قرآن کی طرف لوٹنے کی صدی آچکی ہے۔۔۔۔۔رضوان خالد چوہدری

اعتدال اور روشن خیالی کی بات کرنے والوں پر فوراً  مغرب کی تقلید کا الزام لگا دینے والا موجودہ دور کا مذہبی طبقہ یہ نہیں جانتا کہ انتہاپسندی, تنگ نظری اور تشدد پسندی جو آج اسلام کی پہچان بنا دی گئی ہے, اسی مذہبی طبقے نے ہی چند سوسال پہلے مغرب سے اسلامی معاشرے میں درآمد کی تھی ورنہ اسلام تو شروع سے روشنی کا دین ہے۔
ابتدائی اسلامی معاشرہ ایسا روشن خیال تھا کہ ایک غلام کے بیٹے ابوحنیفہ کو اتنا بڑا مرتبہ دیا کہ آج چالیس کروڑ حنفی اسی غلام کے بیٹے سے اپنی شناخت جوڑتے ہیں۔
شیعہ  بھائیوں سے پوچھیے انکی ہر امام بارگاہ پر جو ہاتھ بنا ہوتا ہے وہ کس کے بیٹے کی علامت ہے۔ تیسری اور چوتھی اسلامی صدی میں دنیا کے ایک سو تیس نامی گرامی سائنسدانوں میں سے گیارہ غیر مسلم تھے اور وہ بھی مسلمان سائنسدانوں کے شاگرد تھے۔
اس وقت موسیقی کے عالمی ماہرین کی لسٹ دیکھ لیجیے, یا مصور وں اور فائن آرٹس کے بڑے ناموں کی لسٹ نکال لیجیے, فلسفیوں کی لسٹ اٹھا لیجیے, یا سماجی سائنسدانوں کی,ہر علم کے ماہرین کو اس دور کی اسلامی ریاست وظائف اور اکرام دیتی نظر آئے گی۔
مغرب کی ڈارک ایج شروع ہوئی تو وہاں کلیسا نے مذہب کے نام پر تنگ نظری, تشدد اور انتہاپسندی کو فروغ دیتے ہوئے معاشرے کے وسائل پر قبضہ کرنا شروع کیا۔
اس وقت کے عیسائی بادشاہ اندھی طاقت چاہتے تھے اور کلیسا شریک اقتدار رہنا چاہتا تھا۔
ان دونوں کے کامیاب گٹھ جوڑ سے مغرب جہالت میں ڈوب گیا اور آمریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ مغربی ثقافت کا حصہ بن گئی۔
مضبوط اقتدارکے خواہش مند مسلمان خلفاء نے اپنے مغربی ہمسائیوں سے یہی ماڈل مستعار لیا اور اپنے ہاں کے مذہبی طبقے کو عین وہی مقام اور ذمہ داری عطا کی جو مغربی معاشرے میں کلیسا کا خاصہ تھی۔
اس کے بعد مذہبی طبقے نے ہر معاشرتی برائی میں مغرب کی تقلید کی۔
ہمارے ہاں بھی مغرب کی طرح سائنسدان اور فلسفیوں سمیت دنیاوی علوم کا ہر ماہر ملعون قرا ر پایا۔ اسلامی معاشرے میں کلیسا کی طرح مذہبی طبقہ مقدس قرار پایا۔
مغرب نے تو کلیسا سمیت اپنا دین بھی چھوڑ دیا اور اور نام نہاد حب الوطنی کو بھی خیرآباد کہتے ہوئے حکمرانوں کو بھی سرعام پھانسیاں دیں   یعنی مغرب نے بربریت اور جہالت سمیت ڈارک ایج کی اکثر قباحتوں سے اپنی جان چھڑا تے ہوئے دوبارہ علم کی راہ لی,  لیکن ہمارے حکمران طبقے کا مذھبی طبقے سے گٹھ جوڑ نہ کبھی ٹوٹ پایا نہ اس کے پچھلی صدی تک آسانی سے ٹوٹنے کی امید پیدا ہوئی تھی۔
قرآن جو حقیقی اسلام ہے سے تو ویسے ہی اٹھارہ قدغنیں لگا کر مسلمانوں کو کامیابی سے دور کیا جا چکا تھا
پھر مسلمانوں کی اتنی نسلوں نے جہالت کا یہ گٹھ جوڑ اور اسکے اثرات دیکھے کہ اپنی اصل بھلا کر اب وہ بھی اس سارے اندھیرے کو اسلام سمجھتے ہیں جو مذہب کے نام پر انہیں دیا جاتا ہے۔
لیکن مجھے لگتا ہے کہ موجودہ صدی میں اللہ نے وہ تمام اسباب پیدا کر دیے ہیں جو قرآن اور ابتدائی اسلامی معاشرے کی روایات کو بحال کروانے کی طاقت رکھتے ہیں۔
انڈسٹریئلائزیشن نے مغرب کو انسانیت کا راستہ دکھایا تھا گلوبلائزیشن آف کمیونیکیشن یعنی انفارمیشن کا اس صدی میں برپا ہونے والا انقلاب اسلامی دنیا کو اسکی اصل کا راستہ دکھا رہا ہے۔
اگر مغرب سےکوئی اچھی چیز ملے تو وہ میری ہی میراث ہے۔
مغرب سے مذہبی طبقے کی نفرت سمجھ آتی ہے لیکن میں تو اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت پر چلوں گا۔میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ علم مومن کی میراث ہے جہاں سے ملے لے لیتا ہے۔ آج علامہ اقبال کا نام ہر فرقے کا پجاری لینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔جب وہ یورپ سے واپس آئے تو کہنے لگے یورپ میں مسلمان تودکھائی نہیں دیتے البتہ اسلام ہر طرف دکھائی دیتا ہے جبکہ بر صغیر میں مسلمان ہر طرف دکھائی دیتے ہیں لیکن اسلام کہیں نظر نہیں آتا۔ علامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو یورپ میں کروڑوں مسلمان دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔
یورپ اپنا دین اور کلیسا چھوڑ کر انسانیت اور روشن خیالی کی طرف گامزن ہوا۔مسلمان قرآن پر چل کر انسانیت کے مقصد کی تکمیل کرے گا۔مسلمان کے اسلام کی اصل کی طرف سفر کی شروعات سے چند طبقات کی دم پر پاؤں آنا تو لازم ہے۔
اسلام کے نام کو استعمال کرنے والی بدکردار ریاست کے سول اور فوجی مالکان اور انکے مذہبی پارٹنرز کی معیشیت کی بقا اسی میں ہے کہ مسلمان اسلام کی اصل کی جانب سفر روک دے۔تبھی اعتدال اور روشن خیالی کی بات کرنے والوں پر مغربیت کا الزام لگا کر اعتدال اور عقل کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لیے زور لگایا جاتا ہے۔
قرآن کی طرف لوٹنے کی صدی آچکی ہے۔
اب ہر دباؤ ٹھکرا کر اپنی اگلی نسلوں کو حقیقی اسلام کا راستہ دکھا جائیے۔
علم اور عقل آپکی ہی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے لے لیجیے۔
یاد رکھیے اوپر بیان کیا گیا فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یہ واضع کرتا ہے کہ علم کا معاملہ ہو تو مسلمان اور تعصب متضاد ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قرآن کی طرف لوٹنے کی صدی آچکی ہے۔۔۔۔۔رضوان خالد چوہدری

  1. کچھ لوگوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کو خبر بنانے پر مصر ہوتے ہیں جبکہ ان کی خواہش حقیقت میں ایک حسرت سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ مصنف سائنسدانوں کا کریڈٹ مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالنے سے پہلے کم از کم تاریخ سے اس بات کی تصدیق کرلیتے کہ ان میں سے کتنے تھے جنہیں کافر و زندیق قرار دے کر ان کی کتابیں نہیں جلائی گئیں۔ دراصل یہ مطالعہء پاکستان ذہنیت کے تحت لکھا گیا ایک گمراہ کن مضمون ہے جس کے ذریعے حالات سے بے خبر مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

Leave a Reply