔

پھر ایک بات اور کہ جی اس سے پہلے اس کو پکڑیں اس سے پہلے اس کو پکڑیں ، اسکو چھوڑیں اسکو پکڑیں ۔ یہی تماشہ کرتے کرتے ستر سال گزر گئے ۔ اور کوئی خرابی ختم نہیں ہو پا رہی ۔ یعنی وہ ٹھیلے والا بھی تو اس سارے کھیل میں شامل تھا ۔ جو منتھلی، ڈیلی دیکر راستہ گھیر کر کھڑا تھا اور یہ نہیں کہ کما نہیں رہا تھا ۔ صدر میں الیٹرانکس کے ٹھیلے لگانے والوں نے ٹیکنو سٹی میں دکانیں بنا لیں اور ٹھیلہ بھی نہیں ہٹایا ۔

اور ایک اور بات کہ جی پہلے متبادل انتظام کرایا جائے پھر تجاوزات ہٹائیں جائیں ۔ بھائی ایک تو یہ کوئی اصول ہی نہیں ۔ کسی کے خالی پلاٹ پر قبضہ ہوجائے وہ تو کبھی نہیں کہتا تھانیدار سے کہ جناب پہلے اسکا متبادل انتظام کرا جائے اور پھر میرا پلاٹ واپس دلایا جائے وہاں تو سب دن رات ایک کر دیتے ہیں ۔ یہاں جب تجاوزات ، قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن ہوگا تو فورا ً یہی راگ الاپنا شروع کردیا جاتا ہے کہ متبادل انتظام کیا جائے ۔ اور یہ بھی کیا جا چکا ہے کون نہیں جانتا کہ ماضی میں خاصی کوششیں کی گئیں کہ کراچی کی سریا مارکیٹ ، جونا مارکیٹ ، تھوک اور ہول سیل مارکیٹوں کو ناردرن بائی پاس منتقل کیا جائے لیکن کوئی دکاندار کبھی تیار نہیں ہوتا ۔ اب صدر کا ٹھیلہ چھوڑ کر کوئی مر بھی جائے تو سرجانی ٹاون میں کیوں دکان لے گا ۔

جہاں تک بات مزدور کے حقوق کی ہے تو معاشرے پہلے تو ایسے چلن بننے ہی نہیں دیتے کہ کوئی پہلے کسی فٹ پاتھ دکان بنا لے اور بعد میں خود کو مزدور ڈیکلیئر کرکے دکان ٹوٹنے پر ظلم کی دہائی دے ۔ اس کیس میں مزدور ظالم ہے جو راہگیر کے راستے کا حق روک کر اس پر ظلم کر رہا ہے ۔ لفظ یا کوئی پیشہ نا ہمیشہ مظلوم ہوتا ہے نا ہمیشہ ظالم ۔ اگر امیر کی دکان ہے تو اسکا بھی حق ہے اسکی دکان میں آنے جانے والوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نا ڈالے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

معاشرے قانون سے چلتے ہیں نا کہ پیشوں سے ہمدردی یا نفرت کے جذبات سے ۔ معاشرے اس وقت چلتے ہیں جب وہ قانون کو فوری نافذ کرنا شروع کرتے ہیں نا کہ پہلے اس کو پکڑ ، پہلے اسکو پکڑ کی گردان کرکے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply