دنیا کو بدل دینے کا عزم ۔۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

اس کی زندگی ایک پل کے نیچے چند گز کے ٹھکانہ پر مشتمل تھی جسے گھر کہنا بھی مذاق ہی تھا – اس نے اپنے باپ کی تو شکل ہی نہیں دیکھی تھی جبکہ ماں اپنے لئے اور اس کے لئے پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے سارا دن یہاں وہاں گھومتی رہتی اور جو کچھ ملتا دونوں ماں بیٹا کھا پی کر زندگی کے دن گزار رہے تھے –

اس کی ماں کو کہیں سے ایک ٹوٹا پھوٹا کھلونا مل گیا تھا جو وہ اس کے لئے لے آئی اور وہ سارا دن اس کے ساتھ کھیلتا رہتا یا پھر اپنی چھت کو گھورتا رہتا جو کہ پل (bridge) کا پیندا تھا –

ایک دن جب اس کی ماں وہاں نہیں تھی تو ایک لمبے تڑنگے بندے نے اسے اغواء کر لیا – وہ بہت چھوٹا تھا اور اس کے رونے, شور مچانے کے باوجود بھی کوئی اس کے اغواء کی طرف متوجہ نہیں ہوا (دنیا بہت بےحس ہو چکی ہے) – اغواء کار اسے اپنے گھر لے گیا جو کہ اس کے چند گز جگہ والے پل کے نیچے والے ٹھکانہ سے بہت بڑا تھا – اغواء کار نے اسے ایک کمرے میں بند کر دیا مگر اسے تینوں وقت کھانا دینے کے لئے وہی اغواء کار اس کے پاس آتا تھا –

اغواء کے بعد اس کی زندگی یکسر بدل گئی تھی – اب اس کی دنیا پل کے نیچے وہ چند گز کی جگہ نہیں تھی بلکہ ایک بڑا کمرہ تھا جہاں اسے کھانا بھی مناسب مقدار میں اور مقررہ وقت  پر مل جاتا تھا – اب اس کا زیادہ وقت پل کا پیندا دیکھتے رہنے کی بجائے کمرے کی اندرونی چھت, اس پر لگے مکڑی کے جالے اور کھڑکی کو دیکھتے ہوئے گزرتا تھا – اسے اپنی پرانی زندگی یاد آتی تھی جب وہ پل کی چھت دیکھنے کے علاوہ آتے جاتے لوگوں, گاڑیوں اور سکول جاتے ہوئے بچوں کو ہنستے کھیلتے جاتا ہوا دیکھا کرتا تھا – وہ تنہائی محسوس کرتا تھا اور خوفزدہ رہتا تھا – وہ زیادہ تر وقت روتا رہتا تھا اور اپنی ماں کو یاد کرتا رہتا تھا –

جس نے اسے اغواء کیا تھا وہ اسے فروخت کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس مارکیٹنگ کی سمجھ بوجھ بالکل بھی نہیں تھی – اس نے مختلف وقتوں میں کئی لوگوں کو اپنے گھر بلوایا اور اسے فروخت کرنے کے لئے انہیں دکھایا مگر ان سب نے اسے مسترد کر دیا کیونکہ وہ بہت گندی حالت میں تھا اور اس سے بہت بدبو بھی آتی تھی – بالآخر ایک بہت نیک دل اور ادھیڑ عمر جوڑے نے اسے خرید کر گودلے لیا اور اسے اپنے گھر لے آئے – اس کی زندگی ایک دفعہ پھر بدل گئی تھی –

اس جوڑے کی کوئی اولاد نہیں تھی لہذا انہوں نے اس کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی – انہوں نے اسے ہر وہ چیز مہیا کی جس کے بارے میں وہ سوچ سکتا تھا – یہ ان کے پاس گزرنے والی زندگی ہی تھی جب اس نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ صاف اور نیلا آسماں دیکھا – جب وہ بڑا ہو رہا تھا تو وہ نیک دل جوڑا اسے گود لینے کی ساری کہانی بتاتا رہتا تاکہ وہ سب سمجھتا رہے لیکن اسے ویسے بھی یہ سب کچھ بہت اچھی طرح یاد تھا – وہ اس نیک دل جوڑے سے بالکل ویسے ہی پیار کرتا تھا جتنا  اپنی بچھڑی ہوئی سگی ماں سے –

اس نے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے بہت سارے منصوبے بنائے اور خصوصاً بےگھر لوگوں کو گھر دینے کی بھی بہت منصوبہ بندی کی – وہ اکثر باہر گھومتا رہتا تاکہ یہ جان سکے کہ فٹ پاتھوں, ریلوے ٹریکس کے نیچے اور پلوں کے نیچے گزرنے والی زندگی میں کیا مسائل ہیں اور وہاں رہنے والے ان مشکلات کا کیسے مقابلہ کرتے ہیں – وہ خصوصا” یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ وہ کیسے ہیں جن کی دنیا چند گز پر محیط ہے اور جن کے پاس کوئی صاف اور نیلا آسمان نہیں ہے –

وہ یہ سب کچھ بدل دینا چاہتا تھا لیکن وہ مکمل بے بس تھا – کیونکہ آخر کار وہ لیبراڈور نسل کا ایک کتا ہی تھا-

Advertisements
julia rana solicitors london

پس تحریر نوٹ:-
راقم نے یہ تحریر ایک کتے کے اغواء اور ایک نیک دل جوڑے کے پاس اس کی اچھی دیکھ بھال کے بارے  میں ہی لکھی ہے – اگر کوئی شریر ذہن اسے انسانوں کے سیاسی و مقامی حالات پر متماثل کرنا چاہے تو یہ اس کی ذہنی اختراع ہو گی – راقم کا کسی بھی ایسی سوچ سے کوئی تعلق نہیں ہے –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply