جائے پناہ ۔۔۔ محمد منیب خان

 زندگی ایک سفرِ مسلسل ہے ایک ارتقائی عمل ہے۔ اس ارتقاء کو جانچنے اور سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ خود کو منظر نامے سے باہر نکالیں اور گذشتہ تین سے چار دھائیوں پہ ایک نظر ڈالیں۔ یہ گزشتہ تین دھائیاں صرف تیس سال نہیں یہ تین ہزار سال کے برابر محسوس ہوں گے۔ انسانی زندگی کا اجتماعی ارتقاء، سائنسی اور معاشی ترقی کی بنیاد بنتی ایجادات ان تیس سالوں میں اتنی تیزی سے اثر انداز ہوئیں ہیں کہ جو لوگ تیس سال پہلے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے ہیں اگر دوبارہ اس دنیا میں لائے جائیں تو وہ اس دنیا کو کوئی جادو نگری سمجھیں۔ میں ایک طرف زندگی میں ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتا ہوں تو دوسری طرف ایمانداری  سے سمجھتا ہوں کہ انسان سائنس اور معاشرت میں کچھ بھی نیا کر لے لیکن اخلاقی اقدار کو بدلا نہیں جا سکتا۔ کم از کم بنیادی اخلاقی اقدار بارے تو مجھے یقین ہے۔ کہ زندگی کا ارتقاء ان اقدار کو بدل نہیں سکتا ہاں کسی ایک صورت میں نظر انداز کر سکتا ہے بھلا سکتا ہے لیکن بدل نہیں سکتا۔ یہ بنیادی اخلاقی اقدار کیا ہیں؟ یہ بنیادی اخلاقی اقدار وہی ہیں جو آدم علیہ  السلام سے محمد رسول اللہ ﷺ  تک نے نہ صرف ہمیں بتائیں بلکہ وہ خود اس کا عملی نمونہ بھی بنے۔ آج بھی سچ کی عزت و توقیر ہے اور جھوٹ کو برا مانا جاتا ہے۔ مادر پدر آزاد معاشروں میں بھی بنیادی اخلاقیات کا درس موجود ہے مغرب والے آج بھی ایمانداری اور سچ کو اچھا سمجھتے  ہیں حتی کہ وہ بد فعلی کا جواز بھی نہیں دیتے۔
یہ صورتحال ہے آج دوہزار اٹھارہ میں۔ اس ساری تمہید کا مقصد کلی طور پہ اس طرف توجہ مبذول کروانا ہے جس طرف کم و بیش ہم دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ مغرب کی بنیادی دینی اور معاشرتی اخلاقیات کچھ بھی ہوں لیکن ایک بات نظر آتی ہے کہ وہ بطور معاشرہ چند ایک ایسی برائیوں سے بچے ہوئے ہیں جو کہ ہمارا دینی فریضہ تھا اور ہم نے نظر انداز کر دیا۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ “بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے” آپ ایمانداری سے بتائیں گھر سے لے کر سکول اور آفس تک اور گلی سے لے موٹروے اور ہائی وے تک آپ کو کوئی بندہ  صبر کرتا ہوا نظر آئے گا؟ صبر کا ایک نام برداشت بھی ہے۔ کیا آج ہم بحیثیت قوم ایک دوسرے کو برداشت کر رہے ہیں؟ ہم سے ایک دوسرے کا نظریہ برداشت نہیں ہو رہا۔ہم سے دو منٹ ٹریفک سگنل پہ صبر نہیں ہو رہا۔ ہم سے رونے والے کی ڈھارس نہیں بندھائی جا رہی۔ ہم سے بنا رشوت کے دفتر میں کام نہیں کیا جا رہا۔ ہم سے سفارش کے بغیر درخواست نہیں دی جا رہی۔ یہ المیہ ہے کہ آدمی آدمی کو کھا رہا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے نظریات کا گلا کاٹ رہا ہے۔ اللہ اللہ صرف نظریاتی کا گلا؟ اب تو باقاعدہ مخصوص نظریات والوں کے گلے چن چن کے کاٹے جا رہے ہیں۔ ہر انسان کے پاس دوسرے انسان کے لیے فتوی تیار ہے۔ سوشل میڈیا پہ پھیلی بحثیں  یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ سب مسالک ایک دوسرے کی نظر میں ملعون اور کافر ہیں۔ اخبارات میں پھیلی خبریں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ سب سیاستدان کرپٹ ہیں۔
کیا کوئی شخص جانتے بوجھتے ہوئے گناہ کرتا ہے؟ کر سکتا ہے بہکایا جا سکتا ہے لیکن اس بہکاوے کے بعد توبہ کی ندا آنی چاہیے۔ ہم علی لاعلان ایک دوسرے کو روند رہے ہیں اور توبہ کی آواز ندارد۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ دو انسان صرف شکل میں مختلف ہو سکتے ہیں عقل کے لحاظ سے سب کو وہی سوچنا چاہیے جو میں سوچ رہا ہوں۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ مخالف سیاسی نظریے یا مذہبی فکر کے حامل لوگ لذت گناہ میں اس قدر گم ہیں کہ جب تک ہم دو چار گالیاں نکال کے ان کو ہوش نہ دلائیں گے ان کو کچھ سمجھ آنے والا نہیں۔ ہمارا کردار ماضی بن گیا ہے ہماری زبان سے نکلی مغلظات ہمارا حال ہے اور ہمارا مستقبل اس راستہ پہ مخدوش۔
لوگ کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا (نوے  کی دھائی میں) نہ تو سیاسی نظریات کی ایسی جنگ تھی نہ مسلک کے فتوے تھے۔ لوگ غلط کہتے ہیں۔ اس وقت صرف نہیں تھا تو سوشل میڈیا نہیں تھا۔ موبائل اور انٹرنیٹ نہیں تھا۔ ایک مجمع کی بات اس مجمع تک محدود رہتی تھی ایک سیاسی جلسے کی تقریر اس جلسے تک تھی۔ ایک فتوی بس اپنے سامع تک تھا۔ اب وقت بدل گیا ہے کوئی شخص بھی موبائل اٹھاتا ہے کیمرہ آن کرتا ہے اور آن کی آن میں وہ سینکڑوں لوگوں تک بلکہ ہزاروں تک اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے۔ اب کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ اس شخص کی ذہنی استعداد کیا ہے۔ اس کا علم اور عمل کس درجے کا ہے بس یہ دیکھتے ہیں کہ مخالف پہ تبرا کیا ہو۔ آن کی آن میں ویڈیوز شئیر ہو جاتی ہیں۔ جھوٹی سچی تصویریں شئیر ہو جاتی ہیں۔ جھوٹ کو فخر سے پھیلاتے ہیں۔ جبکہ دین نے جھوٹ سے منع کیا بلکہ سخت الفاظ میں روکا حتی کہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا۔ لیکن چھوڑیں جی سوشل میڈیا پہ سب چلتا ہے۔ جھوٹ بھی چلتا ہے بلکہ جھوٹ ہی تو چلتا ہے۔
اس سارے منظر نامے میں کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ سچ بولنے والوں کو، صبر اور برداشت کرنے والوں کو جائے پناہ کہاں ملے گی؟ مجھے نفرت کی تعلیم نہیں دی گئی مجھے سرکار دو عالم صﷺ کے وہ دعائیہ الفاظ یاد آتے ہیں کہ جب ان پہ طائف کی وادی میں پتھر پھینکے اور جبریل امین نے کہا کہ آپ ﷺ  کہیں تو دونوں پہاڑوں کو ملا کر ان کو تباہ کر دوں۔ سرکار دو عالم ﷺ فرمایا، مفہوم: ممکن ہے  ان کے بعد کے لوگ ایمان لے آئیں۔ کیا یہ ممکن ہے ، بعد کے پاکستانی سدھر جائیں؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply